ردّی چور اور دیوان سنگھ کی بے بسی

 ہفتہ 17 فروری 2018
باری صاحب طبعاً اعتدال پسند اور محتاط تھے، لیکن راجہ دھڑلے کا آدمی تھا۔  فوٹو : فائل

باری صاحب طبعاً اعتدال پسند اور محتاط تھے، لیکن راجہ دھڑلے کا آدمی تھا۔ فوٹو : فائل

چار ماہ کے عرصہ میں صرف سولہ روپے؟

ممکن ہے یہ مبالغہ آرائی ہو، مگر یہ واقعہ ہے کہ جب وہ (باری) روزنامہ ’’احسان‘‘ میں کام کرتے تھے، تو انہیں دفتر سے ردی چرا کر اپنے اخراجات پورے کرنے پڑتے تھے۔ ان دنوں راجہ مہدی علی خان بھی وہیں ملازم تھے، باری صاحب آدمی بڑے مخلص تھے، جب انہوں نے دیکھا کہ ردی بیچ کر کچھ کچھ وصول ہو جاتا ہے تو انہوں نے راجہ کو بھی اس وسیلے سے آگاہ کر دیا۔

باری صاحب طبعاً اعتدال پسند اور محتاط تھے، لیکن راجہ دھڑلے کا آدمی تھا۔ اس نے ایک دو بار تو صرف بنڈل چرائے، اس کے بعد اس نے باری صاحب کو کہا: ’’یہ خوردہ فروشی غلط ہے مولانا … میں کل دو بوریاں لائوں گا، انہیں بھر کر لے جائیں گے۔‘‘ باری صاحب ڈر گئے، لیکن راجہ صاحب نے ان کو اس بڑی ڈکیتی پر آمادہ کر لیا۔ باری صاحب پہرہ دیتے رہے اور راجہ بوریوں میں ردی بھرتا رہا، مزدور بلوائے گئے اور انہیں اٹھوا کر اپنے ساتھ لے گئے، راجہ کا بیان ہے کہ ہم دونوں نے سنیما دیکھا تھا۔

سردار صاحب (دیوان سنگھ مفتون) نے ایک دن زچ ہو کر مجھ سے کہا: ’’میں نے بڑی بڑی قطب صاحب کی لاٹھوں کو جھکا دیا، مگر یہ حسن نظامی مجھ سے نہیں جھکایا جا سکا۔منٹو صاحب! میں نے اس شخص کے خلاف اتنا لکھا ہے، اتنا لکھا ہے کہ اگر ’’ریاست‘‘ کے وہ تمام پرچے جن میں یہ مضامین چھپتے رہے ہیں، اس پر رکھ دیے جائیں، تو ان کے وزن ہی سے اس کا کچومر نکل جائے، لیکن الٹا کچومر میرا نکل گیا۔‘‘ میں نے اس کے خلاف اس قدر زیادہ اس لیے لکھا کہ میں چاہتا تھا کہ وہ بھنا کر قانون کو پکارے، کھلی عدالت میں مقدمہ پیش ہو، اور میں وہاں اس کے ڈھول کا پول کھول کر رکھ دوں … لیکن اس نے کبھی مجھے ایسا موقع نہیں دیا اور نہ دے گا۔‘‘

(سعادت حسن منٹو کے قلم سے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔