معصوم زینب کے قاتل کو سزائے موت کا حکم

ایڈیٹوریل  پير 19 فروری 2018
مجرم نے پہلی پیشی میں ہی عدالت میں زینب سمیت دیگر بچیوں پر کے ساتھ زیادتی اور ان کے قتل کا اعتراف کیا۔ فوٹو : فائل

مجرم نے پہلی پیشی میں ہی عدالت میں زینب سمیت دیگر بچیوں پر کے ساتھ زیادتی اور ان کے قتل کا اعتراف کیا۔ فوٹو : فائل

انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے گزشتہ روز معصوم بچی زینب کے قاتل عمران علی کو 4 مرتبہ سزائے موت،32 سال قید اور41 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنادی،جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں 2سال اور 3 ماہ مزید سزا بھگتنا ہوگی، مجرم کو 15 روز کے اندر سزا کے خلاف لاہور ہائیکورٹ میں اپیل کا حق حاصل ہے، ننھی زینب کے لواحقین، وکلاء اور ملک کے تمام طبقات نے اس فیصلے پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔

اس مقدمے کا اہم پہلو یہ ہے کہ اس میں نظام انصاف کو نئی جہت ملی ہے جس کے نتیجے میں اب پاکستان میں سائنسی شواہد پر بھی سزائے موت سنائی جاسکتی ہے، پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ سائنٹیفک تحقیق کی بنیاد پر مجرم کو سزا دی جارہی ہے اور پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہوگئے ہیں جہاں سائنسی بنیادوں پر حاصل ہونے والے شواہد پر سزا دی جاسکتی ہے۔

مجرم نے پہلی پیشی میں ہی عدالت میں زینب سمیت دیگر بچیوں پر کے ساتھ زیادتی اور ان کے قتل کا اعتراف کیا اور تمام تفصیلات بتائیں، اس کے باوجود عدالت نے اسے شفاف ٹرائل کا حق دیتے ہوئے سوچنے سمجھنے کے لیے40 منٹ دیے، اقبال جرم کے باوجود تمام ثبوت اور شواہد جمع کرکے عدالت میں پیش کیے گئے تاکہ دنیا کو پیغام جائے کہ مکمل شفاف ٹرائل ہوا۔

پراسیکیوٹر جنرل نے بتایا کہ اس سیریل قاتل نے 9 بچیوں کے ساتھ زیادتی کا اعتراف کیا جن میں سے 2 زندہ ہیں لیکن 7 مرچکی ہیں، ابھی صرف زینب کیس کا ٹرائل ہوا ہے، باقی مقدمات کے ٹرائلز،گواہ اور شواہد سب الگ ہیں جن کی کارروائی ابھی چلے گی، ایک دو دن میں مزید دو مقدمات اور 10 سے 15 دن میں تمام کیسز کا فیصلہ آجائیگا، 15 دن میں سزا کے خلاف اپیل کا حق حاصل ہے۔

ننھی زینب کے بہیمانہ قتل نے پوری قوم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا‘ اس کیس کا فیصلہ مناسب وقت میں سنا دیا گیا ہے‘ جس کی وجہ سے عوام میں اطمینان محسوس ہوا ہے‘ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ دیگر  مقدمات کی قانونی کارروائی بھی جلد مکمل کی جائے تاکہ مجرم عمران علی اپنا قانونی سفر مکمل کر کے حتمی سزا کے عمل تک پہنچ سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔