اٹھرا… اسباب اور علاج

ڈاکٹر رابعہ خرم درانی  اتوار 18 فروری 2018
ایک ایسا مرض جس سے بہت سے خاندانوں کے پیٹ پلتے ہیں۔فوٹو: فائل

ایک ایسا مرض جس سے بہت سے خاندانوں کے پیٹ پلتے ہیں۔فوٹو: فائل

آج کل ایک حاملہ جوڑا میرے زیر علاج ہے۔ عجیب لگتا ہے نا کہ زوجین حاملہ ہوں اور ایک ساتھ زیر علاج ہوں۔

حمل تو خاتون کا دائرہ اقتدار ہے مرد کے علاج کا کیا معنی۔ دراصل حمل ٹھہرتا صرف عورت کو ہے لیکن اثرانداز پورے خاندان پر ہے خصوصاً اگر اس سے پہلے چند بار حمل ضائع ہو چکا ہو۔ ایسی صورتحال میں ہر نیا حمل زوجین کو بے طرح پریشان کرتا ہے، خوشی سے زیادہ خوف کا عنصر نظر آتا ہے، امید سے زیادہ بے یقینی۔

تیقن کے ساتھ دوا کھلانے کی بجائے پیسے اور کوشش ضائع جانے کے خیال کے ساتھ مارے باندھے دوا کھلائی جاتی ہے۔ ڈاکٹر سے ملنا اور اس پر اٹھنے والے اخراجات انتہائی بُرے لگتے ہیں اور دنیا کی لپلپاتی زبانوں کا ناگ ہر لمحے پھنکارتا رہتا ہے۔ ایسی صورت میں خاتون کے جسمانی علاج کے ساتھ ساتھ زوجین کے نفسیاتی علاج کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔

’اٹھرا‘کا الزام عورت کو زندہ درگور کرنے کے مترادف ہے۔ ایک طرف ایسی عورت  بے بس ماں ہوتی ہے جس کا حمل پیش رفت نہیں کرتا یا اس کا بچہ پیدائش کے بعد اللہ تعالیٰ کو پیارا ہو جاتا ہے۔ حکیمی تشریح کے مطابق ایسی عورت جس کا بچہ دورانِ حمل سے لے کر عمر کے پہلے آٹھ سال کے دوران میں وفات پا جائے اسے ’اٹھرا‘ کی مریضہ کہا جاتا ہے۔ ایسی خاتون کو بد نصیب ،منحوس اور جنات کے سایہ سے متاثر مانا جاتا ہے۔ گھر میں اس سے نچلے درجے کا سلوک کیا جاتا ہے اور دیگر حاملہ خواتین کو اس کے سائے سے بھی بچایا جاتا ہے۔ ایسی خاتون معاشی مقاطعہ کا شکار بنا دی جاتی ہے اور ذہنی اذیت کے اندھے گڑھے میں گرا دی جاتی ہے۔

نئی نویلی دلہنیں ہوں یا رشتے کی منتظر بچیاں یا حاملہ خواتین ان سب کو ایسی خاتون کے سائے سے بھی بچایا جاتا ہے تاکہ ان خواتین کے ساتھ بھی وہی کچھ پیش نہ آئے جس کا شکار ’اٹھرا‘ میں مبتلا خاتون ہے۔ یہ خواتین شادی یا گود بھرائی کی تقریبات پر اوّل تو مدعو نہیں کی جاتیں، اگر مارے باندھے بلا بھی لی جائیں تو انہیں رسوم میں شامل نہیں کیا جاتا۔ یہ ذہنی اذیتیں خاتون کی روح کو ناسور ایسے گھاؤ بخشتی ہیں۔

اگر خاتون کے پاس کوئی ذہنی مصروفیت مثلاً نوکری وغیرہ ہے تب تو معاملات کچھ بہتر رہتے ہیں لیکن ایک گھر کی چاردیواری میں بیمار ماحول کی قیدی ان خواتین کا انجام عموماً ذہنی امراض کے کسی اسپتال میں یا کسی بند کوٹھری میں زنجیروں سے بندھی مخبوط الحواس عورت کی صورت میں ہوتاہے کیونکہ یہ معاشرہ مرد کی دوسری شادی قبول کر لیتا ہے لیکن یتیم خانے سے آنے والے لے پالک بچے کو قبول نہیں کرتا۔ اگر خاتون کے ایک جنس کے بچے بچ جائیں مثلاً بیٹیاں ، چند ضائع ہو جائیں تو بغیر کسی سائنسی ثبوت کے اس خاتون کو ’بیٹوں کا اٹھرا‘ تشخیص کردیا جاتا ہے۔ اس مرض کی تشخیص طب سے زیادہ معاشرتی طور پر کی جاتی ہے، خواتین گزٹ میں اس کی خبر سینہ در سینہ پھیلائی جاتی ہے۔

اس مرض کا ’مثبت‘ معاشرتی پہلو یہ ہے کہ اس سے بہت سے خاندانوں کے پیٹ پالے جاتے ہیں۔ متاثرہ خاتون اٹھرا کا علاج کرنے والے بنگالی بابا کے دم کیے چنے کھائے اور ان کا دم کیا پانی گھر میں چھڑکے، ہر ہفتے کا علاج کچھ فیس کے عوض کرائے تاکہ خاتون کا حمل اور بنگالی بابا کا چولہا چلتا رہے۔ اس علاج کی ناکامی کے بعد اگلی بریک پیر صاحب بڑے سائیں کے آستانے پر لگائی جاتی ہے۔ اس طریق علاج میں تعویز بازو،کمر، پیٹ یا گردن میں باندھنے کے لیے دیا جاتا ہے۔

دم شدہ پانی پینے یا چھڑکنے کے لیے، خوراک میں چند اشیا کی مناہی اور کچھ کا اضافہ، کسی مشکوک فیملی ممبر سے ملنے پر پابندی لگا دی جاتی ہے۔ اور دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ اس تمام عرصہ میں کسی ندی نالے یا دریا کو پار کرنا حاملہ عورت کے لیے منع ہوتا ہے، اس لئے میکا یا سسرال کسی ایک مقام پر نو مہینے کا وقت گزارا جاتا ہے، پیر صاحب کی اجازت کے بنا ڈاکٹری معائنہ اور دوا منع ہوتی ہے، حتی کہ بچہ ضائع ہونے کی علامات ظاہر ہونے کی صورت میں بھی ڈاکٹر سے ملنا منع ہوتا ہے۔

ہر ہفتے دو ہفتے بعد دم کرانے اور دم شدہ پھکیاں لینے کے لیے نذر نیاز کے ہمراہ آستانہ عالیہ میں حاضری دی جاتی ہے۔ اب نو ماہ کی دیگیں تو ایک حاملہ خاتون ہی پکوا دیتی ہے چاہے نو ماہ بعد پتا چلے کہ حمل تو سرے سے تھا ہی نہیں۔کچھ سائنٹیفک پیر حضرات دوران روحانی علاج ایک دو دفعہ الٹرا ساؤنڈ کی اجازت تو دے دیتے ہیں لیکن میڈیکل ادویات سے سخت پرہیز کرایا جاتا ہے۔

حمل چل گیا تو کاروبار چمک گیا اور نہ چلا تو وجہ رب کی رضا اور مشکوک فیملی ممبر کا زبردست سفلی عمل ٹھہرائے جاتے ہیں۔ ان بازیگروں کے کرتب اس قدر متاثر کن ہوتے ہیں کہ سیدھے سادے لوگ تو ایک طرف اچھے بھلے پڑھے لکھے سیانے بھی ان کے چنگل میں پھنسے نظر آتے ہیں۔ یہ تمام حضرات ایک بات پر متفق ہیں کہ مریض کو ڈاکٹر کے پاس جانے سے ہر ممکن کوشش کرکے روکنا ہے، اس کے لیے انہیں عمل کا حوالہ دینا پڑے یا ڈاکٹری علاج کی بدخوئی کرنی پڑے وہ کریںگے۔یوں آہستہ آہستہ اثر کرنے والے زہر کی مانند یہ مسلسل عمل مریض کو مسیحا سے دور لے جا رہا ہے۔ مریض کے ذہن میں ڈاکٹر سے ملاقات سے پہلے ہی شکوک کا ایسا جال بُن دیا جاتا ہے کہ ڈاکٹر کی کہی واضح بات بھی اس ذہنی چھلنی سے گزرتے بے حال ہوجاتی ہے، جب مریض ڈاکٹر پر یقین نہیں کرتے تو مشکل علاج مشکل تر ہو جاتا ہے۔

مریض اور ڈاکٹر، دونوںکے لیے یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ڈاکٹر چور یا مجرم نہیں ہوتے، وہ کسی کے بچے کے ضائع ہونے کی وجہ نہیں ہوتے، انسان کے ساتھ انسانی مشینری کے طریقہ استعمال کا کوئی معلوماتی کتابچہ مہیا نہیں کیا گیا۔ کتنا آسان ہوتا اگر اللہ تعالیٰ ایک معلوماتی کتابچہ ہر ایک انسان کے ہاتھ میں دے کر اُسے دنیا میں بھیجتے۔ طبی سائنس اور ڈاکٹرز نے جو بھی کچھ سیکھا ہے مشاہدے، تجربے اور اس کے نتائج سے سیکھا ہے، یہ تاقیامت جاری رہنے والا عمل ہے۔ طب میں کوئی مقام آخری نہیں ہوتا۔ ہر انسان ایک ہی دوا کو ایک ہی طرح رسپانڈ نہیں کرتا، یعنی ایک سی بیماری میں مبتلا مختلف انسان ایک سی دوا کو ایک جیسا اور ایک جتنا نتیجہ نہیں دیتے۔ مثلاً کچھ مریضوں کا بخار چائے کے کپ، کچھ کا  ایک گولی اور کچھ کا دوسری گولی سے اترتا ہے۔ ایسے بھی ہیں جو بخار سے پیچھا چھڑانا تو چاہتے ہیں لیکن بخار کمبل ہوا جاتا ہے۔ یہی صورتحال دورانِ حمل پیش آئندہ پیچیدگیوں کے متعلق کہی جاسکتی ہے۔

ہر حمل دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ چاہے وہ دو مختلف عورتوں کے حمل ہوں یا ایک ہی عورت کے دو حمل۔ ہر بار ایک نیا انسان نئے حالات و واقعات اور صحت کے اتار چڑھاؤ سے گزر کر عدم سے وجود کا سفر طے کرتا ہے۔ اس حیات و موت کے سفر میں بنیادی طور پر ہر انسان اکیلا ہے، اسے اکیلا ہی پیدا ہونا ہے بعینہ اسے اکیلا ہی آخری سفر پر روانہ ہونا ہے، ان دو اہم سفروں کے درمیان کا وقفہ جسے ہم ’زندگی‘ کہتے ہیں ، اس زندگی میں ہم بظاہر بہت رشتوں ناتوں میں گھرے نظر آتے ہیں لیکن بہرطور انسان اصل حقیقت میں اکیلا ہی ہے۔ اسے عدم سے اس کی منفرد جینیاتی خصوصیات کے ساتھ وجود کے سفر پر روانہ کیا جاتا ہے۔

اس سفر میں ہر مسافر کا زادِ راہ (جینوم اور خصوصیات) اور سواری (ماں، رحم) دوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔ زادِ راہ اور سواری کتنے روزہ سفر میں مسافر کا ساتھ نبھاتے ہیں یہ ہر کسی کا اپنا الگ نصیب ہوتا ہے۔ مناسب اسباب سفر اور بہترین تازہ دم، مکمل سہولیات سے لیس سواری پر سفر آرام دہ بنا تھکن اور بغیر کسی حادثے کے طے ہو جاتا ہے جبکہ زادِ راہ اگر کم ہے یا کمتر کوالٹی کا ہے یا سواری پرانی، تھکی ہاری، تباہ حال ہے یا اس کا ایندھن کم ہے تو سفر درمیان ہی میں ختم ہو جانے کا چانس زیادہ ہے۔ عدم سے وجود کے اس سفر میں مسافر اور سواری بدلے نہیں جا سکتے۔ ہاں انہیں کچھ حد تک بیرونی امداد دی جا سکتی ہے۔

سب سے اہم نکتہ یاد رکھئے کہ بچہ ضائع ہونا یا حمل گر جانا ڈاکٹر کی غلطی نہیں۔  صنعتی دور کی ایک اہم اصطلاح یاد رکھیے:’’پروڈکشن ویسٹ یعنی پیداواری فضلہ‘‘۔  یعنی دوران پیداوار، پیداوار کا کچھ حصہ ضائع ہو جانا۔ آپ ٹائل فیکٹری کی مثال لیجئے۔ ہر ٹائل اے یا اے پلس کیٹاگری کی نہیں ہوتی۔ کچھ ’بی‘ کچھ ’سی‘ اور کچھ بالکل فارغ کچرا لیول میں ڈال دی جاتی ہیں۔ یہ پروڈکشن ویسٹ کہلاتی ہے اور ہر فیکٹری کے فائنل تیار شدہ مال کا ایک لازمی حصہ ہے۔ حمل کا پروڈکشن ویسٹ 15 فیصد ہے یعنی دنیا میں کل جتنے بھی حمل ٹھہرتے ہیں ان میں سے 15 فیصد حمل نو ماہ کی معیاد مکمل نہیں کرپاتے اور دورانِ حمل ہی ضائع ہو جاتے ہیں۔ اب دو سوالات پیدا ہوتے ہیں: اولاً : ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ثانیاً: اس کا کیا علاج ممکن ہے؟

’کیوں‘ کا جواب پانے سے پہلے یہ بات جانیے کہ تقریباً تمام طبی کتب ترقی یافتہ ممالک میں لکھی جاتی ہیں اور انہی کے اکٹھے کئے ہوئے اعداد و شمار بتاتی ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں حمل کے ضائع ہونے کو اکثر اس خوف سے چھپا لیا جاتا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے؟ اس لیے سو فیصد درست اعداد و شمار مہیا ہونا مشکل ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں بیشتر لوگ اپنی زندگی کے رخ اسی جملے کی روشنی میں طے کرتے ہیں۔ کھانا، پینا، اوڑھنا، پہننا، گھر، گاڑی، جاب، تعلیم حتیٰ کہ شادی کے لیے لڑکی کا انتخاب اور بچوں کی تعداد بھی اسی سوچ کے تحت طے کی جاتی ہے۔ اگر والدین کرکٹ ٹیم بنانے کے خواہش مند بھی ہیں اور فٹ(Fit) بھی تب بھی معاشرے کے ڈر سے کم بچے پیدا کرتے ہیں، اگر کسی کے بچے پیدا ہونے میں دیر ہو رہی ہے تب بھی جلد از جلد پیروں، فقیروں، حکیموں اور ڈاکٹروں کے چکر لگاتے ہیں، اس ڈر سے کہ لوگ کیا کہیں گے۔

ترقی پذیر ممالک میں اسقاط حمل کا درست ڈیٹا اس لئے بھی مہیا نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ معاشرتی طور پر ممنوعہ موضوع ہے، اور درست ڈیٹا نہ ہونے کی وجہ سے وجوہات پر بات کرنا بھی مشکل ہے۔ سوال یہ ہے کہ کتنے حمل ضائع ہونے کے بعد وجہ تلاش کرنے کے لیے تحقیق کی جانا چاہیے، ایک، دو، تین یا زیادہ۔ 15 فیصد پروڈکشن ویسٹ کو ذہن میں رکھتے ہوئے اگر دو تین صحت مند بچے موجود ہیں تو ایک آدھ بچے کے ضائع ہونے پر تحقیقات میں پڑنے کی کوئی وجہ نہیں۔آپ بھی  اپنے بچے، اپنی ذہنی صحت کے ساتھ دشمنی مت کیجئے۔ گھبرائے ہوئے مریض اپنا پہلا بچہ ضائع ہونے پر سوال پوچھتے ہیں کہ اب اگلا بچہ ضائع ہونے کا امکان کتنا ہے؟ انہیں خبرہونی چاہئے کہ ایک ابارشن کے بعد دوسرے ابارشن کا چانس17 فیصد ہے۔ دو کے بعد تیسرے ابارشن کا چانس 24 فیصد اور تین کے بعد چوتھے ابارشن کا چانس 32 فیصد ہے۔ امریکہ میں دو بچے اور انگلینڈ میں لگاتار  تین بچے ضائع ہونے کے بعد زوجین کو انویسٹی گیشن یعنی لیبارٹری جانچ کی طرف لایا جاتا ہے جبکہ پاکستانی رویہ یہ ہے کہ شادی سے پہلے علاج شروع کر دیا جائے تاکہ شادی کے بعد حمل ضائع نہ ہو۔

اسقاط حمل کی وجوہات
(1) حمل زوجین کے تولیدی مواد کے ملنے سے وقوع پذیر ہوتا ہے، یہ بظاہر عام سا نظر آنے والا واقعہ دراصل انتہائی باریک نفاست اور حسابی اصول پر کام کرتا ہے۔ اس اہم ترین واقعے میں ایک باریک سے باریک ترین نکتے کا فرق محرم کو مجرم کے مصداق نارمل کو ابنارمل بنا دیتا ہے اور ابنارمل حمل کا نتیجہ اسقاط کی صورت میں نکلتا ہے۔ پچھلی سطروں میں، میں نے ذکر کیا کہ ہر شخص اکیلا ہے اور ہر مسافر کا زاد راہ مختلف ہے۔

حمل کے سفر میں بھی زادِ راہ (تولیدی مواد جو والدین کی طرف سے ملا) اہم ترین ہے۔ قدرت کے کارخانے میں بہترین کا انتخاب اور اس کا تحفظ خود قدرت کرتی ہے۔ عموماً میں اپنی مریض خواتین کو یہ بات سمجھاتی ہوں کہ حمل کے پہلے تین ماہ میں ضائع ہو جانے والا حمل دراصل والدین کے لیے اللہ کی خاص رحمت کا مظہر ہے کہ اللہ کریم نے والدین کو بڑی آزمائش (جسمانی یا ذہنی معذور اولاد) سے بچا لیا۔ سو یہ مقام شکر ہے نہ کہ مقام غم و فکر۔قدرت کا نظام ایسا ہے کہ ہر شخص اس کارخانہ قدرت میں آزادانہ زندگی گزارنے کے قابل ہو لہذا ضائع ہونے والے بیشتر حمل دراصل آزادانہ زندگی گزارنے کے قابل نہیں ہوتے، اس کی مثال پودے کے بیج سے لیجئے، ہر بیج سے پودا نہیں بنتا اور ہر پودا ایک جیسا طاقتور بھی نہیں ہوتا۔

(2) حمل کے میزبان یعنی رحم کی گنجائش، یعنی رحم/بچہ دانی کی حمل ٹھہرانے کی استطاعت کیسی ہے؟ عام طور پر رحم کی شکل ایک اُلٹی ناشپاتی کی شکل جیسی ہوتی ہے، جس کی بیرونی اور اندرونی جلد ہموار ہوتی ہے یعنی بلا کسی ابھار یا گڑھے کے یکساں ہموار اور ملائم ، بچہ دانی دوران ارتقاء دو ملیرئن ڈکٹس (دائیں اور بائیں) ادغام سے وجود میں آتی ہے۔ یہ دو ڈکٹس(نالیاں) عین درمیان میں مدغم ہوتے ہیں اور ارتقاء  کے دوران بچے کے پیٹ کے نچلے حصے یعنی پیڑو پر آ کر ٹھہر جاتے ہیں، اگر دوران ارتقا یہ دونوں اطراف کی نالیاں ایک دوسرے میں مدغم ہونے کے عمل میں کسی نکتے پر رک جائیں تو رحم کی مختلف اشکال سامنے آتی ہیں۔

مثلاً دو نصف بچہ دانیاں جو ایک دوسرے سے علیحدہ اور دور ہوں، یا دو ایک دوسرے سے چپکی لیکن درمیان سے ایک دیوار سے مکمل الگ، آدھی مدغم آدھی الگ اور مکمل مدغم لیکن ایک درمیانی پردے کے ساتھ۔ ان مختلف اشکال کی بچہ دانیوں میں حمل کا درست طور پر پرورش پانا، ایک عام نارمل رحم کے مقابلے میں مشکل ہے اور حمل کو نارمل متوازن رفتار سے پرورش پانے کے لیے ایک ایسی بچہ دانی درکار ہوتی ہے جو حمل کے سائز میں اضافے کے ساتھ ساتھ بالکل اسی رفتار سے شکل اور سائز میں خود بھی بڑھے۔ یعنی ایک غبارے میں ہوا یا پانی بھرنے پر جیسے غبارہ یکساں رفتار سے ہموار شکل و صورت میں بڑھتا اور پھولتا ہے بعینہ بچہ دانی کو بچے کے ساتھ پھیلنا چاہیے۔ رحم عام انسانی اعضا سے اس لحاظ سے مختلف ہے کہ دوران حمل یہ اپنی ہئیت اور سائز تبدیل کرتا ہے۔

اس خاص مقصد کے لیے قدرت نے اسے ایسے عضلات سے نوازا ہے جو کھنچنے ، بڑھنے اور سکڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اسی رحم میں کچھ بافتیں/ریشے (tissues ) ایسے بھی ہوتے ہیں جو پھیلنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، یہ فائبرس ٹشو کہلاتے ہیں۔ فائبرس ریشے اور رحمی ریشوں کا بہترین تناسب حمل کی عمدہ میزبانی کے لیے اہم ترین ضرورت ہے۔ مختلف انفیکشن، رسولیاں، رحم کی ابنارمیلٹی یا ماضی میں کیے گئے آپریشن (رسولی یا سیزیرین ) رحم میں نہ پھیل سکنے والے فائبرس ریشوں کی مقدار بڑھا دیتا ہے اور بچہ دانی حمل کے ساتھ مناسب رفتار یا مناسب شکل میں پھیلنے کی صلاحیت کھو بیٹھتی ہے۔ اسی مشکل سے بچنے کے لیے سیزیرین کا کٹ رحم کے انتہائی نچلے حصے میں لگایا جاتا ہے جس میں قدرتی طور پر فائبرس ریشوں کی مقدار زیادہ ہوتی ہے اس طرح اگلا حمل محفوظ بنایا جاتا ہے۔

آپ دوبارہ غبارے میں پانی بھرنے کی مثال لیجئے، ایسا غبارہ جس کی دیوار کسی جگہ سے کمزور ہو۔ اس میں پانی بھرنے سے غبارے کی شکل میں کمزور حصے میں ایک علیحدہ ابھار ظاہر ہوگا۔ اسے سیکیولیشن (ابھار) کہتے ہیں۔ یہ دوران حمل بچہ کے ضائع ہونے یا زچہ کو دوران حمل شدید درد ہونے کی وجہ بن سکتا ہے۔ اس سکیولیشن کے عمل میں بچہ اور بچہ دانی کے بڑھنے کی سپیڈ میچ نہیں کرتی جس کی وجہ سے درد شدید ہوتا ہے۔ اس کی مینیجمنٹ میں رحم کے منہ کو ٹانکا لگانا اور حمل کے لیے کھاد کا کام کرنے والی ادویات کا استعمال ہوتا ہے۔ اسی طرح رحم میں رسولی ، پردے یا انفیکشن کا ہونا بھی بچہ ضائع ہونے کی وجہ بن سکتا ہے۔

ایک کامیاب حمل کے بعد ایک بچہ ضائع ہو جائے تو ایسی صورت میں اسقاط حمل کی وجوہات میں بچہ دانی کا کردار ہونا مشکل ہے۔ اس مقام پر یہ بات بھی بتاتی چلوں کہ جیسے ایک غبارے کو پہلی بار پھلانا مشکل اوردوسری بار آسان ہوتا ہے ایسے ہی رحم کا پہلی بار بڑھنا، دوسری بار کی نسبت مشکل ہوتا ہے۔ بار بار بچہ ضائع ہونے کی صورت میں رحم کا کیمرے کے ذریعے اندرونی معائنہ( HYSTEROSONOGRAPHY ) ضرور کروائیں۔

(3) رحم کی اندرونی جھلی (بچے کا نرم گرم بستر)۔ حمل نے رحم کے اندر رحم کی نرم گرم خون اور خوراک سے بھرپور جھلی کی گود میں جونک کی مانند چپکنا، خوراک حاصل کرنا اور بڑھنا ہوتا ہے۔ اس گود یعنی جھلی میں خون اور خوراک کی کمی اسے برا میزبان بناتی ہے اور بھوکا مہمان جلد ہی میزبان کو ’بائے، بائے‘ کہہ دیتا ہے، حمل کا خصوصی ہارمون پروجیسٹران اس میں خون کی سپلائی بحال رکھنے کا ضامن ہے۔ جن خواتین میں دوران حمل پروجیسٹران کی کم مقدار بار بار اسقاط حمل کی وجہ بنی ہو انہیں پروجیسٹران کی اضافی مقدار دی جاتی ہے۔ اس کا نارمل لیول شروع کے مہینوں میں 12 نینوگرام فی ملی گرام سے کچھ زیادہ سے لے کرحمل کے اختتام پر 50 نینو گرام فی ملی گرام سے کچھ اوپر تک ہونا چاہیے۔ دوران حمل ظاہر ہونے والی بیشتر علامات اسی ہارمون کی مرہون منت ہیں۔

(4) زچہ کے بائیو کیمیکل ایونٹس (حیاتیاتی کیمیائی صورتحال ): یعنی رحم کے اندرونی کیمیائی حالات، حمل، ذیابیطس کا باعث بننے والی بیماری ہے۔ دوران حمل شوگر کا کنٹرول اس طرح سے تبدیل ہوتا ہے کہ حاملہ عورت دوران حمل شوگر کا شکار ہو سکتی ہے جبکہ عام حالات میں اس کا شوگر کا کنٹرول بہترین ہوتا ہے۔ اسی طرح تھائیراڈ (گلہڑ) کا مسئلہ سامنے آتا ہے۔ حاملہ خاتون میں بیٹا ایچ سی جی beta HCG ہارمون کی موجودگی تھائیرائڈ کے کنٹرول پر اثرانداز ہوتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ بیٹاایچ سی جی ہارمون اور تھائیرائڈ اسٹیمولیٹنگ ہارمون کی مالیکیولر( مالیکیولیائی ) ساخت کی نہایت قریبی مماثلت ہے۔ بارڈر لائن(انتہائی حد پر موجود) تھائیرایڈ فنکشن نتائج بار بار حمل کے ضائع ہونے کی وجہ بن سکتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں تھائیرایڈ ہارمون کا کنٹرول نارمل رینج کے عین درمیان میں رکھنے کی کوشش کی جائے۔

حمل کے نو ماہ کو تین تین ماہ کے وقفوں میں تقسیم کیا جائے تو پہلے، دوسرے اور تیسرے تین ماہ میں تھائیرائڈ گلینڈ سے پیدا ہونے والے تین اہم ہارمونز کی نارمل مقدار مندرجہ ذیل ہے:

0-3 m * 3-6 m *6-9 m

TSH 0.2–3.9, 0.5–4.1, 0.6–4.1miu/l

TT4 8.2–18.5,10.1–20

.6,9–19.4 g/dl

TT3 137.8–278.3,154.8–327.6, 137–323.6 ng/dl

انڈہ دانیوں میں پانی کی تھیلیوں کا مسئلہ (PCO) کا ہونا۔ پولی سسٹک سنڈرم کی شکار 100 میں سے 65 خواتین کے ہاں اسقاط حمل کا خطرہ ہے۔ ایک ڈاکٹر کا مقصد زچہ کے ان تمام نتائج کو نارمل لیول کے اندر رکھنا ہوتا ہے، مثلاً TSH کو 1 اور FT4 کو 4 تک رکھا جائے۔

مختصراً تمام وجوہات یہ ہیں:

تولیدی نظام کا درست کام نہ کرنا۔

رحم کا بہترین میزبانی نہ کرنا۔

زچہ کے حیاتیاتی کیمیائی BIOCHEMICAL نظام کا عدم توازن

موروثی بیماریاں جو حمل کے ضیاع کا سبب بنتی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس سے متعلقہ، ٹیسٹ کروائے جانے چاہئیں یا نہیں ، یہ مہنگے ٹیسٹ جن کا عموماً کوئی مفید نتیجہ برآمد نہیں ہوتا، سوائے اس کے کہ اس کے مثبت رزلٹ کے بعد چائلڈ اڈآپشن (لے پالک) بچے پر غور کیا جائے، یا اس ٹیسٹ کا مقصد ریسرچ کی ضرورت کے لیے زوجین کے کاغذات مکمل کرنے ہوں۔

ٹارچ انفیکشن(  TORCH INFECTIONS) اس مخفف کا معنی ٹوکسوپلازموسس (TO )، ربیلا( R) کلے مائیڈیا (C ) اور ہرپیز(H ) وائرس ہے۔ اس کا ٹیسٹ نہ کرانا ،کرانے سے بہتر ہے، اگر کرائیں تو منفی نتیجہ اہم ہے۔ ہمارے ملک میں صرف ربیلا ویکسینیشن دستیاب ہے، ٹارچ انفکشن12 ، 16 ہفتے کے حمل تک نقصان دہ ہوتی ہے، اگر اس دوران ایکٹو انفیکشن ہو تو حمل ضائع کرنے کا سوچنا چاہیے، اگر 16 ہفتے کے بعد انفیکشن ہو تو اس کا کوئی نقصان نہیں۔

بار بار کے اسقاط حمل کی وجوہات جاننے کے لیے کروائے جانے والے اہم ٹیسٹ یہ ہیں:

رحم کا اندرونی معائنہ بذریعہ کیمرہ

جگر کے فنکشن کے ٹیسٹ LFT’S

BSL زیابیطس /شوگر ٹیسٹ

GTT گلوکوز چیلنج ٹیسٹ

FT4 فری ٹی فور

TSH تھائیرائڈ اسٹیمولیٹنگ ہارمون

CARDIOLIPIN TITRE کارڈیولپن کی جانچ

علاج کے اہم نکات

پروجیسٹران لیول درست کریں۔

شوگر کا کنٹرول سخت کریں، اس کے لیے میٹ فارمین دوا اچھی چوائس ہے۔ اگر پھر بھی شوگر کنٹرول نہ ہو تو ریگولر انسولین انجکشن استعمال کیا جانا چاہیے۔

کم مقدار میں اسپرین دیں۔

کم مالیکولیائی وزن والی ہیپارین دیں۔

رحم کی گردن کو ٹانکا لگائیں۔ 8 سے 10 ہفتے کی عمر میں اس کا نفسیاتی اثر زیادہ ہوتا ہے جبکہ اس کے بعد اس کا میکانکی اثر اہم ہوتا ہے۔

سب سے اہم طریقہ علاج ٹی ایل سی (Tender loving care) کہلاتا ہے، زچہ کو ہتھیلیوں پر پھولوں کی طرح سنبھال سنبھال کر رکھیں۔ ہاتھ کا چھالا اور ناک کا بال بنا کر اور اچھے نتائج کی اچھی امید رکھیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔