نیند سے بیدار ہونے والی خاتون کا لہجہ تبدیل ہوگیا

ویب ڈیسک  ہفتہ 17 فروری 2018
مشیل مائرز کے ساتھ تین مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ ان کے سر میں شدید درد اٹھتا ہے اور اگلے دن ان کا انگریزی لہجہ بدل جاتا ہے۔ فوٹو: بشکریہ فوکس نیوز

مشیل مائرز کے ساتھ تین مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ ان کے سر میں شدید درد اٹھتا ہے اور اگلے دن ان کا انگریزی لہجہ بدل جاتا ہے۔ فوٹو: بشکریہ فوکس نیوز

ایریزونا: ایک امریکی خاتون ایک صبح جب بیدار ہوئیں تو ان کے انگریزی بولنے کا لہجہ یکدم بدل گیا اور وہ دنیا کے کئی مشہور لہجوں اور انداز میں انگلش بولنے لگیں جبکہ دلچسپ بات یہ ہےکہ خاتون نے کبھی ان ممالک کا دورہ نہیں کیا۔

ریاست ایریزونا کے شہر فینکس سے تعلق رکھنے والی 45 سالہ مشیل مائرز ایک بہت ہی عجیب اور نایاب کیفیت کی شکار ہوگئی ہیں اور اب وہ برطانوی، آسٹریلوی اور آئرلینڈ کے لہجے میں انگریزی بول رہی ہیں۔ ان ممالک کے انداز میں بولی جانے والی انگریزی کا لب ولہجہ اختیار کرنے میں بہت وقت لگتا ہے جبکہ مشیل ایک رات میں ہی اس کی ماہر ہوگئیں۔

2015 کی بات ہے کہ مشیل ایک رات سر میں شدید درد کے ساتھ سوئیں اور جب وہ صبح اٹھیں تو ان کے جسم کا نصف حصہ سن ہوچکا تھا اور وہ بولنے سے قاصر تھیں۔ انہیں قریبی اسپتال لے جایا گیا تو ڈاکٹروں نے انہیں ایفیسیا کا مریض بتایا جس میں بولنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ تاہم تھوڑی کوشش کرنے کے بعد وہ دوبارہ بولنے لگیں۔

مشیل نے بتایا کہ وہ اپنا نام لینا چاہتیں تو ان کے منہ سے خرگوش اور لومڑی کے نام برآمد ہوتے، ’’مجھے کوئی سمجھ نہیں سکتا تھا اور میرے دماغ کو کچھ ہوگیا تھا۔‘‘

تاہم دوبارہ سے ان کے جملوں میں ربط بڑھا اور وہ آہستہ آہستہ بولنے لگی تھیں۔ جب وہ دوبارہ ڈاکٹروں کے پاس گئیں تو ان کاخالص برطانوی لہجہ ڈاکٹروں کو بھی متاثر کرگیا۔ ماہرین نے بہت غور کے بعد کہا ہے کہ وہ فارن ایسنٹ سنڈروم کی شکار ہیں اور اب تک اس کے صرف 60 مریض سامنے آچکے ہیں اور پہلا مریض 1907 میں دیکھا گیا تھا۔

اب مشیل کا لہجہ گویا برطانوی گلوکارہ اسپائس گرل کی طرح ہوگیا ہے اور وہ اس مرض کے بارے میں عوام کو شعور بھی فراہم کررہی ہیں۔

’’میں اس مرض کو دور کرنے کےلیے کچھ بھی قربان کرنے کو تیار ہوں۔ اس کا جذباتی اثر بہت شدید ہے۔ میں خود کو تنہا اور بے آسرا محسوس کرتی ہوں لیکن پھر خیال آتا ہے کہ میں دنیا میں اس کی شکار پہلی مریض نہیں ہوں بلکہ کئی دوسرے لوگ بھی اس سے متاثر ہوئے ہیں،‘‘ مشیل نے بتایا۔

بعض مریض اس کیفیت کے شکار رہنے کے بعد ٹھیک ہوجاتے ہیں لیکن مشیل اب تک اس سے باہر نہیں آسکی ہیں۔ سال 2011 میں انہیں تین روز تک شدید دردِ سر ہوا تھا اور ان کی انگریزی کا لہجہ یک دم آئرش ہوگیا تھا۔ پہلے لوگ سمجھے کہ وہ مذاق کررہی ہیں لیکن بعد میں یہ ایک سنڈروم ثابت ہوا۔ تاہم یہ کیفیت 8 روز بعد درست ہوگئی تھی۔

پھر 2014 میں ان کے سر میں شدید درد ہوا اور تھوڑی دیر ان کی آنکھیں بند ہوگئیں۔ اگلے دن وہ آسٹریلوی لہجے میں بات کرنے لگی تھیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔