کہتے ہیں کہ غالبؔ کا ہے انداز بیاں اور

امجد اسلام امجد  اتوار 18 فروری 2018
Amjadislam@gmail.com

[email protected]

1707ء میں جس وقت اورنگ زیب عالمگیر کی وفات ہوئی تو مغلوں کی حکومت ناقابل تسخیر معلوم ہوتی تھی مگر غالبؔ کی پیدائش (1797ء) تک کے نوے برسوں کے دوران اس کا اور بالخصوص دارالحکومت دلی کا جو حال ہوا اس کی تصویر اس دور کے تین بڑے شاعروں میرؔ، سوداؔؔ اور دردؔ کے ہاں بالترتیب کچھ اس طرح سے دیکھی جا سکتی ہے۔

جن بلاؤں کو میرؔ سنتے تھے
ان کو اس روزگار میں دیکھا

ناقدر شناسی سے خلائق کی جہاں میں
جس کو ہنر آیا اسے انکار ہنر ہے

جو خرابی کہ دردؔ یاں پھیلی
دست قدرت سے کب سمٹتی ہے!

ایسے میں ایک بے نام اور پیشہ ور ترک سپاہی کا بچہ جس نے یتیمی اور غربت میں آنکھ کھولی نہ ڈھنگ کی درسی تعلیم پائی اور نہ ہی روزی کمانے والا کوئی ہنر سیکھا۔ چھوٹی عمر میں شادی کے بعد اپنے مربی اور چچا کی وراثت اور پنشن کے ایک محدود اور متنازعہ حصے اور اسی طرح کے ایک سسرالی وظیفے اور نام نہاد نواب زادگی کے بے فیض احساس تکبر میں الجھ کر زندگی کرتا رہا کیسے اس قابل ہوا کہ ایسے عظیم، گہرے، تخلیقی، فلسفیانہ اور مستقبل گیر اشعار کہہ سکے۔ جنھوں نے آج اس کی وفات کے ڈیڑھ سو برس بعد بھی نہ صرف اسے زندہ رکھا ہوا ہے بلکہ جن کے تحیّر میں خامہ انگشت بدنداں اور ناطقہ سربہ گریباں ہے کہ کیا لکھے اور کیا کہے؟

ہے کہاں تمنا دوسرا قدم یا رب
ہم نے دشت امکاں کو ایک نقشِ پا پایا

گل غنچگی میں غرقہ‘ دریائے رنگ ہے
اے آگہی فریب تماشا کہاں نہیں

لطافت، بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی
چمن زنگار ہے آئینۂ باد بہاری کا

بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے

بندگی میں بھی وہ آزاد و خود بیں ہیں کہ ہم
الٹے پھر آئے در کعبہ اگر وا نہ ہوا

ہر قدم دوری منزل ہے نمایاں مجھ سے
میری رفتار سے بھاگے ہے بیاباں مجھ سے

ہے آدمی بجائے خود اک محشر خیال
ہم انجمن سمجھتے ہیں خلوت ہی کیوں نہ ہو

رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
ہو رہے گا کچھ نہ کچھ، گھبرائیں کیا!

وہ آنکھ جو سراب میں سفینے کو رواں دیکھ سکتی تھی، وہ کان، جو گردش سیارہ کی آواز پہچان سکتے تھے اور وہ دماغ جو عرش سے پرے کسی مکان کا تصور کرسکتا تھا کس قاعدے کے لیے اور قانون کے تحت ظہور میں آئے۔ یہ بات آج بھی کسی مروجہ طریقے سے سمجھ میں نہیں آتی۔  ایک ایسا شخص جو بلند آواز میں یہ کہہ سکتا ہو کہ

ہوتا ہے پنہاں گرد میں صحرا مرے ہوتے
گھستا ہے جبیں خاک پہ دریا مرے آگے

ہنگامۂ زبونیٔ، ہمت ہے انفعال
حاصل نہ کیجیے دہر سے عبرت ہی کیوں نہ ہو

اور جس کو ساری عمر یہ احساس بھی ستاتا ہے کہ
جو چاہیے نہیں وہ مری قدر و منزلت

میں یوسف بقیمت اول خریدہ ہوں
اپنے پہ کر رہا ہوں قیاس اہل دہر کا

سمجھا ہوں دل پذیر متاع ہنر کو میں

اور جس کی نثر میں وہ روانی اور طاقت ہو کہ وہ دو زمانوں اور دو زبانوں کے درمیان ایسا پل بن جائے کہ جو ان کے نیچے سے گزرنے والے دریا کی صورت ہی بدل دے اور جو بیک وقت ہونے اور نہ ہونے کی کشتیوں میں یہ کہہ کر سفر کر سکتا ہو کہ

فسردگی میں ہے فریاد بے دلاں تجھ سے
چراغ صبح، گل موسم خزاں‘ تجھ سے

ہاں کھائیو مت فریب ہستی
ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے

اس کی شخصیت میں یہ سب عناصر ترکیبی کیسے جمع ہوئے کہ صرف شعر و ادب ہی نہیں بلکہ فنون لطیفہ کے شعبے کے نمائندہ ترین لوگ اسے سلام عقیدت پیش کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ پورے عالمی ادب کی تاریخ میں کتنے لوگ ہیں جن کی زندگی اور کام کو کتابوں کے علاوہ کسی اور شکل میں بھی اس طرح سے تسلیم اور محفوظ کیا گیا ہو کہ اس پر فلمیں بنیں، ڈرامہ سیریل تیار ہوں، مصور جس کے رپورٹریٹوں کے ساتھ اس کے شعروں کی بھی تصویر کاری کریں، ہر بڑا گانے والا جس کے کلام کو گانا اپنے لیے باعث افتخار سمجھے اور جن کے ناموں پر یونیورسٹیوں میں چیرز قائم کی گئی ہوں اور جن کی تحریروں کا ترجمہ اس قدر زبانوں میں کیا گیا ہو اردو شعر و ادب کی حد تک تو سب سے پہلے بلاشبہ غالبؔ کا نام ہی ذہن میں آتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل ’’نذر غالبؔ، ایک درد آشوب، کے عنوان سے کچھ شعر ہوئے تھے۔ اس ایک سو انچاسویں برسی پر اس نظم کا ایک حصہ بطور سلام عقیدت۔

جی میں ہے پوچھیے یہ مرشد سے
کیا تماشا ہے وقت کے اس پار؟

آپ کی آگہی کے آگے تو
کھیل بچوں کا ہے یہ سب سنسار

مرشدی آپ کی قلمرو میں
رک سا جاتا ہے روز و شب کا فشار

اپنے اس گیان کے سمندر سے
کچھ عطا ہم کو کیجیے سرکار

سخت مشکل میں جان ہے مرشد
موت آساں ہے، زندگی دشوار

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔