امریکا اور ترکی کا شام میں مل کر کام کرنے پر اتفاق

خبر ایجنسیاں  ہفتہ 17 فروری 2018
 ترکی کی سرحد سے ملحقہ شامی علاقے میں موجود کرد جنگجوؤں کو ترکی اپنے لیے خطرہ تصور کرتا ہے، امریکی وزیرخارجہ۔ فوٹو: فائل

 ترکی کی سرحد سے ملحقہ شامی علاقے میں موجود کرد جنگجوؤں کو ترکی اپنے لیے خطرہ تصور کرتا ہے، امریکی وزیرخارجہ۔ فوٹو: فائل

 انقرہ / دمشق:  امریکا اور ترکی نے کہاہے کہ شام میں کردوں کے خلاف ترک فوج کی کارروائی پر دونوں ملکوں کے درمیان پیدا ہونے والے شدید اختلافات کو ختم کرنے کیلیے طریقہ کار طے کرلیا گیا ہے۔

انقرہ میں مذاکرات کے بعد امریکی وزیرخارجہ ریکس ٹلرسن نے کہاکہ امریکا نے کرد جنگجوؤں کی محدود پیمانے پر امداد کرنے کا وعدہ کرلیاہے، ساتھ ہی امریکی وزیرخارجہ نے اس بات پر بھی زور دیا کہ شام کے علاقے عفرین میں ترک فوج کو بھی احتیاط سے کام لینا چاہیے۔

ریکس ٹلرسن نے کہا کہ کرد جنگجوؤں کو امریکی ہتھیاروں کی فراہمی محدود اور پہلے سے متعین کرد کارروائیوں کیلیے ہوگی۔ ترکی کی سرحد سے ملحقہ شامی علاقے میں موجود کرد جنگجوؤں کو ترکی اپنے لیے خطرہ تصور کرتا ہے اور ان جنگجوؤں کو امریکی امداد فراہم کیے جانے پر وہ شدید تشویش کا شکار ہو گیا تھا۔

امریکی وزیرخارجہ سے مذاکرات کے بعد طے کیے جانے والے طریقہ کار کے تحت اب مشترکہ ورکنگ گروپس بنائے جائیں گے جو اس معاملے پر اختلاف کو کم کرنے کے علاوہ کشیدگی کا باعث بننے والے دیگر امور کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کریں گے۔ ریکس ٹلرسن کی طرف سے انقرہ کے دورے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ترکی کو امریکی خارجہ پالیسی میں کتنی اہمیت حاصل ہے۔

ترکی کے وزیر خارجہ مولود چاوشلو نے کہاکہ شام میں امریکا اور ترکی کے اہداف مشترک ہیں۔ امریکی وزیرخارجہ نے ترک صدر سے بھی ملاقات کی جو انتہائی تعمیری اور مثبت رہی۔

امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی طرف سے کہا گیاکہ دونوں رہنماؤں نے کھلے انداز میں گفتگو کی اور باہمی تعلقات کو زیادہ بہتر بنانے پر زور دیا۔

دوسری طرف ترک صدارتی دفتر کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان کے مطابق صدر اردوان نے اس ملاقات میں شام سے متعلق حکومتی پالیسی کے بارے میں اپنی ترجیحات اور توقعات سے امریکا کو آگاہ کر دیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔