- انوار الحق کاکڑ، ایمل ولی بلوچستان سے بلامقابلہ سینیٹر منتخب
- جناح اسپتال میں خواتین ڈاکٹروں کو بطور سزا کمرے میں بند کرنے کا انکشاف
- کولیسٹرول قابو کرنیوالی ادویات مسوڑھوں کی بیماری میں مفید قرار
- تکلیف میں مبتلا شہری کے پیٹ سے زندہ بام مچھلی برآمد
- ماہرین کا اینڈرائیڈ صارفین کو 28 خطرناک ایپس ڈیلیٹ کرنے کا مشورہ
- اسرائیل نے امن کا پرچم لہرانے والے 2 فلسطینی نوجوانوں کو قتل کردیا
- حکومت نے آٹا برآمد کرنے کی مشروط اجازت دے دی
- سائفر کیس میں امریکی ناظم الامور کو نہ بلایا گیا نہ انکا واٹس ایپ ریکارڈ لایا گیا، وکیل عمران خان
- سندھ ہائیکورٹ میں جج اور سینئر وکیل میں تلخ جملوں کا تبادلہ
- حکومت کا ججز کے خط کے معاملے پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان
- زرمبادلہ کے سرکاری ذخائر 8 ارب ڈالر کی سطح پر مستحکم
- پی ٹی آئی کا عدلیہ کی آزادی وعمران خان کی رہائی کیلیے ریلی کا اعلان
- ہائی کورٹ ججز کے خط پر چیف جسٹس کی زیرصدارت فل کورٹ اجلاس
- اسلام آباد اور خیبر پختون خوا میں زلزلے کے جھٹکے
- حافظ نعیم کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری نہ کرنے پر الیکشن کمیشن کو نوٹس
- خیبر پختونخوا کے تعلیمی اداروں میں موسم بہار کی تعطیلات کا اعلان
- اسپیکر کے پی اسمبلی کو مخصوص نشستوں پر منتخب اراکین سے حلف لینے کا حکم
- امریکا میں چاقو بردار شخص کے حملے میں 4 افراد ہلاک اور 5 زخمی
- آئی پی ایل؛ ’’پریتی زنٹا نے مجھے اپنے ہاتھوں سے پراٹھے بناکر کھلائے‘‘
- اسلام آباد میں ویزا آفس آنے والی خاتون کے ساتھ زیادتی
ردّی چور اور دیوان سنگھ کی بے بسی
چار ماہ کے عرصہ میں صرف سولہ روپے؟
ممکن ہے یہ مبالغہ آرائی ہو، مگر یہ واقعہ ہے کہ جب وہ (باری) روزنامہ ’’احسان‘‘ میں کام کرتے تھے، تو انہیں دفتر سے ردی چرا کر اپنے اخراجات پورے کرنے پڑتے تھے۔ ان دنوں راجہ مہدی علی خان بھی وہیں ملازم تھے، باری صاحب آدمی بڑے مخلص تھے، جب انہوں نے دیکھا کہ ردی بیچ کر کچھ کچھ وصول ہو جاتا ہے تو انہوں نے راجہ کو بھی اس وسیلے سے آگاہ کر دیا۔
باری صاحب طبعاً اعتدال پسند اور محتاط تھے، لیکن راجہ دھڑلے کا آدمی تھا۔ اس نے ایک دو بار تو صرف بنڈل چرائے، اس کے بعد اس نے باری صاحب کو کہا: ’’یہ خوردہ فروشی غلط ہے مولانا … میں کل دو بوریاں لائوں گا، انہیں بھر کر لے جائیں گے۔‘‘ باری صاحب ڈر گئے، لیکن راجہ صاحب نے ان کو اس بڑی ڈکیتی پر آمادہ کر لیا۔ باری صاحب پہرہ دیتے رہے اور راجہ بوریوں میں ردی بھرتا رہا، مزدور بلوائے گئے اور انہیں اٹھوا کر اپنے ساتھ لے گئے، راجہ کا بیان ہے کہ ہم دونوں نے سنیما دیکھا تھا۔
سردار صاحب (دیوان سنگھ مفتون) نے ایک دن زچ ہو کر مجھ سے کہا: ’’میں نے بڑی بڑی قطب صاحب کی لاٹھوں کو جھکا دیا، مگر یہ حسن نظامی مجھ سے نہیں جھکایا جا سکا۔منٹو صاحب! میں نے اس شخص کے خلاف اتنا لکھا ہے، اتنا لکھا ہے کہ اگر ’’ریاست‘‘ کے وہ تمام پرچے جن میں یہ مضامین چھپتے رہے ہیں، اس پر رکھ دیے جائیں، تو ان کے وزن ہی سے اس کا کچومر نکل جائے، لیکن الٹا کچومر میرا نکل گیا۔‘‘ میں نے اس کے خلاف اس قدر زیادہ اس لیے لکھا کہ میں چاہتا تھا کہ وہ بھنا کر قانون کو پکارے، کھلی عدالت میں مقدمہ پیش ہو، اور میں وہاں اس کے ڈھول کا پول کھول کر رکھ دوں … لیکن اس نے کبھی مجھے ایسا موقع نہیں دیا اور نہ دے گا۔‘‘
(سعادت حسن منٹو کے قلم سے)
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔