عاصمہ جہانگیر اور زمین کا نمک

اقبال خورشید  پير 19 فروری 2018

’’کیا تمھیں چی یاد ہے؟ وہ، جس کی بابت عظیم گیبرئیل گارشیا مارکیز نے کہا تھا،’’میں اس کے بارے میں ہزار برس تک لاکھوں صفحات لکھ سکتا ہوں۔‘‘

کیا تمھیں چی گویرا یاد ہے؟ جسے سارتر نے اپنے عہدکا مکمل ترین انسان قرار دیا تھا۔ چی گویرا ، جس کا سنہری قول ہے،’’انقلاب وہ پھل نہیں، جو پک کر تمھاری گود میں آن گرے، تمھیں اسے خود ہی توڑنا ہوگا‘‘ وہ اساطیری سورما، جو کہتا تھا’’ تم اس وقت تک کسی شے کو مقصد زیست نہیں بناسکتے، جب تک تم اس کے لیے مرنے کو تیار نہ ہو۔‘‘

وہ نظریہ، جسے آپ درست سمجھتے ہیں، جس پر آپ یقین رکھتے ہیں، اس کے لیے ہر پل، مسلسل لڑتے رہنا، لڑتے لڑتے لڑکھڑانا، گر جانا، مگر پھر اٹھ کرلڑنے لگنا۔۔۔ فقط یہی وہ عمل ہے، جو زندگی کو بامعنی بناتا ہے۔

عاصمہ جہانگیر نے ایک بامعنی زندگی گزاری اور باوقار انداز میں جہان فانی سے کوچ کیا۔ اب وہ چلی گئی ہے، تو یہی مناسب ہے کہ اُن کے کارنامے گنے جائیں، نظریات پر بحث کی جائے، جنازے پر تبصرے کیے جائیں یا پھر اسے خراج تحسین پیش کرکے دل ہلکا کر لیا جائے، کیونکہ یہ سہل ہے۔ البتہ اس کے نقوش پاکا تعاقب کرنا دشوار ہے ۔ اس کے لیے سورماؤں کا جگر چاہیے،پہاڑ سا اعتماد ، اوروہ قد ، جس کے سامنے قدآور بھی پستہ قد معلوم ہونے لگے۔

ہاں، عاصمہ جہانگیر سے متعلق دفترکے دفتر سیاہ کیے جاسکتے ہیں، مگر اس سا بننا دشوار ہے۔وہ الفاظ، جن کی ادائیگی کرتے ہوئے آواز گم ہوجائے، وہ موضوعات، جہاں پہنچتے ہی حلق چٹخ جائے،ان پر عاصمہ جہانگیر کو جس سہولت اور اعتماد سے گفتگو کرتے سنا،اس کی جھلک بہت کم لوگوں میں دکھائی دی۔اپنے طبقے کے دیگر صحافیوں کے مانند نہ تو میں سماج سدھارک ہوں، نہ ہی پسے ہوئے طبقے کی آواز۔ بس، ایک قلم مزدور ہوں، خبروں کے بے انت ریلے میں، کی بورڈ پر انگلیاں نچانا، خبر بنانا، اسے من چاہا اینگل دینا میرا پیشہ ہے، یافت کا ذریعہ ہے اور ان ہی خبروں کے شور میں ایک ایسی خبر آتی ہے کہ انگلیاں کچھ دیر احتراماً ٹھہر جاتی ہیں اور دل میں اُس عقیدت ومحبت کے ہمکنے کا احساس ہوتا ہے، جس کی موجودگی سے میں اب تک لاعلم تھا۔(ایسا ہی احساس 27 دسمبر کو محترمہ کی شہادت والے روز ہوا تھا، جب آس پاس گولیاں رقص کرتی تھیں۔)

آدمی چلا جائے گا، اور بھلا دیا جاتا ہے، بہ شرطے اُس نے اس شے کو مقصد زیست بنالیا ہو، جس کے لیے وہ موت کو گلے لگانے کو تیار ہو۔صحافیوں کے انبوہ میں ایک آدمی منہاج برنا تھا، سیاست دانوں میںایک معراج محمد خاں تھا،ادھر شاعروں میں فیض، جس کا میں عاشق ہوں۔ پھر ایدھی ، ڈاکٹر رتھ فاؤ ، ادیب رضوی جیسے لوگ۔ اجلے لوگ، روشن لوگ۔ والٹیر کے لازوال ناول کاندید میں مرکزی کردار کہتا ہے’’ ہمیں بلاچوں و چرا کام میں مصروف رہنا چاہیے، یہی حالات کو قابل برداشت بنانے کا طریقہ ہے۔‘‘

فیض، ایدھی، ڈاکٹر رتھ فاؤ، منہاج برنا، معراج محمد خاں اور ڈاکٹر رضوی، یہ سب کٹھن، کڑے، تلخ حالات کے باوجود بلاو چوں وچرا کام میں مصروف رہے، یہی حالات کو قابل برداشت بنانے کا طریقہ تھا ۔ یہی طریقہ عاصمہ جہانگیرکا تھا اور ہر اس شخص کا ہوتا ہے، جس کا تعلق اس نایاب نسل سے ہو، جوتاریکی میں روشن چراغ ٹھہرے۔ جو ہزاروں میں ممتازہوتا : جو رکے تو کوہ گراں تھے ہم، جو چلے تو جاں سے گزر گئے!

ولیوں سے، انقلابیوں سے،حق کے متلاشیوں سے محبت رکھنے والے کبھی کم نہیں ہوتے، ان کی تو کثرت رہی ہے صاحب، کیوں کہ محبت رکھنا آسان ہے، مگر سچ کے ان کھوجیوں کی پیروی کرنا مشکل، ان کے افکار پر عمل کرنا دشوار۔ نہ تو ایدھی کے بعد کوئی ایدھی پیدا ہوا، نہ ہی ڈاکٹر رتھ فاؤ کے بعد کوئی رتھ فاؤ آئے گی۔ یہ زمین کا نمک ہیں۔ نمک، جو اگرچہ مقدار میں تھوڑا ہوتا ہے، لیکن اگر نہ رہے، تو ذایقہ جاتا رہے اور سماج پھیکا اور بے رنگ ہو جائے۔ایک سمت جہاں ظلم کا بازار گرم ہو، جہل کاروبار بن جائے، علم طوق ندامت ٹھہرے، ناانصافی کا ڈنکا بجے، ایسے میں سچے ستھرے لوگوں کی موجودگی، ان کا دلیری کے ساتھ ہجوم سے ہٹ کر چلنا۔۔۔یہی وہ اقدامات ہیں، جو زمین کا توازن قائم رکھتے ہیں۔

یہ ستھرے لوگ اپنے کردار و افکار میں اتنے وزنی ہوتے ہیں کہ کھوکھلے انسانوں میں ان کی موجودگی سے خیر کا کچھ امکان نکل آتا ہے۔المیہ یہ ہے کہ پاکستانی معاشرہ ان سچے ستھرے لوگوں کو ایک ایک کرکے کھو رہا ہے۔ یہ ہم سے روٹھ رہے ہیں۔ اب زمین پر نمک کی مقدار تھوڑی رہ گئی ہے۔ اور جو ہمارا کردار ہے،رفتار ہے، افکار ہیں، انھیں دیکھتے ہوئے یوں لکھتا ہے کہ جلد یا بدیر ہم خود کو ایک بے ذایقہ معاشرے میں پائیں گے یا شاید ہم اسی معاشرے میں موجود ہیں۔

راقم الحروف کی قنوطیت اپنی جگہ، مگر یہ واضح سچائی ہے کہ ہم ایک منجمد معاشرے میں زندہ ہیں، جہاں جمود کی پرستش کی جاتی ہے۔ گزشتہ پانچ عشروں میں (سوائے ڈاکٹر عبدالسلام جیسی چند مثالوں کے) ہم نے علمی و تحقیقی شعبے میں کیا کردار ادا کیا؟فن و ثقافت کے میدان میں کیا کارہائے نمایاں انجام دیے؟دنیا کو بہتر بنانے کے لیے کیا اقدامات کیے؟اپنی نئی نسل کے لیے کیا ورثہ چھوڑا؟کیا ہم زمین کا نمک ثابت ہوئے، یا زمین کے لیے بوجھ ٹھہرے؟

ان سوالوں کا جواب آسان، مگر تلخ ہے ۔ اتنا تلخ کہ ان پر غورسے اجتناب برتنا قومی عادت بن چکی ہے۔ وقت پر لگا کر اڑ رہا ہے۔ دنیا سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں آواز کی رفتار سے جست لگا رہی ہے، دوسرے سیارے کھوجے جارہے ہیں، زندگی کے رازوں سے پردہ اٹھایا جارہا ہے، اور ہم اسلامسٹ اور لبرل کی بحث میں الجھے ہیں، جنازوں پر تبصرے کر رہے ہیں، صحافی بن جانے والے ڈاکٹروں کے ہاتھوں یرغمال بنے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمارے سروں پر آہنی خول چڑھا دیے گئے ۔ ہمارے دماغ ادھورے رہ گئے ، اور ہم ایک ایسے کمرے میں قید ہیں، جس کی کھڑکی مغرب میں کھلتی ہے، ڈوبتا سورج ہمارا مقدر ہے، ہم نے کبھی سورج کو طلوع ہوتے نہیں دیکھا۔

فیڈل کاسترو کی پالیسیوں سے مایوس ہوکر کانگو کا رخ کرنے والا چے گویرا اکتوبر 1967 میں بولیویا میں تھا ، جب اسے سی آئی اے کی مدد سے گرفتارکیا گیا، اور بولیوین صدر کی ہدایت پر، جس پر اُس 39 سالہ شخص کی ہیبت طاری تھی، فوراً ہی قتل کردیا گیا۔

تو کیا وہ مرگیا ؟وہ جس نے جلاد کو دیکھ کر کہا تھا ’’گولی چلاؤ بزدل، تم فقط ایک انسان کومار کرسکتے ہو۔‘‘

سارتر کے لیے وہ عہد کا مکمل ترین انسان تھا اور مارکیز اس کی بابت ہزاروں سال تک لاکھوں صفحات لکھ سکتا ہے، اور میرے لیے، وہ زمین کا نمک تھا اور زمین کا نمک جاتا رہے، تو وہ بے وقعت ہوجاتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔