نقیب قتل کیس؛ راؤ انوار کو گرفتار نہ کرنے کا حکم واپس، بینک اکانٹس منجمد

ویب ڈیسک  جمعـء 16 فروری 2018
خط میں راو انواز کی جانب سے عدالت کے سامنے پیش ہونے کی خواہش کی گئی تھی	؛ فوٹوفائل

خط میں راو انواز کی جانب سے عدالت کے سامنے پیش ہونے کی خواہش کی گئی تھی ؛ فوٹوفائل

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے نقیب اللہ قتل کیس میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کو گرفتار نہ کرنے کا حکم واپس لیتے ہوئے انہیں توہین عدالت کا نوٹس بھی جاری کردیا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق  چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بنچ نے نقیب اللہ قتل از خود نوٹس کیس کی سماعت کی، راؤ انوار حفاظتی ضمانت ملنے کے باوجود سپریم کورٹ میں پیش نہیں ہوئے۔ جس پر عدالت نے کچھ دیر کے لیے وقفہ کردیا۔

وقفے کے بعد جب سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے آئی جی سندھ سے استفسار کیا کہ خاصا وقت گذر گیا ، لگتا ہے راؤ انوار نہیں آنا چاہتے، کیا آپ کو بھی کوئی سراغ نہیں ملا، اب کیا کیا جائے۔ جس پر اے ڈی خواجہ نے کہا کہ راؤ انوار نے مجھے واٹس اپ پر کال کی تھی، راؤ انوار نے کہا کہ وہ سپریم کورٹ میں پیش ہوں گے، غالباً سپریم کورٹ کو خط راؤ انوار نے ہی لکھا تھا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ راؤ انوار کو ایک موقع دیا گیا تھا، ان کے خط پر ہم نے مثبت ردعمل دیاتھا۔

اس خبرکوبھی پڑھیں:  پولیس کی عدم دلچسپی

جسٹس اعجاز الاحسن نے آئی جی سندھ سے استفسار کیا کہ کیا راؤ انوار اسلام آباد میں ہی ہے؟ جس پر اے ڈی خواجہ نے بتایا کہ راؤ انوار نے واٹس ایپ کال کی تھی جو ٹریس نہیں ہوئی،راؤ انوار کوتحقیقات پر تحفظات تھے، ہم نے شفاف تحقیقات کے لئے نئی ٹیم تشکیل دی۔

چیف جسٹس نے آئی جی سندھ سے مخاطب ہوتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آپ کی کوششیں ٹھیک ہیں مگر نتائج نہیں آ رہے، عدالتی حکم پر عملدرآمد پر کارروائی پیشی کے بعد ہی ہو سکتی ہے، امید ہے دیر سے ہی صحیح راؤ انوار کو تلاش کر لیا جائے گا، راؤ انوار نے آئی جی سے رابطہ کیا مگر عدالت میں پیش نہیں ہوئے، راؤ انوار کو گرفتار نہ کرنے کا اپنا حکم واپس لیتے ہیں۔

سپریم کورٹ نے راؤ انوار کو آرٹیکل 204 کے تحت توہین عدالت کا شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے ان کے تمام اکاؤنٹس منجمد کرنے اور گواہان کی سیکیورٹی یقینی بنانے کا حکم دے دیا، کیس کی مزید سماعت 15 روز بعد ہوگی۔

سماعت سے قبل میڈیا سے بات کرتے ہوئے نقیب اللہ کے والد نے  کہا کہ میرا بیٹا بے گناہ تھا راؤ انوار نے میرے بیٹے پر ظلم کیا، لیکن مجھے پوری امید ہے سپریم کورٹ سے مجھے انصاف ملے گا۔

نقیب اللہ قتل کیس کیا ہے؟

13 جنوری کو کراچی کے ضلع ملیر میں ایک مبینہ پولیس مقابلے میں 4 دہشتگردوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا گیا تھا تاہم بعد میں معلوم ہوا کہ ہلاک کئے گئے لوگ دہشت گرد نہیں بلکہ مختلف علاقوں سے اٹھائے گئے تھے، بعد میں انہیں ماورائے عدالت قتل کردیا گیا، مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے والے ایک نوجوان کی شناخت نقیب اللہ کے نام سے ہوئی، سوشل میڈیا اور سول سوسائٹی کے احتجاج کے بعد وزیر داخلہ سندھ  نے نوٹس لیا اور 3 رکنی کمیٹی بنائی گئی، جس نے گواہان کے بیانات کی روشنی میں پولیس مقابلے کو جعلی قرار دے دیا۔اسی دوران سپریم کورٹ نے واقعے کا از خود نوٹس لے لیا۔

اس خبرکوبھی پڑھیں: نقیب اللہ کے قتل کا نوٹس

تفتیش کے دوران راؤ انوار نے اسلام آباد ایئر پورٹ سے دبئی فرار ہونے کی کوشش بھی کی لیکن اسے ناکام بنادیا گیا تاہم وہ روپوش ہوگئے۔ نقیب اللہ قتل کیس کی سماعت کے دوران معلوم ہوا تھا کہ راؤ انوار نے سپریم کورٹ کے انسانی حقوق سیل کو خط لکھا ہے جس میں انہوں نے شفاف تحقیقات اور عدالت کے سامنے پیش ہونے کی بات کی تھی، عدالت نے خط کی روشنی میں راؤ انوار کو گرفتار نہ کرنے کا حکم دیا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔