پورٹ قاسم کلکٹریٹ میں ممنوعہ اشیا کی کلیرنس کا انکشاف

احتشام مفتی  ہفتہ 17 فروری 2018
 13 ماہ کے دوران کلیئر ہونے والے تمام درآمدی کنسائمنٹس کے بعدازکلیرنس آڈٹ کامطالبہ۔ فوٹو : فائل

 13 ماہ کے دوران کلیئر ہونے والے تمام درآمدی کنسائمنٹس کے بعدازکلیرنس آڈٹ کامطالبہ۔ فوٹو : فائل

 کراچی: پاکستان کسٹمز پورٹ قاسم کلکٹریٹ میں گرین چینل کا غیرقانونی استعمال بڑھنے سے ملک میں ممنوعہ ودیگر مصنوعات کی اسمگلنگ کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔

ذرائع نے بتایا کہ کلکٹریٹ میں گرین چینل کا استعمال کرنے والا ایک منظم گروہ متحرک ہے جو ممنوعہ و دیگر اشیا کی گرین چینل سے تیز رفتار کلیئرنس کروا کر ریونیو کی مد میں قومی خزانے کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچا رہا ہے۔

قانونی درآمدکنندگان نے پورٹ قاسم کلکٹریٹ کے گرین چینل کے ذریعے گزشتہ 13 ماہ کے دوران کلیئر ہونے والے تمام درآمدی کنسائمنٹس کے بعد ازکلیرنس آڈٹ کا مطالبہ کیا ہے تاکہ اس حقیقت کا پتہ چلایا جاسکے کہ کلکٹریٹ کے گرین چینل سے کلیئرہونے والے کنسائمنٹس سے کن کن درآمدکنندگان نے غلط یا درست طور پراستفادہ کیا ہے۔

قانونی درآمد کنندگان کا کہنا ہے کہ کلکٹریٹ میں تعینات ایک ایڈیشنل کلکٹرودیگر متعلقہ اعلیٰ افسران کی ملی بھگت سے گرین چینل کے ذریعے مس ڈیکلیئرڈ کنسائمنٹس کی کلیئرنس زوروں پر ہے جبکہ قانونی طور پر درست ڈیوٹی وٹیکسوں کی ادائیگیاں کرنے والے امپورٹرز کے کنسائمنٹس کی کلیئرنس کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں اور قانونی کنسائمنٹس کی کئی بارکسٹم ایگزامنیشن واسیسمنٹ کی وجہ سے درآمدکنندگان کونہ صرف ہراساں کیا جارہا ہے بلکہ ان کے کنسائمنٹس کی کلیئرنس کی مدت بڑھنے سے ان پر بھاری ڈیمریج وٹیٹنشن چارجز کا بوجھ بھی ڈالا جارہا ہے۔

واضح رہے کہ چند ہفتے قبل ہی اچانک کسٹمز ایگزامنیشن کے دوران اس بات کا انکشاف ہوا کہ مس ڈیکلریشن کے ذریعے انتہائی مہلک کیمیکل ایسٹک ہائیڈرائیڈ ملک میں اسمگل کیا جارہا ہے جبکہ حال ہی میںآئرن اینڈ اسٹیل اسکریپ کی ایک کھیپ کوبھی گرین چینل کے ذریعے کلیئر کروا کر قومی خزانے کو ریونیو کی مد میں 23 ملین روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔

درآمدکنندگان کا موقف ہے کہ پورٹ قاسم کلکٹریٹ کے حکام قانونی درآمدکنندگان کے لیے زحمت جبکہ گرین چینل مافیا کے رحمت ثابت ہورہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں انسداد اسمگلنگ کی متعدد بڑی نوعیت کی کارروائیوں کے باوجود منظم اندازکی اسمگلنگ سے قومی معیشت کو سالانہ 1000ارب روپے کا خطیرنقصان پہنچ رہا ہے۔

درآمدکنندگان کا کہنا ہے کہ ان کے درآمدی کنسائمنٹس کی کلیئرنس میں بلاجواز تاخیر کے نتیجے میں مس ڈیکلیئرڈ یا اسمگل شدہ مصنوعات کی مارکیٹوں میں آمد پہلے ہوجاتی ہے جبکہ قانونی طور پر امپورٹ ہونے والی اسی نوعیت کی مصنوعات مارکیٹوں میں اس وقت پہنچتی ہیں کہ جب اسمگلرز اپنی مصنوعات مارکیٹوں کے بیوپاریوں کوفروخت کرچکے ہوتے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اعلیٰ کسٹمز حکام زمینی حقائق کے مطابق اس ضمن میں تحقیقات کا اعلان کریں تاکہ قانونی طورپر درآمدات کرنے والے مایوس امپورٹرز کی حوصلہ افزائی اور اسمگلروں کی حوصلہ شکنی ہوسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔