برائے فروخت

رئیس فاطمہ  اتوار 18 فروری 2018
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

کبھی بازار مصر میں غلام فروخت ہوا کرتے تھے، ان کا مالک قیمت وصول کرتا تھا اور غلام نئے مالک کے حوالے کردیتے تھے۔ مغلیہ دور میں خاندان غلامان کی بھی حکومت رہی ہے۔ افریقا میں بھی حبشی غلام فروخت کیے جاتے تھے۔ غلام کی اپنی کوئی مرضی نہیں ہوتی وہ اپنے حاکم کے حکم کے تابع ہوتا ہے۔ لیکن پاکستان میں غلاموں کی خرید وفروخت کا نرالا ہی نظام ہے۔

یہ غلام خود اپنے آپ کو فروخت  کے لیے پیش کرتے ہیں۔ البتہ قیمت کبھی یہ اپنی خود لگاتا ہے اورکبھی خریدار۔ اس عمل کو ’’ہارس ٹریڈنگ‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ آپ سمجھ گئے ہوںگے کہ میری مراد سینیٹ کے الیکشن سے ہے۔

ایک صحافی نے جل کر ’’ہارس ٹریڈنگ‘‘کی ترکیب کو بدل کر ’’ڈنکی ٹریڈنگ‘‘ کا نام دے دیا ہے۔ میں سمجھتی ہوں یہ گھوڑوں اور گدھوں دونوں کی توہین ہے، کیونکہ جہاں تک گھوڑے کا سوال ہے اس کی وفاداری پر انگلی نہیں اٹھائی جاسکتی۔ اب رہ گئے گدھے تو وہ بھی حلال کی روزی کھاتے ہیں۔ گدھا گاڑی گھسیٹتے ہیں، منزل تک سامان پہنچاتے ہیں تب جاکر کہیں گھاس اور چارہ کھانے کو ملتا ہے۔

الیکشن کا تماشا بار بار دہرایا جاتا ہے اور بار بار ووٹ کا تقدس پامال ہوتا ہے۔ جو شخص سینیٹ کا ٹکٹ حاصل کرنے کے کروڑوں روپے خرچ کرسکتا ہو وہ پاگل تو نہیں ہے؟ اسے معلوم ہے کہ دو ارب لگاکر وہ دوکھرب آسانی سے بنالے گا اور دس کروڑ کے تین ارب بنا لینا کوئی مشکل نہیں۔ ظاہر ہے گھاٹے کا سودا کوئی بھی نہیں کرے گا۔ اسی لیے یہ سوچنا بھی حماقت ہے کہ متوسط طبقے سے قیادت ابھرکر آئے گی اور پڑھے لکھے نوجوان جن کا تعلق درمیانی طبقے سے ہے وہ ملک کی قیادت سنبھال سکیں گے۔

اربوں اورکروڑوں جن کے پاس ہوںگے وہی پارٹی ٹکٹ خرید سکتا ہے اور الیکشن لڑسکتا ہے۔ اسی لیے قیادت کا بحران ہے کیونکہ جب کسی چیزکو دیمک لگ جاتی ہے تو وہ اندر ہی اندر لکڑی کوکھوکھلا کردیتی ہے۔ ہماری جان، ن لیگ اور زرداری گروپ سے نہیں چھوٹ سکتی۔ باری باری یہی لوگ آئیںگے ایک دوسرے کی مدت پوری کرائیںگے اور وہی نعرے لگائیںگے جو اب فرسودہ ہوچکے ہیں۔ پیپلزپارٹی اب چلا ہوا کارتوس ہے۔ بھٹو کی لاش کندھوں پہ اٹھاکر یہ کب تک جمہوریت کے گن گائیں گے۔

بینظیر بھٹو کا نام اور تصاویرکب تک ان کو ووٹ دلوائیں گی۔ ن لیگ کا تاثر صرف پنجاب کی جماعت کا ابھرتا ہے۔ افسوس کہ جاگ پنجابی جاگ، جاگ سندھی جاگ یا جاگ مہاجر جاگ کے بجائے جاگ پاکستانی جاگ کا نعرہ لگتا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ لسانی تعصب اور صوبائی عصبیت نے ن لیگ کو خاصا دھچکا پہنچایا ہے۔ ایک چیتھڑے جیسے کاغذ پہ لکھی ہوئی ’’وصیت‘‘ نے تاج سر پہ رکھ دیا۔ خود فرعون بن گئے، جس کو چاہا خریدلیا اور جس کو چاہا مروا دیا۔ میں ذاتی طور پر شہباز شریف کی بہت عزت کرتی ہوں۔ انھوں نے پنجاب کا وزیراعلیٰ ہونے کا حق ادا کردیا۔ ایسا نہیں ہے کہ پنجاب کے منصوبوں میں کمیشن نہیں کھایا گیا ہوگا۔

یہ برطانیہ یا امریکا تو ہے نہیں کہ قوم کی فلاح و بہبود کا پیسہ قوم کے فلاحی کاموں پر ہی لگایا جاتا۔ بے شک کمیشن کھایا ہوگا لیکن کام بھی ہوا اور نظر بھی آتا ہے۔ افسوس اس بات پر ہے کہ نواز شریف نے خود کو صرف پنجاب کا وزیراعظم ثابت کیا نہ کہ پورے ملک کا۔ مجھے کہنے دیجیے کہ اگر وہ جاتی امراء سے نکل کر سندھ، بلوچستان اور کے پی پر بھی نظر رکھتے، کراچی سے سوتیلا پن نہ برتتے تو انھیں یہاں سے بھی اپنے نمائندے منتخب کروانے میں کوئی دقت نہ ہوتی۔

تمام جماعتوں میں صرف ایم کیو ایم ہی ایسی جماعت تھی جس کی قیادت درمیانے طبقے سے ابھر کر آئی تھی، لیکن بعد میں اس کا جو حشر ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ پہلے ان کی مقبولیت کے خوف سے ’’حقیقی‘‘ بنوائی گئی پھر تقسیم در تقسیم کا فارمولا کہیں سے آیا اور جماعت تتر بتر ہوگئی۔ انگریزوں کی پالیسی ’’لڑاؤ اور حکومت کرو‘‘ کا فارمولا کا اطلاق سب سے زیادہ ایم کیو ایم پر ہوا۔ جرائم میں ملوث اور بھی سیاسی جماعتیں رہی ہیں اور رہیں گی لیکن نزلہ چونکہ عضو ضعیف پر گرتا ہے اس لیے پکڑ دھکڑ صرف ایم کیو ایم کی ہوئی۔

لینڈ مافیا نے پارکوں، فلاحی پلاٹوں اور زمینوں پہ قبضہ کرکے عمارتیں کھڑی کردیں۔ شادی ہال بنالیے لیکن جب تجاوزات گرانے کی مہم شروع ہوئی تو کارروائی صرف ایم کیو ایم کے خلاف۔ قرعہ فال مسلسل ایم کیو ایم کے نام نکل رہا ہے۔ اصل مسئلہ کراچی پر قبضے کا ہے لیکن قصور وار ایم کیو ایم خود ہے۔ آج تک سندھ میں دیہی اور شہری کا کوٹہ ختم نہیں کرایا جاسکا۔ جس پارٹی کا لیڈر سات سمندر پار بیٹھا ہو اس پارٹی کا یہی حشر ہونا چاہیے تھا۔ بھتہ خوری اور دیگر جرائم جو ایم کیو ایم کے کھاتے میں پڑے، اس تاثر کو ختم کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔

آپ کے پاس اقتدار تھا آپ خود کوکراچی کا وارث سمجھتے تھے لیکن آپ نے شہرکو غلاظت اور گندگی کا ڈھیر بنادیا۔ مصطفی کمال کو ایم کیو ایم سے پہلے کون جانتا تھا، کیا لوگ نہیں جانتے کہ اچانک ایک دن پیراشوٹ کے ذریعے ایک آدمی اترتا ہے اور اپنے قائد کے خلاف بیان بازی کرتا ہے۔ آخر انھیں کون گردن سے پکڑکر ٹیلی ویژن پہ لایا۔؟ یہ کوئی ایسا معمہ نہیں جو حل نہ ہوسکے۔ الطاف حسین کی بڑی غلطیاں ہیں جس کا خمیازہ خاص کر اردو بولنے والے بھگت رہے ہیں لیکن مصطفی کمال کو یہ طاقت کس کے طفیل ملی کہ وہ اپنی الگ پارٹی بنائیں۔

الیکشن سے پہلے جو لین دین ہوتا ہے اس میں سب کی فائلیں بنی ہوتی ہیں  ،خفیہ ایجنسیوں کے پاس سب محفوظ ہوتا ہے تاکہ بلیک میل کیا جائے۔ کراچی پر قبضے کا خواب اسی وقت پورا ہوگا جب ایم کیو ایم کو سیاست سے نکال دیا جائے۔ لڑنے والے رو بھی رہے ہیں اور پچھتا بھی رہے ہیں لیکن ان سب کی ڈور کسی اور کے ہاتھ میں ہے جو یہ چاہتے ہیں کہ ایم کیو ایم تقسیم ہوکر اپنا ووٹ بینک کھودے۔ تو عرض ہے کہ ووٹ بینک تو وہ پہلے ہی کھوچکی ہے۔ البتہ تحریک انصاف سے کچھ توقع تھی مگر عمران خان بھی ’’مہمان اداکار‘‘ ثابت ہوئے۔ پہلے اپنی شادی میں (بلکہ شادیوں) الجھے رہے لیکن کراچی والوں کا دل نہ جیت سکے۔ انھوں نے بھی متعصبانہ باتیں شروع کردیں۔

افسوس اس بات کا ہے کہ اتنے طویل عرصے میں ایم کیو ایم میں کوئی متبادل قیادت ابھر کر سامنے نہ آسکی۔ کسی بھی پارٹی میں الیکشن کا رواج نہیں، کہنے کو جمہوریت لیکن حقیقت میں آمریت۔ خواہ نواز لیگ ہو، پی پی پی ہو، ایم کیو ایم ہو، ق لیگ ہو یا کوئی دوسری جماعت، کسی میں الیکشن کا رواج نہیں۔ کم از کم ایم کیو ایم کو درمیانے طبقے سے قیادت کو لانا چاہیے تھا۔

اگر ایسا ہوتا تو آج یہ جماعت یوں نہ بکھرتی۔ تمام جماعتیں شخصیت پرستی کے حصار میں ہیں، ن لیگ میں تو پھر بھی متبادل قیادت شہباز شریف کی صورت میں موجود ہے لیکن باقی جماعتوں میں اس کا فقدان ہے۔ مجھے لوگوں پر حیرت ہوتی ہی جو امید لگائے بیٹھے ہوتے ہیں کہ اب کوئی معجزہ رونما ہوگا اور اب کوئی مسیحا آئے گا اور حالات بدل دے گا۔ کچھ بھی نہیں ہونے والا جب تک الیکشن کمیشن کوئی ایسا قانون نہیں بناتا کہ کسی بھی حلقے میں الیکشن کے لیے کوئی رقم مخصوص کردی جائے۔ مثلاً ایک طبقے میں کوئی امیدوار 20یا 25 لاکھ سے زیادہ خرچ نہیں کرسکتا، تب شاید سسٹم بدل جائے لیکن اس کی امید کم ہے۔

ایسا ہو بھی گیا تو بظاہر اس قانون کی پابندی کرلی جائے گی لیکن اندر ہی اندر لین دین یعنی غلاموں کی خرید و فروخت شروع ہوجائے گی۔ نہ بکنے والا بتائے گا کہ کتنے کی بولی لگی نہ خریدار ظاہر کرے گا کہ ’’غلام ابن غلام‘‘ کتنے میں خریدا گیا۔

اس ملک میں نام نہاد جمہوریت بد ترین آمریت ہے۔ سارا گیم شخصیات کے گرد گھومتا ہے۔ عوام بھی جب یاد آتے ہیں جب ہاتھ اٹھوانے ہوتے ہیں ورنہ تو میلوں دور سڑکیں بند ہوجاتی ہیں، جان کا اتنا خطرہ ہوتا ہے کہ بغیر سیکیورٹی کی لمبی لمبی گاڑیوں کے باہر نکلنا ممکن نہیں اور جونہی اقتدار سے الگ ہوئے یا الیکشن کا موسم آیا تو فوراً جلسے جلوس شروع۔ بار بار بے وقوف بننے سے بہتر ہے کہ چیف جسٹس فیصلہ کردیں کہ الیکشن میں صرف تین جماعتیں حصہ لے سکتی ہیں۔

آزاد امیدوار کا خانہ ختم کردینا چاہیے کیونکہ سب سے زیادہ مہنگے داموں یہی لوگ بکتے ہیں۔ یہ اپنی بولی کا انتظار کرتے ہیں اور جہاں فائدہ دیکھتے ہیں چل پڑتے ہیں۔ ہمارا سابقہ آئندہ بھی ان ہی لٹیروں اور ڈاکوؤں سے پڑنے والا ہے۔ بولیاں ابھی سے لگنے لگی ہیں۔ غلام بکنے کو تیار ہیں ۔ وہی اندھیر نگری اور وہی چوپٹ راج پاکستانیوں کا مقدر ہے۔ جب خدا کے بجائے پیسے کی عبادت ہونے لگے تو خیرکی تمنا رکھنا عبث ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔