جنرل باجوہ کا دَورئہ کابل؛ پاکستان کا اخلاص

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 16 فروری 2018
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

13فروری2018ء کو افغان دارالحکومت، کابل، میں جو ’’چیفس آف ڈیفنس کانفرنس‘‘ منعقد ہُوئی ہے، یہ معمولی نہیں ہے۔لخت لخت افغانستان اور اس کے آس پاس بسنے والے تقریباً تمام ممالک اِس سے متاثرہوں گے۔وسط ایشیا کی ساتوں معروف ’’ریاستوں‘‘ تک نئی ہوائیں چلنے کی توقعات وابستہ کر لی گئی ہیں۔

مذکورہ’’چیفس آف ڈیفنس کانفرنس‘‘ میں افغانستان اور پاکستان کے سپہ سالاروں کے ساتھ ساتھ قازقستان، کرغستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان کی افواج کے سربراہوں کا شریک ہونا ایک غیر معمولی واقعہ کہا گیا ہے۔اس کانفرنس کے میزبان اگرچہ افغان صدر، جناب اشرف غنی، تھے لیکن افغان فوجی جرنیل (جنرل شیر کریمی اور جنرل شریف یفتالی) مرکزی کردار ادا کرتے نظر آئے۔

اس کانفرنس کی اہمیت اور حیثیت کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اہم ترین امریکی فوجی شخصیت جنرل جوزف ووٹل، جو سینٹکام کے کمانڈر بھی ہیں، کی شرکت خصوصی تھی۔ امریکی جنرل نکلسن بھی شریک تھے۔ افغانستان میں بھارتی مداخلتوں اور شیطانیوں نے جو رنگ دکھائے ہیں اور امریکی موجودگی کے کارن افغان طالبان جس ردِ عمل کا اظہار کررہے ہیں، یہ تمام مظاہر کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ افغانستان کی معیشت تباہ ہُوئی ہے اور افغان امن بلڈوز کیا گیا ہے تو ان دونوں جرائم میں افغانستان میں امریکی فوجوں اور بھارتی موجودگی کے گٹھ جوڑ نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ اس گٹھ جوڑ نے پاکستان پر بھی نہائیت منفی اثرات ثبت کیے ہیں۔ ’’چیفس آف ڈیفنس کانفرنس‘‘ کا انعقاد ایسے ماحول میں ہُوا ہے جب گزشتہ تین ہفتوں کے دوران کابل کو دہشتگردی اور خونریزی کے سانحات نے ہلا کر رکھ دیا تھا۔ تین ہفتوں کے دوران تقریباً تین سو افغان شہری ان سانحات کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں۔ جب اِسی دوران ایک اعلیٰ سطحی افغان وفد بھی پاکستان کے دَورے پر آیا اور ہمارے وزیر اعظم جناب شاہد خاقان عباسی سے بھی ملا اور پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے اعلیٰ ترین ذمے داروں سے بھی۔ بھارتی میڈیا نے افغان وفد کے اس دَورۂ پاکستان کے بارے میں نہایت منفی رپورٹیں شایع کیں۔

اللہ کا شکر ہے کہ یہ سب بے بنیاد اور جھوٹی ثابت ہُوئیں۔افغان میڈیا نے بھی ان پر کان نہیں دھرا۔ اگر یہ کہا جائے کہ حالیہ ایام میں افغان میڈیا پاکستان کے بارے میں نسبتاً جس مثبت روئیے کا اظہار کرتا نظر آرہا ہے، یہ دراصل اُن ملاقاتوں اور میزبانیوں کے اثرات ہیں جو پاکستان نے پچھلے چند مہینوں کے دوران درجنوں افغان صحافیوں اور اینکر پرسنزکو محبتوں اور اخوتوں سے نوازا۔

افواجِ پاکستان کے ترجمان ادارے، آئی ایس پی آر، اور اس کے سربراہ (میجر جنرل آصف غفور)اور پی آئی او، جناب  محمد سلیم بیگ، نے اِس میزبانی میںمستحسن کردار ادا کیا ہے۔ راقم چونکہ خود بھی پاکستان کے سرکاری دَورے پر آنے والے ان افغان اخبار نویسوں سے ملاقاتیں کر چکا ہے، اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ تقریباً تمام افغان صحافی اطمینان اور مسرت کے ساتھ واپس اپنے ملک تشریف لے گئے۔

اگر اسے مبالغہ نہ سمجھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ کابل میں ہونے والی ’’چیفس آف ڈیفنس کانفرنس‘‘میں مرکزی کردار پاکستان ہی کا تھا اور شرکت کنندگان میں سب سے اہم شخصیت سپہ سالارِ پاکستان جنرل قمر جاوید باجوہ ہی تھے۔ وجہ؟ ساری دنیا جانتی ہے کہ پاکستان کے اعلیٰ ترین کردار کے بغیر افغانستان میں کامل امن قائم ہو سکتا ہے نہ افغان طالبان کسی متفقہ میز پر بیٹھ سکتے ہیں۔ اگرچہ بھارت اور امریکا پچھلے چند برسوں کے دوران دانستہ افغانستان میں پاکستان کے کردار کو مائنس کرنے کی اپنی سی کوششیں کرتے آرہے ہیں لیکن کامیابی اُن کا مقدر نہیں بن سکی ہے۔

ساری دنیا جانتی ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کے ساتھ اخلاص اور اخوت ہی کامظاہرہ کیا ہے۔ پچھلے اڑتیس برسوں سے پاکستان چار ملین سے زائد افغان مہاجرین کا بوجھ اُٹھائے ہُوئے ہے۔ اخلاص اور اخوت کے اِس مظاہرے میں پاکستان نے اپنی معیشت کے ساتھ اور بھی بہت کچھ برباد کیا ہے۔ بھارت کی محبت میں بھِیگے بعض افغان حکام بھارتی تعاون کا ذکر تو بہت کرتے ہیں لیکن کیا بھارت چالیس لاکھ سے زائد افغان مہاجروں کو چالیس سال تک اپنے کندھوں پر لادے رکھنے کا تصور بھی کر سکتا ہے؟

پاکستان اور پاکستانی عوام نے مگر یہ محیئرالعقول کارنامہ بھی انجام دے کر دکھا دیا ہے اور ساری دنیا پر افغانوں سے اپنی برادرانہ محبت بھی ثابت کر دی ہے۔ایسے میں سپہ سالارِ پاکستان جنرل قمر جاوید باجوہ نے کابل میں ہونے والی ’’چیفس آف ڈیفنس کانفرنس‘‘ سے خطاب کرتے ہُوئے بجا طور پر نہایت شاندار الفاظ میں یہ کہا ہے :’’علاقائی امن و استحکام کا راستہ افغانستان سے گزرتا ہے۔ خطے اکٹھے ہی ترقی کرتے ہیں، انفرادی طور پر نہیں۔‘‘

ہمارے جنرل صاحب کے کہنے کا سادہ مطلب یہ ہے کہ افغانستان کا دل خراب رہے گا تو یہ سارا خطہ بھی امن، استحکام اور خوشحالی کی نعمتوں سے محروم رہے گا۔جنرل باجوہ نے مزید کہا: ’’پاکستان نے اپنے علاقے میں دہشتگردوں کی تمام پناہ گاہیں ختم کردی ہیں؛ تاہم پاکستان میں موجود 27 لاکھ افغان مہاجرین کی موجودگی سے یہ دہشتگرد فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ (افغانستان کی طرف سے) غیر موثر سرحدی انتظامات کا فائدہ بھی یہ دہشتگرد اٹھا جاتے ہیں۔‘‘

جنرل باجوہ کہنا یہ چاہتے ہیں کہ اگر دہشتگردوں کا مکمل خاتمہ مقصود ہے تو افغانستان کو عزت اور احترام کے ساتھ اپنے تین ملّین کے قریب یہ مہاجرین جَلد واپس لے لینے چاہئیں۔ یوں دہشتگردوں کے چھپنے کے امکانات سرے سے معدوم ہو جائیں گے۔ وہ افغان حکام اور افغانستان میں بروئے کار امریکی حکام و فوجوں کو یہ پیغام بھی دے رہے تھے کہ پاکستان نے تو پاک افغان سرحد کو محفوظ کرنے کے لیے سارے اقدامات کر لیے ہیں، مہنگی باڑ بھی لگا دی ہے، قلعے بھی تعمیر کیے ہیں اور سرحد کے ساتھ گہری خندقیں بھی کھودی ہیں لیکن افغانستان کی طرف ایسا کچھ بھی نہیں کیا گیا۔ اور ظاہر ہے اس کمزوری کا فائدہ دہشتگرد اٹھا جاتے ہیں۔

افسوس یہ ہے کہ سب حقائق جانتے بوجھتے ہُوئے بھی افغان حکام الزامات پاکستان پر ہی عائد کرتے ہیں۔ افغان حکام کے اس اجتماعی رویے نے پاکستان بھر کو مایوس کیا ہے۔ اس کے باوصف پاکستان نے افغان حکام، افغان بھائیوں اور افغان عوام کی دستگیری سے ہاتھ نہیں کھینچا ہے۔ اس سے بڑھ کر افغانستان کے لیے پاکستان کے اخلاص کو کیسے جانچا جا سکتا ہے؟

اِس سے پہلے بھی جنرل قمر جاوید باجوہ دوبار افغانستان جا کرافغان حکام اور افغان عوام کو پاکستان کی خدمات اور اخلاص کا یقین دلا چکے ہیں۔ راولپنڈی میں جنرل باجوہ اور پاکستان میں افغان سفیرجناب عمر ذخیل وال کے درمیان ہونے والی متعدد ملاقاتیں بھی اس امر کی شاہد اور دلیل ہیں کہ پاکستان مزید آگے بڑھ کر افغانستان کی، ہر سطح پر، اعانت کرنے کا آرزو مند ہے۔ افسوس یہ ہے کہ بھارتی سازشوں کے کارن افغان حکام کے دل میں پاکستان کے خلاف چبھا شک کا کانٹا نہیں نکل رہا۔

واقعہ یہ ہے کہ پاکستان نے پچھلے نصف عشرے کے دوران اپنے جن ساٹھ، ستّر ہزار شہریوں اور افواجِ پاکستان کے جوانوں اور افسروں کی قربانیاں دی ہیں، یہ افغانستان کے استحکام، امن اور خوشحالی کے لیے بھی دی گئیں۔ اس دوران پاکستان نے جو اربوں ڈالر کا مالی خسارہ برداشت کیا ہے، وہ ان قربانیوں کے علاوہ ہے۔ اِس پس منظر میں ہمارے وزیر داخلہ ، جناب احسن اقبال، نے 14فروری2018ء کو ممتاز ترین امریکی میڈیا (سی این این) کو انٹرویو دیتے ہُوئے بجا باتیں کہی ہیں۔

انھوں نے کہا:’’دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں ہے جس نے دہشتگردی اور دہشتگردوں کے خاتمے کے لیے پاکستان جتنی قربانیاں دی ہیں۔ اس راہ میں پاکستان نے اپنے ساٹھ ہزار شہریوں کو قربان کیا ہے اور اِسی راہ میں پاکستانی معیشت کو 25 ارب ڈالر کا بھاری نقصان اُٹھانا پڑا ہے۔ ایسے میں اگر امریکا یکطرفہ طور پر پاکستان کے خلاف کسی بھی شکل میں بروئے کار آتا ہے تو وہ خطرے کے سرخ نشان کو عبور کرے گا۔ پاکستان امریکا کے ساتھ عزت اور وقار کا رشتہ رکھنے کا آرزو مند ہے لیکن ہم توہین برداشت نہیں کریں گے۔

ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستان دہشتگردی کے خلاف یہ جنگ امریکا کے لیے نہیں بلکہ اپنے ملک اور اپنے عوام کے مستقبل کے تحفظ کے لیے لڑ رہا ہے۔ افغانستان کی بد امنی اور بدحالی براہِ راست پاکستان کو متاثر کرتی ہے، اس لیے یہ پاکستان ہی ہے جو افغانستان کو جَلد از جَلد پُر امن ملک دیکھنا چاہتا ہے۔‘‘ حیرت انگیز طور پر، افغانستان کی بہتری کے حوالے سے، جنرل قمر جاوید باجوہ اور احسن اقبال کے تازہ ترین خیالات میں ہم آہنگی اور یکجہتی پائی جاتی ہے۔ پاکستان کے مفاد میں یہ ایک خوش کُن اور جانفزا منظر ہے!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔