ووٹ ڈالیں۔۔۔۔۔یا نہ ڈالیں؟

بشیر واثق  اتوار 31 مارچ 2013
فوٹو: فائل

فوٹو: فائل

الیکشن کی آمد آمد ہے اور انتخابی امیدواروں نے اپنے حلقوں میں پھر سے عوامی رابطہ مہم شروع کر دی ہے، یہ بیچارے وہی لوگ ہیں جن کے ووٹوں سے ایوان اقتدار میں پہنچنے کے بعد وہ انھیں عرصہ دراز سے بھولے ہوئے تھے۔

چند سال قبل الیکشن کی آمد کے ساتھ ہی عوام میں گہما گہمی دیکھنے میں آتی تھی، انتخابی امیدواروں اور ان کے حمایتیوں کے ساتھ ساتھ عام آدمی بھی الیکشن میں دلچسپی لیتا تھا، مگر اب ویسا جوش و جذبہ دیکھنے میں نہیں آ رہا، پہلے جگہ جگہ الیکشن کے بارے میں بحث ومباحثہ دیکھنے کو ملتا تھا جس میں تعلیم یافتہ تو ایک طرف رہے ان پڑھ اور مزدور قسم کے افراد بھی حصہ لیتے دکھائی دیتے تھے۔

بحث کے لئے نہ اہتمام کی ضرورت ہوتی تھی نہ ہی کسی بیٹھک کی بلکہ چھیڑ چھاڑ کے انداز میں شروع ہونے والی اس بحث کا مرکز بازار کی کوئی دکان بھی ہو سکتی تھی اور گلی محلے کاکوئی چوراہا بھی، راہ چلتا کوئی بھی شخص اس بحث میں حصہ لے لیتا تھا ، اور کبھی کبھار یہ بحث بڑھ کر تکرار کی صورت بھی اختیار کرلیتی تھی کیونکہ اپنے اپنے انتخابی امیدواروں کی حمایت میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے جاتے تھے اور کوئی بھی اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہیں ہوتا تھا ، یوں بحث کسی نتیجے کے بغیر پھر کسی روز نئی بحث تک ختم ہو جاتی ، تاہم جب بھی بحث ہوتی ہمیشہ بے نتیجہ ہی رہتی مگر اس سے الیکشن میں عوام کی دلچسپی ظاہر ہوتی تھی۔

تعلیم یافتہ نوجوانوں میں اب بھی الیکشن کے لئے جوش و جذبہ دکھائی دیتا ہے اور وہ اپنے اپنے انداز میں الیکشن کو خوش آ مدید کہہ رہے ہیں، کوئی پارٹی کے جلسوں میں شرکت کر رہا ہے تو کوئی با کردار امیدواروں کو ووٹ دینے کی باتیں کرتا دکھائی دیتا ہے، جو کہ خوش آئند بات ہے، کیونکہ ملک و قوم کا مستقبل تو یہی نوجوان نسل ہے۔ اس مرتبہ عام آدمی اس طرح سے فعال نظر نہیں آ رہا جیسے وہ پہلے متحرک دکھائی دیتا تھا ، تاہم کہیں کہیں بحث مباحثہ ہوتا دکھائی دیتا ہے مگر یہ بحث گزشتہ ادوار کی نسبت بہت تلخ اور کڑوی ہوتی ہے، گویا وہ اپنے دل کا غبار نکال رہے ہیں۔

چائے کی دکان پر کرم الٰہی اور محمد دین میں الیکشن کے بارے میں مکالمہ جاری تھا اور چائے خانے کا مالک ولی خان ان کی جلی کٹی بحث سننے پر مجبور تھا مگر یہ اس کے لئے معمول کی بات تھی کیونکہ الیکشن کے قریب آتے ہی اس کے چائے خانے پر اکثر ایسی ہی بحث سننے میں آتی تھی۔ ’’اب پھر آ جائیں گے منہ اٹھا کر ووٹ مانگنے‘‘ محمد دین نے کہا۔ ’’ ارے یار کیوں اپنا دل جلاتے ہو ، یہ معاملات ایسے ہی رہیں گے، ایک کرسی سے اترے گا تو دوسرا ویسا ہی اس کرسی پر جا بیٹھے گا، اس لئے ہمارے مسئلے کیسے حل ہوں گے‘‘کرم الٰہی نے منہ بناتے ہوئے کہا۔

’’میں گزشتہ چالیس سال سے ووٹ ڈال رہا ہوں یہی لوگ ہیں جو انتخابات میں حصہ لیتے ہیں، اگر خود نہیں لڑتے تو اپنے خاندان کے کسی فرد کو کھڑا کر دیتے ہیں یعنی ہر حال میں الیکشن لڑنے کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے‘‘محمد دین کے لب ولہجے سے کچھ زیادہ ہی بیزاری ظاہر تھی۔ اتنے میں ایک نوجوان چائے خانے میں داخل ہوا ، اور ان کے قریب والے بینچ پر بیٹھ گیا، پھر انھوں نے اس نوجوان کو بھی اپنی گفتگو میں شامل کر لیا ، نوجوان تھوڑی دیر تو ان کی باتیں خاموشی سے سنتا رہا پھر اس سے رہا نہ گیا اور وہ کہنے لگا’’اگر آپ لوگ ان سے مطمئن نہیں ہیں تو انھیں ووٹ کیوں دیتے ہیں۔‘‘

اس کی بات سن کر پہلے تو دونوں خاموش ہو گئے ، پھر کرم الٰہی کہنے لگا ’’بیٹا بات یہ ہے کہ ہم ہر مرتبہ اس امید سے ووٹ دیتے آئے ہیں کہ شائد اس دفعہ یہ ہمارے مسائل حل کر دیں مگر ہمیں ہر مرتبہ مایوسی ہی ہوئی ، ہمارا تو پچھلی بار بھی دل نہیں چاہ رہا تھا ووٹ ڈالنے کو مگر پھر دوستوں کے کہنے پر ووٹ ڈالا ، اب پکا ارادہ کیا ہے کہ آرام سے اپنے کام پر جائیں گے ، کیا ضرورت ہے ایسے لوگوں کو ووٹ ڈالنے کی ، جو عوام کا سوچنے کی بجائے اپنا پیٹ بھرتے ہیں۔‘‘نوجوان کہنے لگا ’’چچا جان آپ کی بات بالکل ٹھیک ہے مگر خرابی یہ نہیں کہ آپ نے ووٹ ڈالا بلکہ یہ ہے کہ آپ نے درست آدمی کو ووٹ نہیں ڈالا۔‘‘

محمد دین کو تھوڑا غصہ آیا اور اس نے جل کر کہا ’’اور کسے ووٹ دیتے، جب حلقے میں کھڑے ہی ایسے لوگ ہوتے ہیں جو اپنے مفادات کے تحت سیاست میں حصہ لیتے ہیں ۔‘‘ نوجوان کہنے لگا ’’اب ایسا نہیں ہو گا کیونکہ بڑے تجربے ہو چکے ہیں اور یہ لوگ بہت لوٹ کھسوٹ مچا چکے ہیں ، اب نئے لوگ بھی کھڑے ہوں گے ، آپ انھیں ووٹ دیں۔‘‘ محمد دین کہنے لگا ’’اور اگرانھوں نے بھی ہمیں مایوس کیا تو پھر کیا کریں گے۔‘‘نوجوان کہنے لگا ’’پھر اگلی مرتبہ کسی اور اچھے آدمی کو آزمائیں ۔‘‘اس کی بات دونوں کو شائد اچھی نہ لگی اور کہنے لگے ’’تم عجیب باتیں کر رہے ہو ، ان لوگوں کی وجہ سے ہمارے مسائل حل نہیں ہورہے اور تم ہمیں سمجھا رہے ہو کہ انھیں ووٹ پر ووٹ دیتے چلے جائو۔‘‘

یہ کہہ کر محمد دین اور کرم الٰہی اٹھ کر چلتے بنے۔ چائے خانے کا مالک اس نوجوان سے کہنے لگا ’’بیٹا! یہ روز کی بحث ہے ، دونوں اپنے دل کے پھپھولے پھوڑتے رہتے ہیں اور بعض اوقات تو گرمی سردی بھی ہو جاتی ہے۔‘‘نوجوان نے کہا ’’ویسے چچا جان میں نے کیا غلط کہا ہے کہ اچھے نمائندوں کی تلاش میں ووٹ پر ووٹ ڈالتے چلے جائو۔‘‘ ’’بات تو تمھاری ٹھیک ہے بیٹا، مگر کیا کریں ان لوگوں نے عوام کو مایوس بھی تو بہت کیا ہے اس لئے غریب عوام کا اب ووٹ ڈالنے کو جی ہی نہیں چاہتا۔‘‘

غریب ووٹر الیکشن کی آمد پر کیا سوچ رہا جب اس حوالے سے سروے کیا گیا تو حیرانگی ہوئی کہ اکثریت نے الیکشن کو خوش آمدید کہنے کے بجائے بیزاری کا اظہار کیا جیسے انھیں الیکشن کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔

رائل پارک میں پان کی دکان سجائے ندیم سے جب پوچھا کہ الیکشن سر پر ہیں اس حوالے سے اس کے کیا خیالات ہیں؟تو کہنے لگا ’’آپ الیکشن کی کیا بات کرتے ہیں ہمارے لئے تو روٹی پوری کرنا مشکل ہوگئی ہے ، اس مارکیٹ میں پریس کا کام ہے ، بجلی ہی نہیں ہوتی، جس سے پریس والوں کا کام تو متاثر ہوتا ہی ہے ، ساتھ میں ہمارا بھی کام کم ہو جاتا ہے، کیونکہ ان لوگوں کا کاروبار چلے گا تو تب ہی وہ ہمارے پاس پان وغیرہ خریدنے آئیں گے ، ایک تو آمدن کم ہو گئی ہے اوپر سے مہنگائی نے ہمارا بیڑہ غرق کر دیا ہے، دکان پر دن رات کام کرتے ہیں مگر گزارہ نہیں ہوتا ، ایسے میں بھلاہم الیکشن کو کیسے خوش آمدید کہہ سکتے ہیں ، الیکشن ہو گاتو وہی لوگ بار بار سامنے آ جاتے ہیں پھر ہمارے مسائل کون حل کرے گا۔‘‘

بسم اللہ پرنٹنگ پریس چلانے والے محمد یاسین سے جب الیکشن کے حوالے سے بات کی تو فوراً ہاتھ اٹھا کر انکار کا اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’ ہمیں الیکشن سے کوئی دلچسپی نہیں رہی ، ہمیں بچوں کی روزی کمانے سے فرصت نہیں ملتی ،آپ الیکشن کی بات کر رہے ہیں، الیکشن ہوں یا نہ ہوں ہمیں اس سے کیا ، بات تو تب ہے نا جب یہ لوگ ہمارے مسائل حل کریں ،انھوں نے تو ہماری روٹی بھی چھین لی ہے۔‘‘

نوجوان درزی عمیر عارف کا کہنا تھا ’’ الیکشن کو کیسے خوش آمدید کہیں ، عوام کے مسائل تو ان لوگوں نے حل کئے نہیں ، مجھے نہیں لگتا کہ الیکشن سے عوام کے مسئلے حل ہو جائیں گے، ہاں یہ ضرور ہے میں ووٹ لازمی ڈالوں گا اور اس سلسلے میں با کردار فرد کا انتخاب کروں گا۔‘‘

پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ فارمیسی میں بطور نائب قاصد کام کرنے والے خالد نے کہا ’’ میں تو قطعاً ووٹ نہیں ڈالوں گا ، ان لوگوں نے بہت مایوس کیا ہے ، ہمارے مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں پھر کس برتے پر ان لوگوں کو ووٹ دوں ، یہ جو کہا جاتا ہے کہ اچھے لوگوں کاانتخاب کیا جائے تواچھے افراد تو سیاست میں آتے ہی نہیں ، آج تک جو بھی آیا ہے اس نے سیاست کو ذاتی مقاصد کے لئے استعمال کیا ہے ۔ ہماری یاد تو انھیں تب ہی آتی ہے جب ووٹ مانگنے ہوتے ہیں ۔‘‘

پان شاپ والا جمیل احمد الیکشن سے بیزاری ظاہر کر رہا تھا جبکہ اس کا نوجوان بیٹا محمد یوسف الیکشن کو خوش آمدید کہنے کے لئے جوش و جذبے سے بھرا ہو ا تھا ، جمیل احمد کاکہنا تھا کہ عوامی نمائندوں نے بہت مایوس کیا ہے اس لئے اب ووٹ دالنے کو من نہیں چاہتا ، اوپر سے روزی روٹی کے چکر نے گھن چکر بنا کر رکھ دیا ہے ، ایسے میں بھلا کیسے الیکشن کو خوش آمدید کہہ سکتے ہیں ۔ اس کے بیٹے محمد یوسف کا کہنا تھا کہ الیکشن کا پورے جوش وجذبے سے سواگت کر رہے ہیں اور اچھے نمائندوں کو منتخب کریں گے ، تاکہ عوام کے مسائل حل ہو سکیں۔

ایک مزدور حمید الدین سے سوال کیا تو اس کے چہرے سے بیزاری اور لاتعلقی نے ہی اس کا جواب دے دیا تھا، تھوڑا سوچنے کے بعد کہنے لگا ’’ ہمیں اس سے کیا ملتا ہے ، الیکشن ہوں نا ہوں ‘‘ یہ مختصر جواب دے کر وہ چلتا بنا۔

فوٹو گرافر شیر محمد کا کہنا تھا کہ عوام کی کسی کو فکر نہیں، اوپر سے لے کر نیچے تک سب کھا رہے ہیں ، نہ بجلی نہ گیس اور پھر مہنگائی ، کام نہ ہونے کے برابر ہے اور یہ سب ان حکمرانوں کا ہی کیا دھرا ہے ایسے میں بھلا الیکشن سے ہمیں کیا لینا ، ہم تو بڑی مشکل سے گزارہ کر رہے ہیں ، یوں سمجھیں کہ جسم و جان کا رشتہ جوڑا ہوا ہے۔‘‘

لوہے کا کام کرنے والے مظہر نے الیکشن کو خوش آمدیدکہنے کے حوالے سے کہا ’’الیکشن کو ضرور خوش آمدید کہیں گے کیونکہ جمہوری نظام کی بقا ء اسی میں ہے، عوام کو بھی اس الیکشن میں بھرپور حصہ لینا چاہیے، اچھے افراد کے انتخاب سے ہی مسائل حل ہوں گے۔‘‘

ہمارے اس مختصر سروے سے پتہ چلتا ہے کہ مزدور اور غریب طبقے میں الیکشن کا وہ روایتی جوش و خروش نہیں دکھائی دے رہا جو جمہوری نظام کا حصہ ہوتا ہے، سیاسی کارکن اور میڈیا کو اس طرف بھر پور توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ اس غریب طبقے کو جمہوری نظام کے ثمرات سے آگاہ کریں اور اسے ووٹ کی طاقت کا احساس دلائیں، جمہوری نمائندوں کو بھی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔