- پولیس یونیفارم پہننے پر مریم نواز کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے، یاسمین راشد
- قصور ویڈیو اسکینڈل میں سزا پانے والے 2 ملزمان بری کردیے گئے
- سپریم کورٹ نے اسپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالخالق اچکزئی کو بحال کر دیا
- مرغی کی قیمت میں کمی کیلیے اقدامات کر رہے ہیں، وزیر خوراک پنجاب
- عوام کو کچھ نہیں مل رہا، سارا پیسہ سرکاری تنخواہوں میں دیتے رہیں گے؟ چیف جسٹس
- وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے پولیس وردی پہن لی
- کلین سوئپ شکست؛ ویمنز ٹیم کی سلیکشن کمیٹی میں بڑی تبدیلیاں
- قومی اسمبلی کمیٹیاں؛ حکومت اور اپوزیشن میں پاور شیئرنگ کا فریم ورک تیار
- ٹرین میں تاریں کاٹ کر تانبہ چوری کرنے والا شخص پکڑا گیا
- غزہ کے اسپتالوں میں اجتماعی قبریں، امریکا نے اسرائیل سے جواب طلب کرلیا
- وزارتِ صنعت و پیداوار نے یوریا کھاد درآمد کرنے کی سفارش کردی
- ٹی20 ورلڈکپ؛ 8 بار کے اولمپک گولڈ میڈلسٹ یوسین بولٹ سفیر نامزد
- کہوٹہ؛ بس میں ڈکیتی کے دوران ڈاکو کی فائرنگ سے سرکاری اہلکار جاں بحق
- نوجوان نسل قوم کا سرمایہ
- اسلام آباد میں روٹی کی قیمت میں کمی کا نوٹیفکیشن معطل
- کیا رضوان آئرلینڈ کیخلاف سیریز میں اسکواڈ کا حصہ ہوں گے؟ بابر نے بتادیا
- ویمنز کوالیفائر؛ آئی سی سی نے ثنامیر کو ’’برانڈ ایمبیسڈر‘‘ مقرر کردیا
- پی او بی ٹرسٹ عالمی سطح پر ساڑھے 3لاکھ افراد کی بینائی ضائع ہونے سے بچا چکا ہے
- ایف بی آر نے ایک آئی ٹی کمپنی کی ٹیکس ہیرا پھیری کا سراغ لگا لیا
- سیاسی نظریات کی نشان دہی کرنے والا اے آئی الگوردم
بلوچستان کے ننھے مصور
فنون لطیفہ میں جہاں ادب، شاعری، موسیقی اور دیگر فنون کی اپنی اہمیت ہے وہاں فن مصوری اور خطاطی کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ ان فنون پر مہارت رکھنا ایک خداداد صلاحیت ہونے کے ساتھ ساتھ انسان کی اپنی محنت اور فن سے محبت کا ثبوت بھی ہے۔ موجودہ وقت میں جہاں مشینی انقلاب نے انسانوں کو بہت مصروف بنا کر اس کےلیے کئی آسانیاں پیدا کی ہیں وہاں کچھ کام ایسے بھی ہیں جنہیں سائنسی انقلاب نے متاثر تو کیا مگر ان کی اہمیت شاید کبھی ختم نہ ہوئی جن میں فن مصورری اور خطاطی شامل ہیں۔
بلوچستان کے تاریخی شہر اور قدیم بلوچستان کے دارالحکومت قلات میں دو ننھے پینٹر اور خطاط محمد یاسین اور خدا بخش نے اپنے ہم عمروں اور دیگر لوگوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ ساتویں جماعت کے یہ دونوں طلبا بیک وقت فن مصوری، خطاطی اور پینٹگ پر عبور رکھتے ہیں۔ محمد یاسین اور خدابخش کے والد ثناء اللہ پیشے کے اعتبار سے استاد ہیں اور محکمہ تعلیم میں اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر قلات کے فرائض انجام دے رہے ہیں جبکہ اسی کے ساتھ وہ خودایک اچھے پینٹر اور خطاط بھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان ننھے تخلیق کاروں کو سیکھنے اور ان کے شوق کو پنپنے کا موقع مل رہا ہے۔ ان کے والد کے بقول گھر میں موجود کتابیں، خطاطی اور پینٹنگ کے نمونے اتنے زیادہ ہیں کہ ان کو روز رہنمائی کی ضرورت نہیں ہوتی۔
دونوں بچوں کا کہنا ہے کہ اسکول میں اساتذہ کی طرف سے کچھ خاص حوصلہ افزائی نہیں ہوتی مگر پھر بھی چند ایسے اساتذہ ہیں جو ہمارے کام کی قدر کرتے ہیں اور ہماری حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ مگر شہر سے باہر ہونے والے مقابلوں میں حصہ لینے کےلیے ہمارے والد ہمیں لے کر جاتے ہیں۔ قابل تعریف بات یہ ہے کہ دونوں بچے خطاطی اور پینٹگ کے مقابلوں میں تحصیل، ضلع، ڈویژن اور صوبائی سطح پر جیت چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اسکول میں اپنے دیگر طالب علم ساتھیوں کی دلچسپی کو دیکھ کر ان کی مدد بھی کرتے ہیں۔
اپنے بچوں میں غیرمعمولی صلاحیتوں کے حوالے سے ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ قدرت کی طرف سے کچھ ایسی صلاحیتیں ہوتی ہیں جو نسل در نسل منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ تاہم وہ مزید کہتے ہیں کہ انہوں نے ان کی صلاحیتوں کو ا بھارنے کےلیے دونوں بھائیوں کے درمیان مقابلے کا رجحان پیدا کیا ہے۔ البتہ فن خطاطی اور پینٹنگ ایک وقت طلب کام ہے تو ان کی کوشش رہی ہے کہ وہ اس فن سے دور بھی نہ رہیں اور ان کی تعلیم بھی متاثر نہ ہو۔
جب ان ننھے فنکاروں کی تعلیم اور مستقبل کے حوالے سے ان کے والد سے بات ہوئی تو انہوں نے چند خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دور جدید میں فنون لطیفہ میں خطاطی، پینٹنگ اور مصوری کو حکومت کی طرف سے کوئی خاطرخواہ سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے میں سمجھتا ہوں کہ یہ فن میرے بچوں کا ذریعہ معاش نہیں بن سکتا۔ تو میری کوشش ہے کہ میں انہیں اعلی تعلیم دلواسکوں یا انہیں سی ایس ایس کے امتحانات میں حصہ لینے کےلیے تیار کرلوں تاکہ ان کی صلاحیتوں کو مزید نکھرنے کا موقع ملے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔