عاصمہ، تم بھی چلی گئیں

مقتدا منصور  پير 19 فروری 2018
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

بزدل مگر سفاک مردوں کے معاشرے میں وہ تنہا نڈر اور بے باک عورت تھی، جو چار دہائیوں تک ریاستی جبر واستبداد، ماورائے آئین و قانون اقدامات اور غیر ریاستی عناصرکی چیرہ دستوں کے خلاف جدوجہد کی سالاراعلیٰ تھی۔ وہ جسمانی طور پر نحیف و ناتواں ضرور تھی، مگر اس کے قویٰ مضبوط اور عزائم بلند تھے۔ اس نے بلاتخصیص رنگ و نسل، عقیدہ وقومیت ہر اس فرد اور افراد کا مقدمہ لڑا، جنھیں ان کے انسانی حقوق سے محروم کردیا گیا ہو۔

عاصمہ اس ملک کے ان معدوے چند لوگوں میں شامل تھیں، جنھوں نے اس ملک کے عوام کے حقوق کی لڑائی لڑی۔ اگر تاریخ پر نظر ڈالی جائے، تو پچھلی نسل کے لوگوں میں باچا خان (خان عبدالغفار خان)، مولوی فضل الحق، سائیں جی ایم سید، حسین شہید سہروردی، میر غوث بخش بزنجو، عبدالصمد خان اچکزئی، شیخ مجیب الرحمان اور میاں افتخار الدین سمیت سیاسی و سماجی رہنماؤں کی ایک بڑی کھیپ نظر آتی ہے، جو ملک میں حقیقی جمہوریت، صوبائی خودمختاری اور انسانی حقوق کی پاسداری کے لیے سرگرم رہے اور ہر طرح کا ریاستی جبر واستبداد برداشت کیا، بلکہ ملک دشمنی اور غداری جیسے سنگین الزامات کو خوش دلی کے ساتھ سہا۔

سابقہ مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے کے بعد باقی ماندہ ملک میں فیوڈل سیاست مضبوط ہونا شروع ہوئی، تو درج بالا رہنماؤں میں سے جو حیات تھے، ان کے ساتھ خان عبدالولی خان، فیض احمدفیض، حبیب جالب، نثار عثمانی، منہاج برنا، معراج محمد خان اور مختار رانا سمیت کئی شخصیات میدان عمل میں ہم رکاب ہوئیں۔ جنھوں نے حکومتوں کے غیر جمہوری اقدامات، آزادی اظہار پر قدغن اور محنت کشوں کے حقوق کی پامالی پر آواز بلند کی۔ اسی دور میں ایک نوعمر لڑکی، جو کالج کی طالبہ تھی، یحییٰ خان کی آمریت کے خلاف دائر مقدمہ کے حوالے سے منظر عام پر آئی۔ اس لڑکی کا نام عاصمہ جیلانی تھا۔

ہوا یوں کہ عاصمہ کے والد ملک غلام جیلانی ایڈووکیٹ جنرل یحییٰ کی آمریت کے خلاف مقدمہ دائرہ کرنے کے خواہشمند تھے۔ مگر کوئی بھی شخص درخواست گزار بننے پر آمادہ نہیں تھا۔ بالآخر نوعمر عاصمہ نے درخواست گزار بننے پر آمادگی ظاہر کی اور ان کی طرف سے یہ مقدمہ دائر کیا گیا، جو مشہور زمانہ عاصمہ جیلانی کیس کہلاتا ہے۔ اس مقدمہ کے فیصلے میں فاضل عدالت عظمیٰ نے جنرل یحییٰ خان کو غاصب قرار دیا۔

جنرل ضیا کے آمرانہ دور میں عاصمہ وکالت کے میدان میں اتریں اور انھوں نے اپنی بہن حنا جیلانی کے ساتھ مل کر وکالت کی کمپنی قائم کی۔ یہ کمپنی زیادہ تر مظلوم خواتین کے مقدمات لیتی اور ان کی عدالتی دادرسی کے لیے کوششیں کرتی۔ عاصمہ جنرل ضیا کے آمرانہ اقدامات اور قوانین کے خلاف پوری شدومد کے ساتھ ویمن ایکشن فورم (WAF) کے پلیٹ فارم سے فعال اور متحرک رہیں۔ انھوں نے پولیس کے ڈنڈے کھائے، قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ ضیا کے حامیوں کی جانب سے کفر اور ملک دشمنی کے فتوے بھگتے۔ مگر ان کے قدم ایک لمحے کے لیے بھی نہیں لڑکھڑائے۔

ناقدین ان پر مختلف نوعیت کے الزامات عائد کرتے ہیں، جو زیادہ تر تنگ نظری اور ذاتی عناد کا اظہار ہیں۔ عاصمہ کی چالیس برس کی عملی زندگی کا جائزہ لیں، تو جو شعوری خصوصیت ان کے کردار پر حاوی نظر آتی ہے، وہ یہ ہے کہ انھوں نے کبھی ماورائے آئین و عدلیہ کوئی اقدام نہ کیا اور نہ اس کی حوصلہ افزائی کی۔

عدالتی فیصلوں پر تنقید ضرور کی، مگر عدلیہ کی بحیثیت ادارہ تذلیل سے گریز کیا۔ انھوں نے جہاں بھی اور جس کے ساتھ بھی زیادتی ہوئی، اس پر جرأت مندی کے ساتھ آواز اٹھائی۔ مذہبی شدت پسند عناصر، جو ان کی جان کے درپے آزار رہے ہیں، ان کے ماورائے عدالت قتل پر بھی انھوں نے شدومد کے ساتھ آواز اٹھائی۔ جو ان کے قانون کی بالادستی پر پختہ یقین کا اظہار ہے۔

وہ فکری کثرتیت، آزادی اظہار اور معاشرے کے تمام طبقات کے ساتھ بلاامتیاز یکساں سلوک کی زبردست حامی تھیں۔ وہ صنفی امتیازات کے خلاف سینہ سپر رہیں۔ مگر Feminist تحریک کا حصہ بننے کے بجائے انھوں نے خواتین کے حقوق کو انسانی حقوق کا حصہ بنایا، کیونکہ حقوق نسواں دراصل انسانی حقوق ہی ہیں۔ یہی سبب ہے کہ انھوں نے 1987ء میں عزیز صدیقی مرحوم، بیرسٹر اقبال حیدر مرحوم اور آئی اے رحمان کے ساتھ مل کر پاکستان انسانی حقوق کمیشن (HRCP) کی بنیاد رکھی۔ اس پلیٹ فارم سے انھیں مذہبی اقلیتوں، محنت کشوں اور بچوں کے حقوق کے لیے منظم انداز میں کام کرنے کا موقع ملا۔

جمہوریت اور جمہوری اقدار کا فروغ گوکہ ان کی اولین ترجیحات میں شامل تھا، مگر سیاستدانوں کی جانب سے غیر جمہوری اقدامات اور سیاسی عمل میں ہونے والی بے قاعدگیوں پر بھی انھوں نے کھل کر تنقید کی، جو ان کے سیاسی وسماجی شعور اور جمہوری اقدار سے لگاؤ کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔

عاصمہ آئین میں کی جانے والی من مانی ترامیم اور ایسے قوانین، جو عام شہریوں کے لیے نئے مسائل پیدا کرکے مشکلات کا باعث بنیں، ان کے خلاف آخری سانس تک لڑتی رہیں۔ وہ اراکین پارلیمان اور سیاسی جماعتوں کو جنرل ضیا کے دور میں آئین اور ملکی قوانین میں شامل کی گئی غیر جمہوری اور انسان دشمن شقوں کی تنسیخ یا ان میں مناسب ترامیم پر راضی کرنے کی کوششوں میں لگی رہیں، تاکہ ملک کے زدپذیر طبقات جن میں غیر مسلم، خواتین اور محنت کش شامل ہیں ان کے حقوق کا تحفظ ممکن ہوسکے۔ لیکن ماورائے پارلیمان اقدامات کی کبھی حوصلہ افزائی نہیں کی، یعنی قوانین میں آرڈیننسوں کے ذریعے ترامیم انھیں قبول نہیں تھیں۔

اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ پاکستان کے عوام کی اکثریت کا خواب ملک میں وفاقیت پر مبنی پارلیمانی جمہوریت کا قیام ہے، جو اپنی نوعیت میں شراکتی ہو، تاکہ اقتدار و اختیار کو نچلی سطح تک منتقل کیا جاسکے۔ ہر شہری کو اپنے منتخب کردہ نمایندوں تک رسائی حاصل ہو اور نچلی سطح کی ترقیاتی منصوبہ بندی میں ان کا براہ راست کردار ہو۔

سیاسی جماعتیں اپنے فیوڈل کلچر کی وجہ سے اقتدار و اختیار کی مرکزیت قائم رکھنے میں دلچسپی رکھتی ہیں، جب کہ سول سوسائٹی اتنی نحیف و ناتواں ہے کہ وہ کھل کر حکمرانوں اور سیاسی جماعتوں پر اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کے لیے دباؤ ڈال سکے۔ ایسے میں عاصمہ جہانگیر کی جرأت مندانہ اور بااعتماد آواز ملک کے طول وعرض میں گونجنا شروع ہوئی۔ جس نے ایوان اقتدار کے ساتھ قدامت پرستی کے ستون کو بھی لرزہ براندام کردیا۔ ان پر چاروں سمتوں سے دشنام طرازی کے تیروں کی بارش ہونے لگی۔ مگر وہ بے خوف وخطر میدان عمل میں چٹان کی مانند کھڑی رہیں۔

آج عاصمہ ہمارے درمیان نہیں ہے۔ یہ طے ہے کہ اس منحنی سی پستہ قد عورت نے روشن خیالی، آئین و قانون کی بالادستی، نظام عدل میں بہتری اور انسانی برابری کے لیے جو قد آور کردار ادا کیا، وہ آنے والی کئی نسلوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہوگا۔ بشرطیکہ آج اور آنے والے کل کی نسلیں ان آدرشوں کو سمجھ سکیں، جو معاشرے کے لیے ترقی دوست سمت کا تعین کرتے ہیں۔

دل اس لیے گرفتہ ہے کہ قحط الرجال کے اس ماحول میں جہاں علم وآگہی کے لیے جستجو کرنے والے نوجوانوں کو عقیدے کے ٹھیکیدار مشال خان بنانے پر آمادہ رہتے ہوں، فکری کثرتیت اور مختلف الخیال نظریات کے لیے قبولیت کا ماحول پیدا کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ کب کوئی دیوانہ و مستانہ قلندر صفت نوجوان (مرد یا عورت) آگے بڑھ کر عاصمہ کے مشن کو آگے لے جانے کی جرأت رندانہ کا مظاہرہ کرتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔