افغان مہاجرین پاکستان کے نہیں، امریکا کے مہمان ہیں

زمرد نقوی  پير 19 فروری 2018
www.facebook.com/shah Naqvi

www.facebook.com/shah Naqvi

حال ہی میں افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ڈیفنس کانفرنس ہوئی جس میں بری فوج کے سربراہ قمرجاوید باجوہ نے کہا کہ خطے مشترکہ کاوشوں سے ترقی کرتے ہیں انفرادی طور پر نہیں۔ انھوں نے افغانستان کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ علاقائی امن کا اور استحکام کا راستہ افغانستان سے ہوکر گزرتا ہے۔

انھوں نے پھر اس بات کو دہرایا کہ پاکستانی سرزمین پر ہم نے دہشتگردوں کے تمام ٹھکانے ختم کردیے ہیں۔ انھوں نے ماضی کی طرح اس بات کا بھی یقین دلایا کہ پاکستانی سرزمین افغانستان سمیت کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔ پاک فوج کے سربراہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ دہشتگرد 27 لاکھ افغان مہاجرین کی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ دہشتگرد پاک افغان سرحد پر مؤثر سیکیورٹی کی عدم موجودگی کا فائدہ بھی اٹھاتے ہیں لیکن جاری آپریشن ردالفساد کے ذریعے ان کا سراغ لگایا جارہا اور انھیں نشانہ بھی بنایا جارہا ہے۔

آرمی چیف نے کہا کہ افغان مہاجرین کی آڑ میں دہشتگردی کرنے والوں کی نشاندہی بھی کی جارہی ہے۔ اس کے لیے مشترکہ کاوشیں ہی تمام چیلنجز کا جواب ہیں۔ جس کے لیے پاکستان اپنے حصے کا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔

جہاں تک افغان مہاجرین کا تعلق ہے کچھ عرصے پہلے پاکستانی وزیر خارجہ خواجہ آصف نے امریکا سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ مہاجرین کی اس کثیر تعداد کو واپس افغانستان لے جائے۔ چنانچہ پاکستانی وزیر خارجہ کے اس بیان کے بعد پاکستانی عوام کو پہلی مرتبہ پتہ چلا کہ یہ ہمارے نہیں بلکہ امریکا کے مہمان ہیں جو امریکی زور زبردستی سے ہماری سرزمین پر نہ صرف بیٹھے ہوئے ہیں بلکہ ان میں سے بہت سے پاکستانی شناختی کارڈ، پاسپورٹ حاصل کرکے یہاں کے شہری بھی بن چکے ہیں۔

ان افغان مہاجرین کی موجودگی پاکستانی سماج میں بہت سی خرابیوں کا باعث بن چکی ہے۔ ان افغان باشندوں کی اکثریت منشیات، غیر قانونی اسلحہ، جرائم پیشہ سرگرمیوں میں ملوث ہے۔ شروع شروع میں یہ یہاں آئے تو دب کر رہتے تھے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ مقامی آبادی ان سے دہشت زدہ ہے۔ مجھے پورے ملک خاص طور پر خیرپختونخوا، اٹک اور کراچی سے ٹیلیفون آتے رہتے ہیں کہ ارباب اختیار کی توجہ اس مسئلے پر دلائی جائے۔ مقامی چھوٹے بڑے کاروبار پر ان کی اجارہ داری ہے، ان کی وجہ سے مقامی آبادی کے لیے روزگار کے مواقع محدود ہوگئے ہیں۔ ان کی مذہبی سرگرمیاں اور مراکز دہشتگردوں کے اڈے ہیں۔

یہ مراکز جو ماضی میں کچے اور نیم پختہ تھے اب اے سی سے مزین عالی شان بلڈنگوں میں تبدیل ہوگئے ہیں۔ جہاں کھانے کو بمشکل روکھی سوکھی تھی اب مرغن کھانے میسر ہیں۔ یہ دہشتگرد اپنی مذہبی وضع قطع کے باعث عام آبادی میں گھل مل جاتے ہیں جن پر شک بھی نہیں کیا جاسکتا۔ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ یہ امریکی مہمان ایک طویل عرصے سے پاکستانی سرزمین پر کیوں موجود ہیں۔ اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ پاکستان میں افغان مہاجرین کی موجودگی سے امریکا کا کیا مفاد وابستہ ہے۔

اگر امریکا کو ان سے اتنی ہی محبت ہے تو وہ انھیں امریکا لے جائے جب کہ صورتحال یہ ہے کہ ان مہاجرین کی موجودگی سے پاکستانی سالمیت عدم استحکام اور سماج ابتری کا شکار ہے۔ افغان مہاجرین کے علاقے دہشتگردوں اور جرائم پیشہ افراد کی پناہ گاہیں ہیں، جہاں وہ واردات کرنے کے بعد چھپ جاتے ہیں۔ امریکا کے بعد ان مہاجرین کے سب سے بڑے بہی خواہ مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی ہیں۔ ان مہاجرین سے ان کے سیاسی مفادات وابستہ ہیں کیوں کہ ان میں بہت سے لوگ پاکستانی شناختی کارڈ حاصل کرکے ووٹر بن گئے ہیں۔

آرمی چیف نے خطے کے حوالے سے جو بات کی اس میں سینٹرل ایشیا کی پانچ ریاستیں اور دو ریاستیں پاکستان اور افغانستان ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان ریاستوں کے نام کے آخر میں ’’تان‘‘ آتا ہے جیسے قازقستان، کرغستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان جب کہ پاکستان افغانستان کے ساتھ بھی یہ ہے۔ سینٹرل ایشیا کی یہ تمام ریاستیں مسلمان ہیں اور ان میں تیل گیس سمیت بے پناہ قیمتی قدرتی وسائل پائے جاتے ہیں۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد یہ ریاستیں وجود میں آئیں۔

افغانستان کی موجودہ صورتحال کا براہ راست تعلق سینٹرل ایشیا کے قدرتی وسائل سے ہے۔ یہ  نایاب قدرتی وسائل ہی ہیں جن کے لیے امریکا افغانستان میں بیٹھا ہوا ہے اور بے پناہ ہزاروں ارب ڈالر کے نقصانات کے باوجود وہاں سے نکلنے کے لیے تیار نہیں۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کی جہاں اور دوسری وجوہات تھیں وہاں ایک بڑی وجہ سینٹرل ایشیا کا خطہ بھی تھا۔ امریکا سینٹرل ایشیا میں اپنا اثرو رسوخ مسلسل بڑھا رہا ہے۔ کیوں کہ مستقبل میں ایجاد ہونے والی اشیا کا نایاب خام مواد کثیر مقدار میں ان ریاستوں میں پایا جاتا ہے چاہے یہ جنگی ہوں یا خلائی یا عام استعمال کی۔

سینٹرل ایشیا کو کنٹرول کرنے کے لیے امریکا پاکستان اور افغانستان میں پہلے ہی سے موجود ہے۔پاکستان مسلسل امریکی دباؤ میں ہے جو بڑھتا ہی جارہا ہے۔ تازہ ترین امریکی دباؤ یہ ہے کہ امریکا نے پاکستان کو گلوبل ٹیررسٹ فنانسنگ واچ لسٹ میں ڈالنے کے لیے تحریک جمع کرادی ہے جس کا اجلاس پیرس میں رواں ہفتے میں طے ہے جہاں پاکستان کے خلاف تحریک کو منظور کیا جاسکتا ہے۔

ادھر امریکی نیشنل انٹیلی جنس ڈائریکٹر نے کہا ہے کہ پاکستان دہشتگردوں کے ساتھ اب بھی مبینہ طور پر نرمی سے پیش آرہا ہے جب کہ امریکا کے ساتھ انسداد دہشتگردی تعاون بھی جاری ہے۔ پاکستانی مشیر خزانہ نے کہا کہ امریکا پاکستان کو دہشتگردوں کے معاون ممالک کی عالمی واچ شامل کروانے کے لیے متحرک ہوگیا ہے۔ امریکا اور برطانیہ نے کئی ہفتوں قبل اسی تحریک کو پیش کیا اور بعد میں فرانس اور جرمنی سے بھی اس تحریک کو سپانسر کرنے کے لیے کہا۔

اس حوالے سے پاکستانی حکام اور مغربی سفارت کاروں کا کہنا ہے فنانشل واچ لسٹ میں شامل ہونا پاکستان کی معیشت کے لیے دھچکا ثابت ہوگا جس کے بعد غیر ملکی سرمایہ کاروں اور کمپنیوں کے ساتھ  پاکستان کے لیے بزنس کرنا مشکل ہو جائے گا۔ خبررساں ایجنسی رائٹرز سے گفتگو میں پاکستان میں انسداد دہشتگردی ڈی پارٹمنٹ کے سابق سربراہ خواجہ خالد فاروق کہا کہ اگر آپ کو ٹیرر واچ لسٹ میں ڈال دیا جائے تو آپ کو اضافی سکروٹنی سے گزرنا ہوگا اور یہ اقدام معیشت کو بہت بری طرح متاثر کرسکتا ہے۔ پاکستانی معیشت پہلے ہی شدید دباؤ میں ہے اگر ایسا ہوجاتا ہے تو یہ انتہائی تشویش ناک صورتحال ہوگی۔

اور اتفاق کی بات ہے کہ سرحدوں پر بھارتی دباؤ یا امریکی دباؤ ان سب کا فائدہ نواز شریف کو ہو رہا ہے۔

سیل فون:۔ 0346-4527997

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔