مثالی جرأت و استقامت کی علامت 'عاصمہ'

کلدیپ نئیر  پير 19 فروری 2018

عاصمہ جہانگیر جو گزشتہ ہفتے دنیا چھوڑ گئیں وہ حقوق انسانی کی بہت مقبول اور بہت فعال کارکن اور سماجی مسائل پر عدالتوں میں وکالت کرنے والی ایڈووکیٹ تھیں۔ اگرچہ ان کا نام پاکستان تک محدود تھا مگر ان کی مثال کی پورے برصغیر میں پیروی کی جاتی تھی۔ جس مقام پر انھوں نے حقوق انسانی کمیشن بنانے کا اعلان کیا وہی مقام پاک بھارت تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے ہونے والی میٹنگز کا مرکز بن گیا۔

عاصمہ بھارت اور پاکستان کی خواتین وحضرات کو لے کر اس گھر میں آیا کرتی تھیں جو بھارتی حکومت نے مجھے رکن پارلیمنٹ ہونے کی حیثیت سے الاٹ کیا تھا۔ میں دیکھتا تھا کہ عاصمہ معاشرے پر مذہبی اثرات کو کم کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ ان کے نزدیک برصغیر میں مسائل کی اصل وجہ سیاست میں مذہب کی بے جا دخل اندازی تھی۔

صرف چند دن قبل اس نے مجھے لاہور سے ٹیلی فون کیا اور بتایا کہ اب وہ پاک بھارت تعلقات کو بہتر بنانے میں زیادہ وقت دے سکیں گی کیونکہ انھوں نے اپنی بیٹی کی شادی کر دی ہے۔ عاصمہ کا اپنی طویل جدوجہد کے بارے میں بتانے کا یہ منفرد انداز تھا۔ وہ سیکولر معاشرے پر مذہبی اثرات کے حق میں نہیں تھیں۔

عاصمہ کی تمنا تھی کہ پاکستان اور بھارت ایک پیج پر آ جائیں جب کہ دونوں میں میں دوری کی خلیج بہت واضح تھی۔ عاصمہ پاکستان اور بھارت پر واضح کرنا چاہتی تھیں کہ دونوں ملکوں کے تعلقات معمول پر لانے کے لیے مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کے سوا اور کوئی حل نہیں۔ عاصمہ کا اصرار تھا کہ دونوں ملکوں کو اپنے اختلافات دفن کر دینا چاہیں، لیکن بھارت نے اعلان کر رکھا تھا کہ وہ پاکستان کے ساتھ اس وقت تک سلسلہ جنبانی کا آغاز کرنے پر تیار نہ ہو گا جب تک اسے دوسری طرف سے عسکریت پسندوں کے خاتمے کا یقین نہ دلا دیا جائے۔

عاصمہ کو یقین تھا کہ دونوں ملکوں میں ایک نہ ایک دن ملاپ ہو سکتا ہے۔ تاہم بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج اسلام آباد حکومت کے ساتھ بات چیت سے مسلسل انکاری ہے۔ عاصمہ کا خیال تھا کہ اسلام آباد حکومت کے کچھ مسائل ہیں جن پر فی الفور قابو نہیں پایا جا سکتا۔ تاہم بھارت کے ساتھ بات کرنے کے لیے پاکستان کو پہلے ان مسائل کا حل نکالنا پڑے گا۔ عاصمہ جہانگیر کو یقین تھا ایک دن ان کو کامیابی مل جائے گی، لیکن میری مایوسی کی وجہ یہ تھی کہ بھارت میں عاصمہ کے پرخلوص جذبے کا کوئی جواب نہیں دیا جا رہا۔ مگر مجھے اس کے ساتھ دلی ہمدردی تھی اور میں چاہتا تھا وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائے۔

عاصمہ پاکستان میں حقوق انسانی کی جدوجہد کی روشن علامت تھی جب کہ وہ ڈکٹیٹروں کے بھی خلاف تھی۔ واضح رہے وہاں چار عشرے تک آمریت جاری رہی ہے۔ عاصمہ چاہتی تھی اگر پاکستان اور بھارت میں براہ راست مذاکرات نہیں بھی ہوتے تو کم از کم ’’ٹریک ٹو‘‘ کا سلسلہ بہر طور جاری رہنا چاہیے۔

عاصمہ پاکستان سپریم کورٹ بار کی صدر بھی رہی ہیں جس سے وکلا کے حلقے میں اس کی مقبولیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ عاصمہ نے  پاکستان میں عدلیہ کی بحالی کی تحریک میں بھی بھرپور حصہ لیا اور بالآخر یہ تحریک کامیابی سے ہمکنار ہو گئی۔ وکلاء کی اس تحریک کے نتیجے میں صدر جنرل پرویز مشرف کا اقتدار انجام کو پہنچا۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ پاکستان جمہوریت کے لیے جدوجہد پر ہمہ وقت تیار ہے اور اسے جمہوریت کے لیے جدوجہد کی اہمیت کا احساس ہے۔

مجھے یاد ہے کہ عاصمہ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے سامنے بھی ڈٹ کر کھڑی ہو گئیں۔ یہ 1980ء کی دہائی کے اولین دور کا ذکر ہے جب وہ جمہوریت کے لیے جدوجہد کر رہی تھیں وہ جلد ہی تمام مقامی کارکنوں میں چیمپیئن بن گئیں۔ اس دوران اس نے پاکستان میں حقوق انسانی کمیشن کے قیام میں نمایاں کردار ادا کیا اور اس کمیشن کی سربراہ بھی رہیں۔ وہ ہمیشہ کہتی تھیں کہ یہ کمیشن کا فرض ہے کہ وہ مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کے لیے تمام تر اقدامات کرے۔

اس حوالے سے توہین مذہب کے غلط الزامات کے تحت مقدمات قائم ہوتے اور غیرت کے نام پر قتل کے واقعات معمول بن گئے جن کی عاصمہ مخالفت کرتی تھیں۔ عاصمہ نے خواتین کے حقوق کی مہم بھی چلائی حالانکہ اس وقت وہاں انسانی حقوق کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی جاتی تھی۔ یہ سہرا عاصمہ کے سر بندھے گا کہ انھوں نے حقوق انسانی اور خواتین کے حقوق کے بارے میں جدوجہد سے ان کی اہمیت واضح کی۔

ایک خاص مسئلہ جس پر عاصمہ نے خصوصی توجہ دی وہ تھا عیسائیوں کے خلاف مقدمات تھے‘ وہ اس قسم کے سنگین مقدمات کے لیے اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر کھڑی ہو جاتی اور غریب لوگوں کے مقدمات بغیر فیس کے لڑتی۔ ذاتی طور پر وہ بڑی نرم رل خاتون تھی جو بڑی آسانی سے دباؤ میں آ جاتی اور کٹر رجحانات کے حامل افراد کی طرف سے اس کو قتل کی دھمکیاں بھی دی جاتی تھیں۔

عاصمہ کی جدوجہد کو دنیا بھر میں خراج تحسین پیش کیا جاتا تھا اور اس کو اقوام متحدہ کے ترقیاتی فنڈ کی طرف سے امن ایوارڈ کے علاوہ اور بھی بہت سے اعزازات دیے گئے۔ عاصمہ کی بنیادی توجہ ملک میں جمہوریت کی آبیاری کرنے پر تھی جس میں اس کا یقین ناقابل شکست تھا۔

عاصمہ نے نہ صرف پاکستانی عوام کے لیے جدوجہد کی بلکہ ان کی کاوشوں کا محور ساری دنیا کے مظلوم عوام تھے جن میں فلسطینی اور دیگر قومیتوں کے ستم رسیدہ عوام شامل تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عاصمہ کو اپنی جدوجہد کے دوران بہت سی دشمنیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن اس کی جرات قابل قد ستائش تھی۔

(ترجمہ‘ مظہر منہاس)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔