Minimalism

شیریں حیدر  اتوار 18 فروری 2018
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

پچھلے دنوں اپنے حلقہء دوستاں کی ماہانہ میٹنگ کے دوران چند اہم موضوعات پر باتیں ہو رہی تھیں، اس سے قبل بھی میں اس پر دو تین ہفتے پہلے کالم لکھ چکی ہوں ہم سب فطرتاً collectors  ہوتے ہیں، لوگوں، رشتوں اور دوستوں سے بڑھ کر چیزیں ہمیں پیاری ہوتی ہیں۔

رشتے پیار کرنے کے لیے ہوتے ہیں اور چیزیں استعمال کے لیے مگر الٹا فیشن چل رہا ہے، لوگوں کو استعمال کیا جاتا ہے اور چیزوں سے پیار ہو جاتا ہے۔ شاید اس لیے کہ کسی نہ کسی مقام پر، کسی نہ کسی وجہ سے لوگ ہمیں چھوڑ کر چلے جاتے ہیں مگر چیزیں ہمارے پاس رہتی ہیں، شاید اس لیے بھی کہ چیزوں کو ہم ہمیشہ اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں۔

اسی پر گفتگو ہوتے ہوتے ، ہم سب نے مشترکہ فیصلہ کیا کہ ہم اس کے بعد اپنا سامان بڑھانے کے بجائے، اسے کم کرنے کی کوشش کریں گے۔ نیا سامان خریدنا ہماری عمر تک آ کر یوں بھی کم ہو جاتا ہے، کوشش کی جائے کہ جو سامان ہمارے تصرف میں نہیں ہے، اسی کو کسی نہ کسی طرح کم کرنا چاہیے۔ میں نے گھر واپس لوٹ کر Google کیا کہ مجھے Minimalism پر کچھ مواد ملے تو میں اس کے بارے میں لکھوں ۔ چند ایک بہت اچھی چھوٹی چھوٹی فلمیں اور کچھ شو بھی ہیں ، جن میں لوگوں کے گھروں سے سارے سامان کو ان کے گھر سے نکال کر باہر کھڑے کنٹینرز میں رکھ دیا گیا۔اس کے بعد سب لوگوں سے کہا گیا کہ وہ ان کنٹینرز میں سے صرف وہ سامان اپنے گھر میں لے جا سکیں گے جس کی انھیں فوری ضرورت ہو گی۔

کم سے کم سامان سے گزارا کرنا ہو گا، سارا سامان ان کے کنٹینر میں موجود ہے۔ وہ اس میں سے جب چاہیں وہ سامان بعد ازاں بھی لے سکتے ہیں جب اس کی ضرورت پڑے گی۔ اس دلچسپ تجربے کی مدت ایک سال کی رکھی گئی تھی، اور اگر ایک سال تک اس سامان میں سے کچھ بھی استعمال نہ کیا جاتا تو وہ سامان ان کے گھر سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نکال دیا جاتا ۔

خواتین بالخصوص ایسی ہوتی ہیں کہ انھیں کوئی چیز چاہیے ہو یا نہیں، اس لیے خرید لیتی ہیں کہ وہ دکان پر پڑی خوبصورت لگ رہی تھی۔ گھر آ کر انھیں اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی جگہ ہی گھر میں نہیں ہے، اس لیے ایسی اشیاء اسٹور روم کی ان جگہوں پر چلی جاتی ہیں جہاں مہینوں رسائی نہیں ہوتی، جب کبھی اسٹور روم کو کسی اور چیزکے لیے کھولیں اور وہ چیز نظر آ جائے تو سارا دن سوچتی رہتی ہیں کہ فلاں چیز انھیں کس نے تحفتاً دی تھی، دو دن کے بعد یاد آتا ہے کہ خود ہی خریدی تھی۔

کئی بار ہمارے ساتھ بھی ایسا ہوا کہ کچھ خریدا، گھر لائے اور دیکھا کہ وہی چیز پہلے سے کسی ایسے دراز میں رکھی ہے جسے کھولے ہوئے مہینوں بیت گئے ہیں، جب اس کی ضرورت تھی تو یاد نہ آیا کہ کہاں رکھی تھی اور جونہی اس جیسی نئی خرید کر لائے تو پہلے والی بھی مل گئی۔ ایسی صورت میں کیا کرنا چاہیے؟

کسی مغربی ملک میں ہوں تو پھر بھی ازالے کی صورت ہے کہ آپ نئی خریدی جانے والی چیز کو لوٹا کر اپنی رقم واپس لے لیں مگر ہمارے ہاں تو اس بات کا رواج ہی نہیںکہ آپ کچھ واپس کر کے اپنی رقم لے سکیں۔ ہر دکان کی رسید پر لکھا ہوا ہوتا ہے نہ خریدی ہوئی چیز واپس نہیں ہو گی، تبدیل کرنے کے لیے بھی چند دن کے اندر اندر اور اصل رسید کا ہونا لازمی ہے۔

ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں دکانداروں کے حقوق گاہکوں سے زیادہ ہیں، کاروباری قوانین نام کی کوئی ایسی چیز ہے نہ کوئی شق جو کہ گاہکوں کو فائدہ دیتی ہو۔ کسی چیز کی خرابی کی شکایت بھی کریں تو اس چیز کے بارے میں صفائی دی جاتی ہے کہ صرف آپ نے شکایت کی ہے، اب تک ہزاروں کی تعداد میں بک چکی ہے کوئی اور شکایت لے کر نہیں آیا۔ چلیں زیادہ سے زیادہ ہم اسے رکھ لیتے ہیں، کمپنی کو واپس بھیجتے ہیں اور دیکھیں کہ وہ کیا کرتے ہیں۔ اس کے بعد نہ آپ کویاد رہتا ہے اور نہ دکاندار کو اور مسئلہ قصہء پارینہ بن جاتا ہے۔

ہاں تو ہم نے بھی سوچا کہ کچھ اسی طرح کا کرتے ہیں کہ گھر کے باہر کنٹینر نہ سہی مگر گھر میں ہی ایک جگہ مختص کرلیتے ہیں اور وہاں آہستہ آہستہ وہ سارا سامان جمع کرتے ہیں جو ہمیں فالتو لگے۔ جس طرح میں نے اپنے لیے ایک اصول بنا رکھا ہے کہ جو کپڑا یا جوتا زیادہ سے زیادہ دو ماہ تک موجودہ سیزن میں بغیر استعمال کے پڑا رہ جاتا ہے، اس کا مطلب ہے کہ وہ اس کے بعد بھی استعمال نہیں ہو گا سو اسے نکال کر کسی کو دے دیا جائے تا کہ جسے ضرورت ہے وہ استعمال کر لے۔ جتنے نئے جوڑے بنتے ہیں ، اتنے پرانے نکال باہر کرتی ہوں تا کہ بوجھ قابل برداشت رہے۔

کہاں سے شروع کیا جائے، باورچی خانے سے۔ الماریاں کھولیں، تین تین ساس پین، مگر ایک چائے کے لیے ہے اور ایک دودھ گرم کرنے کے لیے، ایک فالتو ہے کہ جب زیادہ مہمان ہوتے ہیں تو تین طرح کی چائے بنتی ہے۔ چلیں ان کو چھوڑیں ، تین فرائنگ پین، ایک فرائی انڈے والا، ایک آملیٹ والا اور ایک اس لیے کہ جب زیادہ مہمان ہوں تو کچھ نہ کچھ تلنا بھی ہوتا ہے۔

اسی طرح مختلف سائز کے دیگچے ہیں، کوئی دال بنانے والا، کوئی سبزی والا، کوئی چاولوں والا۔ اور ہاں یہ بڑے والا، یہ محرم میں کام آتا ہے یا پارٹیوں میں جب مہمانوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ سال میں ایک بار ، مگر چلو استعمال تو ہوتا ہے نا، کبھی کسی کو چاہیے ہوتا ہے اور کبھی کسی کو۔ پچھلے دنوں ہمسایوں نے منگوایا تھا کہ کوئی بڑا دیگچہ ہے تو دے دیں ، جو نہ ہوتا تو کتنی بے عزتی ہوتی کہ ان کے ہاں بڑا دیگچہ بھی نہیں ہے۔

چھریاں ٹوکے… ہر روز نہ سہی، بقر عید پر تو چاہیے ہوتے ہیں نا، کیا ہر سال نئے خریدیں اور انھیں پھینک دیں ، صرف اس لیے کہ سال بھر استعمال نہیں ہوتے ؟؟ گلاس اور پلیٹیں ، کچھ بھی تو فالتو نہیں ہے… ہاں بھئی سال میں دو تین بار تو ضرورت پڑ جاتی ہے؛ لو بھئی کیا اس دو تین بار کے لیے بندہ ڈسپوز ایبل گلاس اور پلیٹیں استعمال کرتا بھلا لگتا ہے؟ خود ہی سوالات اور جوابات کا سیشن کر رہی تھی۔ چھ درجن گلاس، چار درجن کے پلیٹوں کے سیٹ، ڈونگے اور ڈشیں، بھئی کیسے نکالیں ، اتنا بڑا خاندان ہے، کبھی کسی بہانے پارٹی اور کبھی کسی وجہ سے آنا جانا ۔ تین چار گھنٹے کی سر توڑ کوشش کے بعد نتیجہ نکلا کہ باورچی خانے سے فی الحال کچھ بھی نہیں نکالا جا سکتا ہے۔

اسٹور، ہمارے گھر سمیت، سب گھروں میں یہ عموماً وہ کمرہ ہوتا ہے جہاں فالتو سامان کے انبار لگے ہوتے ہیں ۔ سب سے پہلے سامنے بڑی سی میزپر رکھے، عمر عزیز کے پچاس برسوں کی یادوں کی سو کے لگ بھگ بڑی بڑی البمز… بچے بہت بار کہہ چکے ہیں کہ ان سب تصاویر کو ہم سی ڈی پر سکین کروا کر رکھ لیں اور جب جی چاہے یادوں کی پٹاری کھول کر بیٹھ جایا کریں۔

انھیں کیا معلوم ، یہ آج کل کے بچے، ہر وقت انسٹا گرام اور سنیپ چیٹ پر منہ کے زاویے بدل بدل کر تصاویر اپ لوڈ کرتے ہیں، کھانے کی، نئے فون کی، جوتوں کی، فلموں کی، گاڑیوں کی اور جانے کس الا بلا کی۔ انھوں نے کب کسی البم کو گود میں رکھا ہوگا؟ کسی پیارے کے ساتھ بیٹھ کر اس کا پہلا ورقہ کھولا ہو اوہ اپنی موجودہ زندگی سے نکل کر اس ٹائم مشین میں بیٹھ جانے کی کیفیت سے گزرے ہوں جو انھیں کتنے ہی برس پیچھے لے جاتی ہے، آپ اپنے بچے کی پہلی تصویر پر انگلی پھیرتے ہیں اور آپ کی انگلیوں کی پوریں آج بھی اس لمس کو محسوس کرتی ہیں جو آپ نے پہلی بار اپنے بچے کو چھو کر محسوس کیا ہوگا۔

بارشوں کے موسم کی تصویریں اب بھی منہ میں پکوڑوں کے ساتھ تازہ ہری چٹنی کا مزہ گھول دیتی ہے… اتنا کچھ ان البمز میں رکھا ہے، اس یادوں کے خزانے کو تو چھوا بھی نہیں جا سکتا ۔ اور یہ البمز کے ساتھ ڈبوں میں خطوط کے ڈھیر… بڑھاپے میں ( مزید بڑھاپے میں) انھیں پڑھا کریں گے اور لطف اٹھایا کریں گے، ابھی تو وقت ہی نہیں ہے۔ اور یہ عید کارڈز کے انبار، کیسی خوبصورت یادیں ہیں، عزیز و اقارب کو ملنے کا وقت تو نہیں ملتا، کم از کم ان کی یادوں کے خزینے تو موجود ہیں ۔ ہماری شادی کا کارڈ… میں نے ایک کارڈ اٹھا کر دیکھا، جانے کتنی ہی یادوں کے در کھل گئے۔ آج کے بچوں کے پاس ہے کیا جسے وہ بیس سال کے بعد کھول کر دیکھیں گے اور یادوں کے غار میں اترا کریں گے؟

وہ بڑی سی پیٹی، اسے کھول لو تو جیسے خزانے کی ایک پٹاری کھل جاتی ہے۔ بچوں کے بچپن کی چیزیں ،ان کی پرانی کاپیاں، جن پر وہ اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے کچھ لکھا کرتے تھے، ان کی اسکول کی سالانہ رپورٹیں، ان کے انعامی کپ اور سرٹیفکیٹ، ان کی بنائی ہوئی پہلی پہلی تصاویر اورپینٹنگ جو ماں باپ کو تو آرٹ کا نمونہ لگتی ہے۔ بچوں کے پہلے پہلے لباس جو انھوں نے پہنے تھے، کل کو ان کے بچے پہنیں گے… اپنے شادی کے ملبوسات، جو کل کو ہماری بیٹیاں اور بہوئیں پہنیں گی، انشاء اللہ!! وقت کیسے گزر جاتا ہے، لگتا ہی نہیں ہے کہ ہم ان سب چیزوں کو چالیس سال سے سینچ سینچ کر رکھ رہے ہیں ۔

چند گھنٹے لگا کر میں نے اسٹور میں رکھے سامان کا تفصیل سے جائزہ لیا اور اندازہ کیا کہ اس میں سے کچھ بھی ایسا نہیں جسے پھینکا یا نکالا جا سکے۔ اگلے پل کی خبر نہیں مگر میں نے ہر چیز کو جوں کا توں رہنے دیا، چند سال کے بعد پھر کھول کر دیکھنے کے لیے، پھر یادوں کے موتی رولنے کے لیے اور خود کو بتایا کہ یہ Minimalism  ٹائپ کی چیزیں ہمارے لیے نہیں ہیں۔

ہم جب بھی کوئی چیز یہ سوچ کر کسی کو دے دیتے ہیں یا پھینک دیتے ہیں ، اسی دن ہمیں کسی سبب اس چیز کی ضرورت پڑ جاتی ہے، خواہ وہ پانی کی خالی بوتل یا پھٹی ہوئی جراب ہی کیوں نہ ہو!! یہ سب کچھ ان ہی کو مبارک ہو جو اپنے گھر کے باہرکنٹینر میں سامان رکھ کر تجربہ کرسکتے ہیں ، کسی پرانی اور بے کار شے کو بھی بیچنا چاہیں تو وہ بک جاتی ہے۔ ہم تو نئی چیز بھی صرف اس لیے کسی کو دیں کہ ہمارے پاس ہماری ضرورت سے زائد ہے تو اسے بھی لوگ کاٹھ کباڑ ہی سمجھتے ہیں ۔ چلیں چھوڑیں ،جہاں اتنے سال تک رکھ لیا ہے، اب کون سا یہ چیزیں ہم سے روٹی مانگ رہی ہیں!! اسٹور کا دروازہ لاک کرتے ہوئے میں نے سوچا ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔