الیکشن 2013: ماحولیاتی مسائل

محمود عالم خالد  جمعـء 29 مارچ 2013

ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی حکومت اپنی آئینی معیاد پوری کرچکی ہے۔ آئین کے مطابق الیکشن کمیشن کا قیام عمل میں آیا جس پر کم و بیش سب کا اعتماد ہے۔ نگراں حکومتیں قائم ہوچکی ہیں اور ملک میں انتخابی عمل پورے آب و تاب سے جاری ہے۔ اس وقت بھی بعض ایسے عناصر موجود ہیں جن کے نزدیک جمہوریت ایک ناپسندیدہ طرز حکومت کا نام ہے اور وہ اس عمل کو مسلسل سبوتاژ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ لیکن یہ امر خوش آیند ہے کہ ملک کی آزاد عدلیہ، میڈیا، سول سوسائٹی سمیت قابل ذکر سیاسی و مذہبی قیادتیں جمہوری تسلسل کی حامی ہیں۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ دنیا میں موجود اقوام کی غالب اکثریت نے جمہوری طرز حکومت کو اپنا کر ہی پائیدار ترقی کو ممکن بنایا ہے۔ انتخابی عمل میں حصہ لینے والی تمام بڑی جماعتیں اپنے منشور عوام کے سامنے پیش کرچکی ہیں۔ وہ اپنے منشور کے ذریعے عوام کو یہ باور کرارہی ہیں کہ اقتدار میں آنے کے بعد عوامی مسائل کس طرح حل کریں گی۔ یہ تلخ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ گزشتہ 65 برسوں میں پاکستان، مسائلستان میں تبدیل ہوچکا ہے۔ جمہوری عمل کے عدم تسلسل کے باعث قانون کی حکمرانی مستحکم نہیں ہوسکی ہے جس کی وجہ سے ملک کے تمام شعبوں میں ایک متوازی مافیا وجود میں آچکی ہے جو کسی بھی جمہوری منتخب حکومت کو ناکام بنانے کے لیے ہر حربہ استعمال کرتی ہے اور آیندہ بھی کرتی رہے گی۔

تاہم، ان مشکلات کے باوجود پاکستان کی متحرک سول سوسائٹی، آزاد عدلیہ، میڈیا اور سیاسی جماعتوں نے عوام کے اعتماد کو بحال کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ لہٰذا توقع کی جاسکتی ہے کہ الیکشن 2013 کے انتخابی عمل میں عوام غیر معمولی تعداد میںشریک ہوں گے۔ پاکستان میں مسائل کا انبار موجود ہے۔ ہمارے انتہائی بنیادی مسائل میں دہشت گردی، کرپشن، بے روزگاری، توانائی کے بحران شامل ہیں۔ اس کے علاوہ موسمیاتی تبدیلی بھی ایک انتہائی اہم مسئلہ ہے جو آنے والی حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ثابت ہوگا۔

گزشتہ چند دہائیوں سے رونما ہونے والی موسمیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات براہ راست عوام پر مرتب ہورہے ہیں سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ اس مسئلے کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل کریں۔ یہ بات یاد رکھنی ضروری ہے کہ پاکستان کا شمار دنیا کے ان چند ملکوں میں کیا جانے لگا ہے جو اس تبدیلی سے شدید طور پر متاثر ہورہے ہیں۔ پاکستان جس خطے میں واقع ہے وہاں کا درجہ حرارت عالمی اوسط سے متوقع طور پر زیادہ بڑھ رہا ہے۔ دوسری جانب ملک کے شمال میں گلیشیئر تیزی سے کم ہورہے ہیں اور جنوب میں طوفان، خشک سالی اور سیلاب کی شکل میں موسمیاتی تبدیلی کے واضح اثرات نظر آرہے ہیں۔

یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ گزشتہ 65 برسوں میں ماحولیاتی مسائل سے صرف نظر کرتے ہوئے انھیں بھی اپنی انتہا پر پہنچا دیا گیا ہے جس کے نتیجے میں زراعت، آبی وسائل، توانائی، صحت، جنگلی حیات کی بقا، موسمی شدت اور صحرا زدگی جیسے مسائل میں بے پناہ اضافہ ہوچکا ہے۔ پاکستان کو ماحولیاتی انحطاط کی وجہ سے 400 ارب روپے سے زائد سالانہ کا نقصان برداشت کرنا پڑرہا ہے۔

زمینی درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے موسم اور آب و ہوا میں جو تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں اس کا نقصان پاکستان کے عوام کو براہ راست اٹھانا پڑرہا ہے۔ پاکستان صرف چند برسوں میں زلزلے اور دو بھیانک سیلابوں سے دوچار ہوچکا ہے جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، گھر، املاک، مال مویشی اور فصلیں تباہ ہوگئیں۔ مالی نقصان کا اندازہ کھربوں روپے لگایا گیا۔ گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے اور جنگلات کی بے دریغ کٹائی کے سبب شمالی علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ کا عمل تیز تر ہوتا جارہا ہے۔ ایسی ہی ایک بڑی لینڈ سلائیڈنگ کے نتیجے میں عطا جھیل وجود میں آئی جس کی وجہ سے ہزاروں افراد متاثر ہوئے، املاک تباہ ہوئیں اور سرکاری خزانے کو اربوں کا بوجھ برداشت کرنا پڑا۔ موسمیاتی تغیر کی وجہ سے ہماری زراعت شدید متاثر ہورہی ہے۔

ماہرین کے مطابق گندم کی پیداوار میں کمی واقع ہورہی ہے۔ اس کے علاوہ دیگر فصلوں پر بھی منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ ملک میں موجود پانی کے ذخائرمسلسل کم ہورہے ہیں۔ پانی کے حوالے سے پاکستان ریڈ زون میں شامل ہوچکا ہے، ہمارا شمار دنیا کے ان 17 ملکوں میں کیا جانے لگا ہے جو پانی کی شدید قلت کا شکار ہیں۔ 2040 تک ہمارے 40 فیصد پانی کے وسائل ختم ہوجائیں گے۔ ماحولیاتی مسائل اور موسمی تغیرکے باعث پیدا ہونے والے مسائل کی ایک لمبی فہرست ہے جو پاکستان کے عوام کو براہ راست متاثر کررہی ہے۔ عوام میں ماحولیاتی و موسمیاتی مسائل کے بارے میں آگہی نہ ہونے کا معاملہ قابل فہم ہے۔ تاہم، ہماری سیاسی و مذہبی جماعتوں میں اس حوالے سے شعور کا جو فقدان پایا جاتا ہے وہ ایک انتہائی افسوسناک امر ہے۔پاکستان قدرتی ماحول کے حوالے سے ایک منفرد ملک ہے۔

اس لحاظ سے انتخابی حلقوں کا تعلق بھی مختلف جغرافیائی ماحول اور اس کے پس منظر سے ہوتا ہے جن میں پہاڑوں، دریائوں، نہروں، جھیلوں، ریگستان اور جنگلات کا ہونا ایک فطری امر ہے۔ اس تناظر میں انتخابات میں ان امیدواروں سے کڑے سوالات کیے جاسکتے ہیں جو الیکشن 2013 میں حصہ لے رہے ہیں۔ ان سے پوچھا جاسکتا ہے کہ وہ کامیابی کی صورت میں اپنے حلقوں میں قدرتی اور ماحولیاتی اثاثوں کو بچانے اور انھیں محفوظ کرنے کے لیے کیا اقدامات کریں گے۔ اس عمل کے ذریعے ہم بیک وقت اپنے معاشرے، سیاسی جماعتوں اور انتخابی امیداروں کے سامنے ماحولیاتی و موسمیاتی مسائل کی سنگینی کو بڑے پیمانے پر اجاگر کرسکتے ہیں اور انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتوں کو اس حوالے سے غور و فکر پرآمادہ بھی کرسکتے ہیں۔

جمہوری معاشروں میں مسائل کو بالخصوص انتخابات کے دوران سامنے لاکر ان کے حل کے لیے دبائو ڈالنے کا یہ نہایت موثر طریقہ ہے جس پر ہمیں بھی عمل کرنا چاہیے۔ قدرتی ماحول کی تباہی، تیزی سے پھیلتی ہوئی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلیوں سے ملک کے عام شہری متاثر ہورہے ہیں اور معیشت کو بھاری نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے لہٰذا مستقبل قریب میں برسر اقتدار آنے والی مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو ان اہم مسائل کا ہرحال میں سامنا کرنا پڑے گا۔ انھیں متعلقہ حکومتی شعبوں پر کڑی نظر رکھنی ہوگی کیونکہ ان کی کا رکردگی کو کسی طور اطمینان بخش نہیں کہا جاسکتا ہے۔

صوبائی سطحوں پر ماحولیاتی ٹریبونل قائم ہیں جو زیادہ فعال نہیں ہیں۔ ہماری سیاسی جماعتوں کو ملک کے عوام کو موسم اور آب و ہوا کی تبدیلی اور ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے کے لیے واضح لائحہ عمل دینا ہوگا۔ یہ حقیقت خوش آیند ہے کہ کئی سیاسی جماعتوں نے اپنے منشوروں میں ماحولیاتی مسائل کو اجاگر کیا ہے لیکن اس حوالے سے انھیں اور زیادہ ٹھوس اور جامع پالیسیوں کا اعلان کرنا ہوگا۔

الیکشن 2013، عوام، سول سوسائٹی، میڈیا کو نادر موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ ماحولیاتی تحفظ اور موسمیاتی تغیر جیسے اہم مسائل کو بھرپور انداز میں اجاگر کریں تاکہ سیاسی جماعتیں اس ضمن میں اپنی لاتعلقی ختم کرکے زیادہ سنجیدہ رویہ اختیار کریں اور معرضِ وجود میں آنے والی پارلیمنٹ مطلوبہ ترجیحی طور پر قانون سازی کرسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔