رضیہ کے بعد اب منی بدنام

سعد اللہ جان برق  ہفتہ 17 فروری 2018
barq@email.com

[email protected]

وطن عزیز کے باقی لوگ یعنی دانا دانشور تو ادھر دوسرے کاموں، پناموں اور دھندوں دھرنوں میں مصروف ہیں لیکن چونکہ ہماری طبیعت ’’ادھر‘‘ کچھ زیادہ نہیں آتی اس لیے ہماری توجہ اس کم بخت پڑوسی پر ہے جس نے ہمیں کبھی ’’دل‘‘ سے تسلیم نہیں کیا ہے اور ہمیشہ اس تاک میں رہتا ہے کہ ہماری ’’بھد‘‘ اڑائے۔ چنانچہ آج کل فلموں میں، مکالموں میں، اشتہارات حتیٰ کہ ’’آئٹم سانگز‘‘ میں بھی ہم پر کیچڑ اچھالنے کی کوشش کر رہا ہے۔

پہلے تو صرف اتنا کہتا تھا کہ ’’تیرا کیا بنے گا کالیا‘‘ اشارہ صرف ہماری طرف تھا کیونکہ سفید آقا نے اپنے پیچھے ان دونوں کالیوں کو چھوڑا ہوا تھا اور یہ تو طے ہے کہ ہر کسی کو اپنا چہرہ دکھائی نہیں دیتا اس لیے کالیا‘‘ کے پردے میں ہمارا ذکر  ہی کرتا رہتا تھا۔ گانوں میں فلموں میں ڈراموں میں اسٹیج شوز میں جب بھی دیکھو۔ تیرا کیا بنے گا کالیا؟ ارے ہم کالے ہیں تو کیا ہوا دل والے ہیں کسی نہ کسی طرح دلہنیا لے جائیں گے۔

تمہیں کیا؟ لیکن اب تو حد ہو گئی، رضیہ غنڈوں میں پھنس گئی کا کیا مطلب ہے کیا ہم نہیں جانتے کہ رضیہ کا اشارہ کس کی طرف ہے۔ ہمیں اس پر بھی کچھ زیادہ غصہ نہیں ہے، رضیہ اگر غنڈوں میں پھنس گئی ہے تو اس میں بیچاری ’’رضیہ‘‘ کا تو کوئی دوش نہیں ہے لیکن ہمارے لیڈروں، خادموں، رہنماؤں اور کرتا دھرتاؤں کو ’’غنڈے‘‘ کہنا بالکل بھی ہمیں برداشت نہیں ہے جن میں اکثر بڑے ’’خاندانی‘‘ جدی پشتی شرفا اور معززین ہیں، کچھ تو ایسے بھی ہیں کہ ان کے دامنوں پر نماز تک پڑھی جا سکتی ہے۔

تردامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو

دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں

اور یہ کم بخت، بد بخت، سیاہ بخت، منہ پھٹ، دیدہ پھٹ، فٹے منہ لوگ ان کو غنڈے کہہ رہے ہیں کسی اور کا تو پتہ نہیں لیکن ہم یہ بالکل برداشت نہیں کر سکتے اور چلا کر کہیں گے کہ تم غنڈے تمہارے لیڈر غنڈے تمہارے وزیر غنڈے تمہارے سادھو سائیں غنڈے تمہارے بابے چاچے مامے سب غنڈے، ٹھیک ہے ہماری اپنی ’’رضیہ‘‘ ہے ہم جانیں اور ہماری رضیہ تم کون ہوتے ہو پھبتی کسنے والے۔ویسے آپ سے کیا پردہ جب ہم نے اس پھبتی کو ذہن میں رکھ کر ادھر ادھر دیکھا تو کچھ زیادہ بدلا ہوا منظر بھی نہیں تھا، کم از کم ’’رضیہ‘‘ تو ویسی ہی لگی جو پھنس گئی ہو لیکن غنڈے؟ ہمیں تو صاف صاف معزز اور شرفا نظر آتے ہیں۔

جو کلائیوں میں گجرے ڈالے گلوریاں دبائے شرافت سے، سرمے سے تیز دشنہ مژگان اور چہرہ فروغ مے سے گلستان کیے ہوئے بٹھے ہیں۔ بلکہ اپنا تن، من، دھن، اس پر وار رہے ہیں۔ ہم نے تو جب یہ گانا سنا تو اسی وقت اتنے غضب ناک بلکہ ’’کرودت‘‘ ہو گئے کہ اگر ہمارے ’’پر‘‘ ہوتے بلکہ سر پر پیر ہوتے تو اسی وقت اڑان بھرتے اوراس مودی ہنودی کو لپٹ لطیف کردیتے۔ وہ تو اچھا ہوا کہ یہ گانا اتنا ہٹ نہیں ہوا لیکن یہ ’’کرمے ڈم‘‘ باز نہیں آیا۔ ’’کرمے ڈم‘‘ نام کا ایک کردار ’’فتح خان رابعہ‘‘ کی کہانی میں ہے جو ہے تو فتح خان کا دوست لیکن دنیا جہاں کی مصیبتیں لاکر فتح خان کے سر مڑھ دیتا ہے

دا کرمے ڈم ھر گز دبدو ناوڑی

چہ چرتہ بدوی د فتحے سرلہ بہ ئے راوڑی

نہیں یہ کرمے ڈم برائیوں سے ہرگز باز نہیں آتا ہے اور جہاں کوئی مصیبت ہوتی ہے وہ لاکر فتح خان کے سرڈال دیتا ہے۔چنانچہ ہمارے اس کرمے ڈم پڑوسی کو بھی چین نہیں آتا اور اب کے ’’ رضیہ‘‘ کی جگہ ’’منی‘‘ کہتے ہوئے۔

منی بدنام ہوئی، امبی سے آم ہوئی

ڈارلنگ تیرے لیے۔ صاف صاف پتہ چلتا ہے کہ ڈارلنگ کے پردے میں کس کا ذکر ہے اور ’’منی‘‘ کون ہے، رضیہ تو صرف پھنس گئی تھی اور ’’منی‘‘ باقاعدہ بدنام ہوئی بلکہ کردی گئی ورنہ ہمیں پتہ ہے کہ منی رضیہ سے بھی زیادہ معصوم ہے لیکن اس مرتبہ کم بختوں نے غنڈوں کو یکجا کر ڈارلنگ بنا دیا ہے جس نے بیچاری منی کے ساتھ کیاکیا ناروا نہیں کیے ہیں حتیٰ کہ اسے جنڈو بام بنا کر نہ جانے کہاں کہاں ملا دیا، تو آپ تو پناموں، مناموں میں مصروف ہیں اور سارے دانا دانشوروں کی توجہ بھی ادھر لگی ہوئی اس لیے اس طرف دھیان نہیں دے پا رہے ہیں، بلکہ کسی بھی طرف دھیان نہیں دے پا رہے ہیں کیونکہ پناموں اور دھرنوں جھرنوں سے اگر کچھ ’’بچا‘‘ ہوا ہے تو اسے بھی تو جلدی جلدی ٹھکانے لگانا ہے تاکہ آیندہ قرض ادھار کا  کھاتا چلتا رہے۔

اگر اس وقت ہم نے کمال ہنر مندی سے کام لے کر لیے ہوئے قرضوں کو ٹھکانے نہیں لگایا تو ساہو کار یہ بھی سوچ سکتے ہیں کہ ہمیں قرض ٹھکانے لگانا نہیں آتا اور آیندہ قرضوں سے ہاتھ کھینچ بھی سکتے ہیں اس لیے جنگی بنیادوں پر باقی سب کچھ روک کر سرکاری رقومات کو ٹھکانے لگانے کو اولین ترجیح دی جا رہی ہے۔باقی ہمیں پتہ ہے کہ اس ’’ بند گوبھی ‘‘ کے اندر میں سے کیا نکلے گا ۔وہی نکلے گا جو اس کے اندر ہے ہی نہیں لیکن ’’ کام ‘‘ تو بہرحال جاری رکھنا ہوگا کہ رقم بہت زیادہ ہے اور وقت بہت کم۔لیکن آپ فکر نہ کریں لگے ہوئے پانی کو اسی طرح بلوتے رہئے، ہم ہیں نا ان ہنودیوں کو جواب دینے کے لیے۔بخدا ہمیں یہ دیکھ کر اچھا خاصا سکون محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کے لوگ کتنے اپنے بزرگوں کے قدردان ہیں انھوں نے صرف ایک بار کہا تھا کہ

بیکار مباش کچھ کیا کر

پجامہ ادھیڑ کر سیا کر

اور ہم نے اس فرمودے کو حرزجان بنالیا ہے پجامہ نہیں ملتا تو پاناما ہی سہی، کام تو ادھیڑنا اور سینا ہے یعنی یک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے۔بڑے اچھے جارہے ہیں چار پانچ سال سے یہ پجامے پنامے ادھیڑے جا رہے ہیں بلکہ اگر صحیح حساب لگایا جائے تو ستر سال سے یہی کام ہو رہا ہے۔ بچارے عوام منتظر بیٹھے ہیں کہ آج یہ پجامہ تیار ہو جائے گا اورکل تیار ہو جائے گا جسے پہن کر ہم کھیلیں گے، کودیں گے لیکن درزیوں کو تو آپ جانتے ہیں۔

خیر ایک مرتبہ پھر آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ لگے رہئے اور خوب خوب لگے رہئے باقی سارے کام جانیں اورہم جانیں، یہ بڑا اچھا ہے کہ بیچ بیچ میں دھرنوں کی کشیدہ کاری بھی چل رہی ہے اور بہت سارے محفوظوں کے تحفظات بھی اپنی بہاریں دکھلا رہے ہیں، ناٹک کا اول و آخر کام یہ ہی تو ہوتا ہے کہ تماشائیوں کو متوجہ رکھا جائے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔