سیاست کے پنج ہزاری

نصرت جاوید  جمعـء 29 مارچ 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

2012ء کے دوران ہر دوسرے تیسرے مہینے کسی نہ کسی رائے عامہ کا جائزہ لینے والے ادارے کی طرف سے کوئی سروے آ جاتا اور ہمارے ٹیلی وژن اسکرینوں پر بیٹھے بقراط ان نتائج کی بنیاد پر سیاسی جماعتوں اور ان کے رہ نمائوں کا مقدر طے کرنا شروع ہو جاتے۔ میں نے ایک دو بار ان کالموں میں یہ گزارش کرنے کی کوشش کی کہ ایسے سروے جن بنیادوں پر مرتب کیے جاتے ہیں ان کا ہمارے زمینی حقائق سے تعلق بڑا کھوکھلا ہوتا ہے۔ جو طریقہ کار (Methodology) یہ سروے اختیار کرتے ہیں وہ یورپی اور امریکی صارفین کو ذہن میں رکھ کر بنائی گئی تھی۔ ہمارا معاشرہ قطعی دوسری نوعیت کا ہے۔

گزشتہ پانچ ہزار سالوں سے اس خطے پر ہر طرح کی یلغار ہوئی ہے۔ صرف اپنے تحفظ کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہمارے لوگوں کی اکثریت کا DNA بہت ہی محتاط نوعیت کا ہے۔ ہمارے شاعر کسی ایسے شخص کی تلاش میں پوری زندگی گزار دیا کرتے تھے جسے وہ اپنے دل کا حال سنا سکیں۔ کلاسیکی اُردو شاعری پڑھ لیں تو ایک لمحہ کو بھی شک نہیں گزرتا کہ شاعر کسی خاتون کو دل دے بیٹھا ہے۔ محبوب ہمیشہ مذکر ہی رہا۔ اس کے باوجود اس کی آنکھوں یا ہونٹوں کا تذکرہ کرتے ہوئے ستاروں اور گلابوں جیسے استعاروں کی ضرورت رہتی۔ استعاروں اور علامتوں کے ذریعے اپنی دلی کیفیات کا اظہار کرنے والے لوگوں سے آپ چند سادہ سوالات کرنے کے بعد ہرگز نہیں جان سکتے کہ وہ کونسی جماعت کو ووٹ دیں گے۔

پارلیمانی جمہوریت کو چلنے دیا جاتا تو شاید اس معاملے میں کچھ آسانیاں پیدا ہونا شروع ہو جاتیں۔ مگر ایوب خان، ضیاء الحق اور جنرل مشرف کے دس دس سالوں نے ہمیشہ سیاسی جماعتوں کو اپنا اصلی نشانہ بنایا۔ مارشل لاء لگانے کے بعد یہ فوجی آمر پرانے بادشاہوں کی طرح ضلعی حکومتوں کے نام پر اپنے وفادار ’’پنج ہزاری‘‘ پیدا کرنا شروع ہو جاتے۔ اس کا بالآخر نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب لیڈر اور ان کے وفادار تو ہیں۔ مگر ایک منظم سیاسی جماعت کا تصور ختم ہوتا جا رہا ہے۔ عمران خان نے بڑی ضد کرتے ہوئے اپنی جماعت میں انتخابات کروانے کے بعد ایک منظم سیاسی جماعت بننا چاہا۔ خیال بہت مثبت اور جاندار تھا۔ مگر نتیجہ کیا نکلا؟ صرف راولپنڈی شہر کا تذکرہ کر لیتے ہیں۔

اس شہر کے دو مرکزی حلقے ہیں۔ NA-55 اور 56۔ ان دونوں میں سے NA-55 پر شیخ رشید 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے ذریعے نمودار ہو کر بتدریج اپنی ذات میں ’’پنج ہزاری‘‘ بن گئے۔ مجلسِ احرار کے شورش کاشمیری کا اتباع کرتے ہوئے چوہدری ظہور الٰہی کی سرپرستی تک پہنچے۔ اپنے تئیں ’’پنج ہزاری‘‘ بن جانے کے بعد جونیجو حکومت کی مخالفت کرتے ہوئے 1999ء تک نواز شریف کے وفادار رہے۔ پھر جنرل مشرف آئے تو 55/56 کی دونوں نشستیں جیت کر جنرل حامد جاوید کی پشت پناہی سے حکومتی ترجمان بن گئے۔ 2008ء میں ان کی ’’پنج ہزاری‘‘ مگر چھن گئی۔ ایک نہیں دو مرتبہ اپنے ہی حلقے سے ہارے۔ آدمی مگر سیانے ہیں۔

سمجھ گئے کہ پاکستان میں ٹیلی وژن نیٹ ورک اور ان کے ٹاک شوز ضرورت سے کچھ زیادہ ہو گئے ہیں۔ باقاعدگی سے طے کرنے کے بعد مختلف پروگراموں میں اکیلے بیٹھ کر ریٹنگ لیتے اور دلواتے رہے۔ اب عمران خان نے انھیں اپنی جماعت میں شامل کیے بغیر آیندہ انتخابات میں اپنی حمایت کا یقین دلا دیا ہے۔ شیخ رشید کے ساتھ والے حلقے میں بھی تحریکِ انصاف کو کوئی نیا چہرہ نہیں ملا۔ NA-56 سے عمران خان خود قومی اسمبلی کی نشست کے لیے کھڑے ہو گئے ہیں۔ ٹھنڈے دل سے سوچئے تو کتنا بڑا بحران ہے کہ ’’تبدیلی کا نشان‘‘ اور نوجوانوں کی علامت بنا عمران خان NA-55 اور 56 سے ایک بھی ’’نیا چہرہ‘‘ نہیں دے پایا۔ راولپنڈی جیسے پڑھے لکھے متوسط طبقے والے شہر میں یہ عالم ہے تو دور دراز دیہاتوں میں کتنا ’’انقلاب‘‘ آیا ہو گا۔

راولپنڈی کے حوالے سے نظر آنے والے اس واضح بحران کے تناظر میں تحریکِ انصاف کو اس لیے معاف کیا جا سکتا ہے کہ وہ ایک حوالے سے ایک نئی جماعت ہے۔ مگر نواز شریف کی مسلم لیگ کا حال تو اس سے بھی کہیں زیادہ پتلا ہے۔ نواز شریف کی محبت میں NA-55 والوں نے ایک مرتبہ نہیں دو مرتبہ شیخ رشید کو ناکام بنایا۔ مگر اس کے بدلے نواز شریف نے انھیں جو ’’کارکن‘‘ دیا اس سے متعلقہ جھوٹی سچی کہانیوں نے رائے ونڈ والوں کو پریشان کر دیا۔ میرے ذاتی علم میں ہے کہ تقریباََ تین ماہ پہلے سے شکیل اعوان کا متبادل تلاش ہونا شروع ہو گیا تھا۔ مسلم لیگ نون کے مقامی لوگوں نے ایک اور کارکن سردار نسیم کی حمایت کی۔ نواز شریف صاحب مگر مطمئن نہ ہوئے۔ انھوں نے NA-55 سے کچھ ایسے لوگوں کو بھی انتخاب لڑنے کے لیے قائل کرنا چاہا جن کا عملی سیاست سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا۔

وہ تیار نہ ہوئے تو آخری لمحات تک شہباز شریف کو شیخ رشید کے مقابل لانے کے لیے سوچا جا رہا تھا۔ ایسے میں علی احمد کرد نے اپنے تئیں اس حلقے سے ’’آزاد‘‘ کھڑا ہونے کا فیصلہ کر ڈالا۔ پیپلز پارٹی کو یہ حلقہ تو 1988ء سے طلاق دے بیٹھا ہے اور رجوع کی کوئی گنجائش فی الحال نظر نہیں آ رہی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شہباز شریف کے نام نہاد گڈ گورننس والے پانچ سالوں کا کیا فائدہ جو NA-55 سے مسلم لیگ کے کارکنوں میں سے کسی کو اُٹھا کر اس حلقے سے قومی اسمبلی کا رکن نہ بنا سکے؟ مسلم لیگ نواز کو NA-55 سے ڈھنگ کا کوئی امیدوار اس لیے نہیں مل پا رہا کیونکہ ’’خادم ا علیٰ‘‘ نے گزشتہ پانچ برسوں میں کمشنر، ڈی سی او اور دوسرے افسران کے ذریعے ’’گڈ گورننس‘‘ فرمائی ہے۔ اگر یہی کام انھوں نے منتخب ضلعی حکومتیں بنوا کر ان کے ذریعے کیا ہوتا تو آج یہ دن دیکھنا نہ پڑتا۔

ہمارے ’’خادم اعلیٰ‘‘ جیسے لیڈروں کا مگر مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ تنِ تنہا ’’عدل جہانگیری‘‘ قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اپنی ذات کے اِرد گرد چھوٹے چھوٹے دیے بھی جلنے نہیں دیتے۔ برگد کے درخت بن کر ہر سو پھیل جاتے ہیں اور زمین سے اُبھرتے کسی پودے کو توانا نہیں بننے دیتے۔ اسی لیے تو جب کوئی جنرل مشرف اُٹھ کر ان کا تختہ کر دیتا ہے تو کہیں سے کوئی ٹھوس مزاحمت نہیں ہوتی۔ ان کے ’’پنج ہزاری‘‘ جرنیلوں کی بنائی قاف لیگ کی چھتری تلے گھس جاتے ہیں۔ گزشتہ پانچ برسوں میں شریف برادران نے ہرگز کوئی ایسا کام نہیں کیا جو ان کے بنائے ’’پنج ہزاریوں‘‘ کو آیندہ بنائی کسی قاف لیگ میں جانے سے روک سکے۔11 مئی کے قریب آتے ہوئے تو یہ دونوں بھائی اب مشرف کے ’’پنج ہزاریوں‘‘ کو بھی گلے لگانے کے لیے بے چین ہو رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔