علامہ احسان الٰہی ظہیر کی سیاسی زندگی…

حافظ ابتسام الٰہی ظہیر  جمعـء 29 مارچ 2013

علامہ احسان الٰہی ظہیر فطری طور پر سیاسی رجحانات رکھتے تھے، قومی جرائد ہی کا مطالعہ نہ کیا کرتے بلکہ بین الاقوامی جرائد بھی اکثر آپ کے زیر مطالعہ رہا کرتے تھے اور ویسے بھی ایک شخص جو سیاسی معاملات کو سمجھتاہو ان کو سلجھانے کی صلاحیت رکھتا ہو اور ان پر ماہرانہ رائے دینے کا اہل ہو وہ کیونکر زیادہ دیر سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرسکتا ہے؟

آپ کی سیاسی زندگی کا آغاز تو اسی دن ہوگیا تھا جب آپ نے مینار پاکستان میں ہزاروں کے اجتماع سے خطاب کیا تھا لیکن باضابطہ طور پر آپ میدان سیاست میں اس وقت قدم رنجہ ہوئے جب سقوط مشرقی پاکستان کا المناک سانحہ رونما ہوا، اس سانحے نے آپ کے جذبات کی دنیا میں تلاطم پیدا کردیا تھا، آپ اتنے مضطرب ہوئے کہ نظری سیاست کو ترک کرکے عملی سیاست میں داخل ہونے کا ارادہ کرلیا۔

جب مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنا، اس وقت میری عمر بمشکل چار ماہ تھی اور میں بابا کا پہلا بیٹا تھا، بابا نے میری پیدائش پر بہت خوشی اور مسرت کا اظہار کیا تھا اور غالباً اسی مسرت اور خوشی کی نسبت سے میرا نام ابتسام یعنی ’’مسکراہٹ‘‘ رکھ دیا تھا لیکن بنگال کے علیحدہ وطن بننے پر آپ اتنا مغموم ہوئے کہ بے ساختہ یہ کہا تھا:

’’میرا ایک ہی بیٹا ہے، اگر کٹ جاتا مرجاتا تو مجھے اتنا افسوس نہ ہوتا جتنا آج مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر ہوا ہے‘‘

آپ نے سقوط ڈھاکا کے موقع پر چینیانوالی مسجد میں ارشاد فرمایا تھا، وہ آج بھی مجھے رلا رہا ہے، آپ نے کہا تھا۔   ؎

مسجدیں تمہیں بلاتی رہیں

منبر و محراب تمہیں آوازیں دیتے رہے

رب کا قرآن تم کو روکتا رہا!

رسول اﷲ ﷺ کا فرمان تم کو ٹوکتا رہا!

لیکن تم نے ہر چیز کو پامال کردیا!

اور نتیجتاً تم خود پامال ہوکر رہ گئے ہو!

آپ کو مشرقی پاکستان سے کتنا پیار تھا۔ آپ اس کے شہروں کو کتنا یاد کرتے تھے، سقوط ڈھاکا پر پڑھائے گئے خطبہ جمعہ میں آپ کتنے پیار سے مشرقی پاکستان کے شہروں کا نام لے رہے تھے، آپ کیسے کہہ رہے تھے، تم نے پٹنہ کو چھوڑا، تم نے پونا کو چھوڑا، تم نے کھلنا کو چھوڑا، تم نے چٹاگانگ کو چھوڑا، تم نے راس کماری کو چھوڑا ہے۔

آپ نے عالم وارفتگی میںیہ کہا تھا۔ خدا کی قسم! مجھے چٹاگانگ کی سرزمین اتنی ہی پیاری ہے جتنا لاہور اور سیالکوٹ پیارا ہے، سانحہ سقوط مشرقی پاکستان آپ کو صحن مسجد سے کھینچ کر بازاروں، چوراہوں اور میدانوں میں لے آیا تھا، آپ نے قریہ قریہ، نگر نگر، بنگلہ دیش نامنظور کی تحریک چلائی، یہاں تک کہ بیرونی نیوز ایجنسیاں بھی اس بات کو ماننے پر مجبور ہوگئیں کہ پاکستان میں چار افراد بنگلہ دیش نامنظوری کی تحریک میں سرفہرست رہے ہیں جن میں سے ایک احسان الٰہی ظہیر ہیں۔

سانحہ مشرقی پاکستان کے ساتھ ہی مغربی پاکستان یا بقیہ پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت قائم ہوگئی، ذوالفقار علی بھٹو کے کردار کا  بھی تقسیم وطن کے حوالے سے ذکر کیا جا رہا تھا، ادھر ہم اور ادھر تم کے نعرے کا زخم ابھی بہت سے محب وطن لوگوں کے سینوں پر موجود تھا، ملک میں ذوالفقار علی بھٹو کے مخالفین کافی بڑی تعداد میں موجود تھے، سانحہ مشرقی پاکستان نے چونکہ بابا کی روح کو گھائل کرکے رکھ دیا تھا اس لیے آپ بھی اس سانحے میں شعوری یا غیر شعوری، ارادی یا غیر ارادی، بالواسطہ یا بلا واسطہ ملوث کسی بھی شخص کے بارے میں نرم رویہ اختیار کرنے پر تیار نہ تھے۔

چنانچہ آپ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف ان ہی الزامات کے باعث حریف بن گئے، ان حریفانہ جذبات میں ذوالفقار علی بھٹو کے ’ادھر تم ادھر ہم‘ کے نعرے اور سیکولر نظریات کے سبب بہت زیادہ اضافہ ہوا، آپ نے ملک بھر میں ذوالفقارعلی بھٹو کے سیکولر نظریات کی مخالفت میں تقاریر کیں، اپنی طوفانی خطابت کی وجہ سے آپ اہل اختلاف کے دلوں میں سمائے تھے۔

آپ چونکہ اہل حدیث تھے اس لیے آپ نے اپنی تبلیغی سرگرمیوں کو بھی جمعیت اہل حدیث کے پلیٹ فارم سے جاری کیا ہوا تھا، مولانا دائود کی رحلت کے بعد جماعت کے ایک معروف تاجر میاں فضل حق مرحوم جماعت کے ناظم اعلیٰ بنے، میاں صاحب بنیادی طور پر ایک تاجر آدمی تھے، آپ سیاست میں کھل کر حصہ لینے کے قائل نہ تھے، تاہم درمیانی چال چلتے ہوئے ہلکے پھلکے انداز میں سیاست کرنے کے مخالف بھی نہ تھے، بابا شہید اس پالیسی کے قائل نہ تھے، آپ اس بات کو درست نہ سمجھتے تھے کہ انسان ’’صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں‘‘ کے مصداق ہو، آپ کہتے تھے کہ انسان جو کام بھی کرے ڈنکے کی چوٹ پر کرے، غلط کو غلط کہے، درست کو درست کہے، آپ تبلیغی پلیٹ فارم سے حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی نشاندہی بڑے واضح انداز میں کرنے لگے تھے، آپ کے تیور جمعیت کے قائدین کو کھٹکنے لگے۔

جمعیت کے قائدین نے ان جلسوں اور جلوسوں میں شامل ہونے سے احتراز کرنا شروع کردیا جن میں آپ شریک ہوا کرتے تھے۔ جب کوئی شخص حکومت وقت کی پالیسیوں پر متواتر تنقید کرتا رہتا ہے تو وہ وقت کی حکومت کے عتاب  کا نشانہ بھی بنتا ہے، مقدمات بھی بنتے ہیں، جیلوں میں بھی جانا پڑتا ہے، مشکلات بھی جھیلنا پڑتی ہیں، بالکل اسی قسم کے معاملات شہید باباؒ کے ساتھ بھی رونما ہونے لگے، مختلف شہروں اور اضلاع میں آپ پر حکومتی کارندوں اور اہلکاروں کی طرف سے مقدمات کو تھونپا جانے لگا۔ جوں جوں یہ مقدمات بڑھے توں توں قائدین جمعیت آپ سے دور ہونے لگے، یہاں تک کہ وہ دن بھی آگیا جب جمعیت اہلحدیث پاکستان نے مکمل طورپر آپ سے لا تعلقی کا اعلان کردیا۔

اس عالم تنہائی میں بابا نے اس بات کا ضرور خیال کیا کہ کسی نہ کسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کی جائے، ایئر مارشل اصغر خان ان ایام میں بہت بڑے انقلابی رہنما کے طور پر متعارف ہورہے تھے، ذوالفقار علی بھٹو کی مخالفت میں پیش پیش تھے، دل کی بات دل میں رکھنے کے قائل نہ تھے، جیسا ظاہر تھا باطن بھی ویسا تھا، چنانچہ آپ نے ایئر مارشل اصغر خان کی جماعت تحریک استقلال میں شمولیت اختیار کرلی۔

مولانا احسان الٰہی ظہیر 23 مارچ 1987کو مینار پاکستان کے زیر سایہ قلعہ لچھمن سنگھ میں یوم پاکستان کے حوالے سے منعقدہ جلسہ عام میں ایک بم دھماکے میں شدید زخمی ہوگئے، آپ کو زخمی حالت میں پہلے میو اسپتال لاہور اور بعد ازاں خادم الحرمین الشریفین شاہ فہد بن عبدالعزیز کی خواہش پر ملٹری اسپتال ریاض منتقل کردیا گیا تاہم اس دوران بم کا زہر سرائیت کرچکا تھا جس سے آپ جانبر نہ ہوسکے۔ آپ 30 مارچ 1987 کو ریاض میں اپنے رب کی بارگاہ میں شہادت کی منزل عبور کرتے ہوئے حاضر ہوگئے۔ اﷲ تعالیٰ شہید بابا کی مساعی جمیلہ کو شرف قبولیت بخشے۔ (آمین)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔