تاریک اُجالا

شیخ جابر  جمعـء 29 مارچ 2013
shaikhjabir@gmail.com

[email protected]

انتخابات کا دور دورہ ہے۔ کم و بیش ہر لکھنے پڑھنے اور بولنے والا ملکی سیاست کی پل پل کروٹیں بدلتی صورتِ حال پر کچھ نہ کچھ لکھ، بول یا سُن رہا ہے۔ ان حالات میں بہت سے قارئین کی توقعات کے برخلاف میں اِن موضوعات سے اغماض برت رہا ہوں اور شاید کسی خیانت کا مرتکب ہو رہا ہوں۔ واقعہ یہ ہے کہ جمہوریت کے بارے میں، میں اپنی رائے ایک سے زائد مرتبہ پیش کر چکا ہوں۔ ’’ہوتا ہے شب وروزتماشا مرے آگے‘‘ کے مصداق انتخابات کی ہائو ہو میں جوکچھ ہورہا ہے، میری رائے کی مطابق اُس کے نتیجے میں کوئی کلیدی تبدیلی نہیں آنیوالی۔

لہٰذا اِس تمام تر عمل سے میری دل چسپی نہ ہونے کے برابر رہ جاتی ہے۔ موجودہ انتخابات کے نتیجے میں بھی روحانی، اخلاقی یا معاشی سطح پر کسی کلیدی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں۔ ایسا قطعی نہیں ہونے والا کہ لوگ اپنے ووٹ بُھگتا کر آئیں گے اور اُس کے نتیجے میں آناً فا ناً ہم سب کے سب، کیا عوام کیا خواص اعلیٰ روحانی اخلاق وکردار کے حامل ہو جائیں گے، یا ہمارے معاشی حالات بدل جائیں گے۔ دولت جو چند ہاتھوں میں مرتکز ہوئی جاتی ہے، معاشرے میں خون کی طرح گردش کرنے لگے گی۔ ہر طرف امن کے شادیانے بج رہے ہو ں گے، انصاف کا بول بالا ہو گا، وغیرہ۔ خدا کرے میری رائے اور میرے تمام تر خدشات غلط ثابت ہوں۔ لیکن میری سوچی سمجھی رائے یہ ہی ہے۔

کوئی بڑی تبدیلی یا انقلاب وغیرہ تو بڑی شے ہے۔ انتخابات اور رائے شماری کے ذریعے مندرجہ بالا جزوی تبدیلیاں بھی ممکن نہیں۔ باقی رہے سیاسی نعرے، وعدے، اعلانات اور منشورتو وہ ایفا کے لیے کب ہوا کرتے ہیں؟ اور یہ ہی جمہوریت کا حسن ہے۔ ہم ہماری سیاسی جماعت، ہمارا منشور عین حق اور حب الوطنی اور باقی سب ملک و قوم کے لیے خطرہ۔ ہمارا امیدوار ’’فرشتہ‘‘ باقی سب ’’شیطان‘‘۔ پاکستان ہو، بھارت یا امریکا سب ہی جگہ یہ ہی ایک اصول کارفرما ہے۔ جمہوریت کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ اپنے آغاز سے انجام تک تاریخ کا خوں خوار ترین نظام ہے۔

یہ ہمیشہ، ہر جگہ خوں ریزی یا شدید بحران کے نتیجے میں نمو پزیر ہوئی۔ مثال کے طور پر جنگِ عظیم اول کے بعد آسٹریا، ہنگری اور ترکی وغیرہ میں۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد جرمن اور جاپان وغیرہ میں۔ نو آبادیات کے بعد جنوبی ایشیاء میں۔ 2001 میںافغانستان پر جنگ مسلط کر کے، 2003 میں عراق پر حملے کے بعد وغیرہ۔ آج کل مشرقِ وسطی میں اسی فارمولے کے تحت جمہوریت کاشت کی جارہی ہے۔ ایک رائے کے مطابق انسانی تاریخ میں ہونے والی تمام تر ہلاکتیں ایک جانب اور گزشتہ صرف ایک ڈیڑھ صدی میں جمہوریت کے نفاذ کے لیے ہونے والی ہلاکتیں دوسری جانب ہیں۔ ممکن ہے اعداد و شمار میں کچھ خطا ہو۔ لیکن غور فرمائیے ہے کتنی خطرناک بات،اور کتنی سچی بھی۔

ہم تو خیر دنیا دار قسم کے لوگ ہیں۔ ربِ عظیم ہمارے حال پر رحم فرمائے۔ امت مسلمہ کے بہت سے علمائِ کرام جس طرح سرمایہ دارانہ جمہوریت کے پشتی بان بنے ہوئے ہیں۔ وہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ ہمارے سامنے تو سورۃالانعام ،آیت نمبر 116 کا ترجمہ پیشِ نظر ہے۔ ’’اور دنیا میں زیادہ لوگ ایسے ہیںکہ اگر آپ ان کا کہنا ماننے لگیں تو وہ آپ کو اللہ کی راہ سے بے راہ کر دیں، وہ تو محض بے اصل خیالات پر چلتے ہیں اور بالکل قیاسی باتیں کرتے ہیں۔‘‘

رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی میں معاف

آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے

بر سبیلِ ’’تذکرہ‘‘ شروع ہونے والی بات کچھ لمبی ہی ہو گئی۔ آج کے ’’تذکرے‘‘ میں ’’گرین پیس انڈیا‘‘ کی تازہ ترین رپورٹ کا ذکر مقصود تھا۔ یہ رپورٹ حال ہی میں سامنے آئی ہے۔ رپورٹ کا عنوان ہے ’’کَول کِلس‘‘ یعنی ہلاکت خیز کوئلہ۔ یہ بھارت میں کوئلے کے ذریعے بجلی پیدا کرنے اور اُس کے نتیجے میں ہونے والی انسانی ہلاکتوں اور ماحولیاتی آلودگی پر ایک چشم کُشا رپورٹ ہے۔ ’’اربن امیشن‘‘ کے تعاون سے تیار کی گئی اِس رپورٹ کو ’’ڈیبی گوئنکا‘‘ اور ’’سارتھ‘‘ نے ترتیب دیا ہے۔ سرِورق پر ممبئی کے ’’ٹاٹا پاور پروجیکٹ‘‘ کو حسین پہاڑیوں کے پس منظر میں، کثیف دھواں اُگلتے اور ماحول کو آلودہ کرتے دکھایا گیا ہے۔

ایسا ہی منظر آپ کراچی سے حیدرآباد سفر کے دوران سپر ہائی وے پر دیکھ سکتے ہیں۔ گرین پیس کی رپورٹ اپنے دامن میںعبرت ناک حقائق سموئے ہوئے ہے۔ رپورٹ کے مطابق بھارت میں کوئلے سے بجلی بنانے کے دوران پیدا ہونے والی آلودگی سے 80 ہزار سے ایک لاکھ پندرہ ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ پانچ برس سے کم عمر ہلاک ہونیوالے بچوں کی تعداد دس ہزار تھی۔ 62 کروڑ افراد سانس کی بیماریوں کا شکار ہوئے۔ 84 لاکھ افراد سینے کی بیماریوں کا شکار ہوئے۔ 20,090,000 افراد دمے کے مریض بن گئے۔ 900,000 افراد کو اِس آلودگی نے اسپتال کے ایمرجنسی وارڈ تک پہنچا دیا۔

یہ اعدادو شمار 2011-12 کے ہیں۔ اب تک ہلاکتوں کی تعداد ایک اندازے کے مطابق 120,000 ہو چکی ہے۔ واللہ اعلم۔ واضح رہے کہ بجلی کی پیداوار کے حساب سے بھارت دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ امریکا، چین اور روس کے بعد بجلی استعمال کرنے والا دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے۔ بھارت کی وزارتِ توانائی کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ ماہ (فروری2013) تک بھارت کی بجلی کی پیداواری صلاحیت214 630GW ہے۔ 2011-12 کے مالی سال کے دوران بھارت نے 855BU بجلی پیدا کی۔ اِس سب کچھ کے باوجود بھی بھارت کے 30 کروڑ شہری بجلی سے محرومی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔

عالمی توانائی ایجنسی کے تخمینے کے مطابق بھارت کو عام شہریوں تک بجلی پہنچانے کے لیے 135 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری درکار ہے۔دنیا بھر میں بجلی کے حصول کا بڑا ذریعہ کوئلہ ہے۔ بھارت میں بھی 57 فی صد تک بجلی کوئلہ جلا کر حاصل کی جاتی ہے۔ بھارت میںکوئلے کے ذریعے بجلی تیارکرنے والے 111 پلانٹ کام کر رہے ہیں۔ عالمی سطح پر یہ ایک جانی مانی بات ہے کہ اِس طریقے پر بجلی کی پیداوارکے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ انسانی صحت شدید طور پر متاثر ہوتی ہے بلکہ زمین بھی آلودگی کا شکار ہوتی ہے۔ یہ ایک ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔ گرین پیس کی مندرجہ بالارپورٹ اس کا بین ثبوت ہے۔ انسانی جانوں کے اتنے بڑے پیمانے پر اتلاف کے باوجود بھارتی حکومت حالات کی بہتری کے لیے کوئی خاص سرگرمی نہیں دکھا رہی۔

وجہ صاف ظاہرہے۔ بھارت صنعتی ترقی میں آگے جانا چاہتا ہے۔ بہت آگے اور صنعتی ترقی انسانی جانوں کی اور ماحولیاتی آلودگی کی قیمت ہی پر ہوتی ہے۔ صنعتی پہیہ گھومنے کے لیے لازمی طور پر بجلی چاہیے۔ آج صنعتوں کو جتنی بجلی چاہیے وہ قدرتی ذرایع سے حاصل ہونا ناممکنات میں سے ہے۔ امریکا ہو روس، چین یا بھارت ہر ہر ملک اس صنعتی ترقی کی قیمت انسانی جانوں کی صورت میں ادا کر رہا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ کوئی بھی یعنی وہ حکومت ہویا عوام ترقی سے منہ موڑنا نہیں چاہتا۔ دورِ جدید نے ہیرو بدل دیے ہیں۔ کسی دور میں بھارتی افراد کے ہیرو کرشنا اور ارجن ہوا کرتے تھے۔ آج اُن کا ہیرو روبوٹ ہے۔

روبوٹ کو بننے سے لے کر چلنے تک کے لیے بجلی چاہیے۔ بجلی کہاںسے آئے گی؟ کوئلے سے یا ایٹمی بجلی گھر سے۔ ان دونوں کا لازمی نتیجہ بیماریاں، اموات، آلودگی اور تابکاری ہے۔پاکستان میں تھرکول منصوبے کے حامیوں نے اس منصوبے پر ہر ہر طرف سے غور کیا ہے۔لیکن وہ یہ بھول گئے کہ ہمسایہ ملک بھارت میں روشن ہونے والاہر برقی دیا سوا لاکھ افراد کے لہو سے روشن ہوتا ہے۔اس تاریک اُجالے کو ،صبح، بے نور کو کوئی کیا کرے گا ،جب کہ وہ اپنی آنے والی نسلوں کو آلودگیوں کی زہرناکیوں میں سسکتا چھوڑ کر خود اپنی ہی تیار کردہ قبر میں اُتر چکا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔