بچوں کی تربیت

حسن آراء  پير 19 فروری 2018
والدین انہیں وقت بھی دیں اور شفقت بھی۔ فوٹو: سوشل میڈیا

والدین انہیں وقت بھی دیں اور شفقت بھی۔ فوٹو: سوشل میڈیا

ملک وال: بچے ہماری زندگی کے خوب صورت پھول اور کلیاں ہیں۔ ان کی باغ بانی بہت سلیقے اور سمجھ داری سے کرکے کام یاب بنائی جاسکتی ہے۔ اگر اس میں سلیقہ اور منصوبہ بندی نہ ہو تو یہ جنگلی جھاڑیوں کی طرح بے ترتیب ہو جاتے ہیں۔

بچے قدرت کا انمول تحفہ ہیں۔ زندگی کی رنگینیاں انہی کے دم سے ہیں۔ بچے کی تربیت ایک اہم اور مشکل مرحلہ ہے اور یہ مرحلہ ماں کی گود سے شروع ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں میں والدین کو بہت احتیاط سے کام لینا پڑتا ہے۔ شروع میں بچے کا ذہن خالی سلیٹ کی مانند ہوتا ہے جس پر والدین اور گھر کا ماحول اثرانداز ہوتا ہے اور اپنے نقش چھوڑ جاتا ہے۔ بچوں کی تربیت میں والدین باغ بان کا کردار ادا کرتے ہیں اور انہیں تیز دھوپ سے بچاکر ان کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔

بچوں کی تربیت کے حوالے سے یہ سوال اکثر پوچھا جاتا ہے کہ بچوں کی تربیت کیسے کی جائے۔ اس کے لیے اسلام اور ماہرین نفسیات نے بھی کچھ اصول بتائے ہیں تاکہ بچوں کی تربیت بہترین انداز سے کی جاسکے۔

ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ بچے کے ابتدائی دو سال اس کی ذہنی نشوونما کے لیے انتہائی اہم سال ہوتے ہیں۔ اس دوران میں ابتدائی ذہنی نشوونما ہوتی ہے اور اس کے بعد وہ مزید ذہنی نشوونما پاتا ہے۔ ان دو برسوں میں بچوں کی جتنی اچھی نشوونما ہو گی۔ بعد میں اس کے نتائج بھی اتنے ہی شان دار ملیں گے۔

اکثر والدین اس بات کا علم ہی نہیں رکھتے کہ ان کے بچے انڑ نیٹ اور موبائل پر کن سر گرمیوں میں مصروف ہیں، وہ کیسی وڈیوز دیکھتے اور کس طرح کے گیم کھیلتے ہیں اور یہ سب چیزیں ان کے کچے ذہنوں پر کیا اثرات ڈال رہی ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں جس کے بعد ان کے لیے سیدھی اور صحیح راہ سے بھٹکنے کے امکانات کم ہوجائیں گے۔

والدین بچوں کے لیے وقت نکالیں، انہیں چھوٹی چھوٹی اخلاقی کہانیاں سنائیں۔ انہیں پاس بٹھا کر قرآن کریم اور احادیث سنائیں اور انہیں اچھے برے میں تمیز کرنا سکھائیں۔

والدین بچوں کی عادتوں اور مسائل پر بھی نظر رکھیں۔ مثلاً بچے کی صحت کیسی ہے؟ اس کا رنگ زرد کیوں ہے؟ وہ نیند میں کیوں ڈرتا ہے؟ اس سلسلے میں بچوں کو علاج کے علاوہ والدین کی توجہ اور شفقت کی بھی بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔

اگر بچے کو تعلیمی شعبے میں ناکامی کا سامنا ہے تو اسے باقی بہن بھائیوں کی ذہانت کی مثالیں دی جائیں اور اسے احساس کم تری میں ڈالنے کے بجائے مزید محنت اور لگن سے کام کرنے کی طرف راغب کیا جائے۔

اس کے بعد بچہ مایوسی کی طرف جانے کے بجائے دوبارہ محنت کرنا شروع کردیتا ہے۔ اگر بچہ ذہنی لحاظ سے کم زور ہو تو اس کا الزام اساتذہ پر ڈالنے کے بجائے ان کے ساتھ بات چیت کی جائے اور ان کے مشورے سے اپنے بچے کی بہتری کے لیے منصوبہ بندی کی جائے۔

آج کل سب سے بڑا مسئلہ والدین کی حد سے بڑھی ہوئی مصروفیات ہیں جن کی وجہ سے ایک تو والدین کو بچوں کے مسائل کا علم نہیں ہوتا جس کی وجہ سے انہیں ٹیچرز اور دوسرے لوگوں سے یہ شکایت سننے کو ملتی ہے کہ ان کا بچہ نالائق ہے۔ اسے اچھے برے کی تمیز نہیں، اس لیے والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی مصروفیات میں سے بچوں کے لیے بھی وقت نکالیں، ان پر توجہ دیں، ایسا نہ ہو کہ آپ کے بچے آپ کے ہاتھ سے نہ نکل جائیں۔

بچے اگر سکول نہ جانے کی ضد کریں تو ان پر سختی کرنے کے بجائے اس رویے کی وجوہ تلاش کریں اور ممکنہ حد تک انہیں حل کرنے کی کوشش بھی کریں۔

اولاد کی تربیت کے سلسلے میں شیخ سعدی فرماتے ہیں: ’’بچی کی عمر جب دس سال سے زیادہ ہوجائے تو اسے نامحرموں اور ایرے غیروں میں نہ بیھٹنے دو اور نہ ہی اس سے زیادہ لاڈ پیار کرو۔ اسے استاد کا ادب بھی سکھائو اور استاد کی سختی سہنے کی عادت بھی ڈالو۔ شروع میں پڑھاتے وقت اس کی تعریف کرو، جب وہ اس طرف راغب ہوجائے تو پھر اچھے برے کی تمیز بھی سکھائو۔ بچے کی ضروریات خود پوری کرو اور عمدہ طریقے سے کرو، تاکہ وہ دوسروں کی طرف نہ دیکھے۔ اپنے بچوں کو کوئی ہنر بھی سکھائو، تا کہ آنے والی زندگی میں وہ کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلائیں۔ اپنے بچوں پر کڑی نظر رکھو، تاکہ بری صحبت سے بچ سکیں۔ انہیں اچھے اخلاق کی تعلیم دو۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔