دنیا میں رائج مختلف انتخابی نظاموں کا تعارف

محمد اختر  اتوار 31 مارچ 2013
فوٹو: فائل

فوٹو: فائل

پاکستان میں عام انتخابات کی آمد آمد ہے۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے میر ہزار خان کھوسو نگران وزیراعظم بن چکے ہیں اورامید ہے کہ پاکستان کے عام انتخابات معمول کے مطابق اپنے وقت پر ہوں گے۔

اس وقت جو خوش آئند امر ہے وہ یہ ہے کہ آزادانہ انتخابات کے نتیجے میں عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی پارلیمنٹ نے پاکستان میں اپنی مدت پوری کی ہے۔ اگرچہ اس سے پہلے مشرف حکومت کی پارلیمنٹ بھی اپنی مدت پوری کرچکی ہے لیکن گذشتہ پارلیمنٹ حالیہ پارلیمنٹ (تحلیل شدہ)کے سامنے اس لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتی کیونکہ گذشتہ پارلیمنٹ ایک ڈکٹیٹر کے زیرسایہ ہونے والے انتخابات کے بعد وجود میں آئی تھی جن کو آزاد مبصرین شفاف قرار نہیں دیتے۔ پاکستان میں پارلیمانی نظام حکومت ہے اور عام انتخابات بھی اسی نظام کے تحت ایک فرد ایک ووٹ کے اصول پر ہوتے ہیں۔ اب جب کہ پاکستان میں یہ الیکشن ہونے جارہے ہیں اور عوام کی اکثریت جانتی ہے کہ یہ الیکشن کیسے ہوتے ہیں اور اس کے نتیجے میں پارلیمنٹ کیسے وجود میں آتی ہے۔

لیکن شاید بہت سے قارئین دنیا کے دیگر ممالک میں الیکشن کے مختلف نظاموں اور طریقہ کار کے بارے میں نہ جانتے ہوں۔ زیر نظرمضمون میں ہم آپ کو دنیا کے چند اہم ممالک میں عام انتخابات کے مختلف نظاموں کے بارے میں بتاتے ہیں جن کے تحت وہاں پرحکومتیں وجود میں آتی ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے برطانیہ کے بارے میں بتاتے ہیں۔ یوکے کو آج بھی بہت سے لوگ برطانیہ یا انگلینڈ کے نام سے جانتے ہیں تاہم یہ اس کا اصل اور سرکاری نام نہیں ہے۔اس کا سرکاری اور حقیقی نام  United Kingdom of Great Britain and Northern Irelandہے جسے مختصراً صر فUK لکھا جاتا ہے۔ آئیے ذیل میں یوکے یعنی برطانیہ کے انتخابی نظام کاجائزہ لیتے ہیں۔

یوکے (برطانیہ) کا انتخابی نظام

جیسا کہ قارئین اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستان ماضی میں برطانیہ کی نوآبادی رہا ہے۔ لہٰذا یہاں پر دیگر بہت سے نظاموں کی طرح انتخابی نظام بھی وہی اختیار کیا گیا ہے جو برطانیہ یعنی یوکے میں ہے۔پاکستان کی طرح برطانیہ میں بھی پارلیمانی طرز حکومت اور دوایوانی مقننہ ہے۔صرف ناموں کا فرق ہے یعنی پاکستان میں ایوان زیریں کو قومی اسمبلی کہا جاتا ہے جبکہ برطانیہ میں ایوان زیریں کو ہائوس آف کامنز (دارالعوام) کہتے ہیں۔ اس طرح پاکستان میں ایوان بالا کو سینیٹ کہا جاتا ہے لیکن برطانیہ میں ایوان بالا کو ہائوس آف لارڈز(دارالامراء ) کہا جاتا ہے۔ پاکستان کی طرح ہی برطانوی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں یعنی ہائوس آف کامنز کا انتخاب عوامی ووٹوں کے ذریعے ہوتا ہے جبکہ ہائوس آف لارڈز کے ارکان کو نامزد کیا جاتا ہے۔

برطانیہ میں جب پارلیمنٹ تحلیل ہوتی ہے تو دارالعوام کی ہر نشست خالی ہوجاتی ہے جس کو پرکرنے کے لیے عام انتخابات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔برطانیہ کے ہر حلقہ انتخاب میں ایک رکن پارلیمنٹ کاانتخاب کیا جاتا ہے۔ جو پارٹی دارالعوام میں اکثریت حاصل کرتی ہے، عام طورپر وہی حکومت تشکیل دیتی ہے۔

برطانیہ میں پارلیمنٹ کی معیاد پانچ سال ہے اور یوں ہر پانچ سال بعد الیکشن کا انعقاد ہوتا ہے۔برطانیہ میں اگلے عام انتخابات سات مئی 2015 کو ہونا ہیں۔برطانیہ میں قانون کے تحت ہر پانچ سال بعد مئی کی پہلی جمعرات کو الیکشن کے انعقاد کا حکم ہے۔ تاہم ایسی دو مثالیں موجود ہیں جب برطانیہ میں پانچ سال کی مقررہ معیاد سے پہلے عام انتخابات کا انعقاد عمل میں لایا گیا۔

برطانیہ میں مقررہ معیاد سے پہلے حکومت کا خاتمہ کرنے کے لیے دارالعوام میں سادہ اکثریت سے عدم اعتماد کی تحریک پیش کی جاتی ہے اور اگر چودہ دن تک اکثریتی پارٹی اعتماد کی تحریک نہ لاسکے تو نئی حکومت تشکیل دی جاتی ہے۔اس طرح نئے الیکشن کے لیے خالی نشستوں سمیت دوتہائی کی اکثریت سے تحریک پیش کی جاتی ہے۔اس قانون سے پہلے پارلیمنٹ کی مدت پانچ سال تھی تاہم وزیراعظم کی جانب سے ملکہ سے درخواست پر کئی پارلیمنٹس کو اس مدت سے پہلے بھی تحلیل کیاگیا۔

برطانیہ میں الیکشن کے طریقہ کارکے تحت ہر حلقے سے مختلف امیدواروں کے درمیان میں سے ارکان پارلیمنٹ کا انتخاب کیا جاتا ہے۔برطانیہ کے ہر شہری کو اس سلسلے میں ایک ووٹ کاسٹ کرنے کاحق ہے۔سب سے زیادہ ووٹ لینے والا امیدوار متعلقہ حلقے سے رکن پارلیمنٹ بن جاتا ہے۔الیکشن لڑنے والے امیدواروں کے لیے ضروری ہے کہ اگر وہ کسی پارٹی کی طرف سے الیکشن لڑ رہے ہیں تو اس پارٹی کا الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ ہونا ضروری ہے۔تاہم امیدوار آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے کا حق رکھتے ہیں۔

برطانوی الیکشن میں زیادہ تر ووٹ پولنگ اسٹیشنز پرکاسٹ کیے جاتے ہیںتاہم اگر کوئی شہری پولنگ اسٹیشنز سے دور ہے تو وہ پوسٹل ووٹ کاسٹ کرنے کا بھی حق رکھتا ہے جس کے لیے اسے درخواست دینا پڑتی ہے۔ایسے برطانوی شہری جو کم ازکم پندرہ سال سے بیرون ملک مقیم ہیں، وہ بھی پوسٹل ووٹ کاسٹ کرنے کے حقدار ہوتے ہیں۔برطانیہ میں آخری عام انتخابات چھ مئی 2010ء کو ہوئے تھے۔

چین میں انتخابی طریقہ کار

دنیا کی دوسری بڑی اقتصادی طاقت اور دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والے ملک چین میں الیکشن کا طریقہ خاصا پیچیدہ اور دیگر ممالک سے خاصامختلف ہے۔چین میں الیکشن دو طرح سے ہوتے ہیں ، اول براہ راست اور دوئم بالواسطہ، چین میں الیکشن کا مراتبی نظام   (hierarchical electoral system) ہے اور الیکشن پر کمیونسٹ پارٹی کی اجارہ داری ہے جس کے تحت مقامی پیپلزکانگریسوں کا براہ راست انتخاب ہوتا ہے اوریہی مقامی کانگریسیں بالائی درجے کی کانگریسوں بمشول نیشنل پیپلز کانگریس جو کہ قومی مقننہ ہے ، کا بالواسطہ انتخاب عمل میں لاتی ہیں۔نیشنل پیپلزکانگریس ہی وہ ادارہ ہے جو بعدازاں ملک کے صدر اور ریاستی کونسل کو منتخب کرتا ہے۔پیپلزکانگریس، خود مختار کمشنریوں اور اضلاع کے نائبین کا انتخاب کیسے ہونا ہے ، اس حوالے سے چینی آئین خاموش ہے۔

اس طرح چین میں گورنروں ، مئیرز ، اصلاع ، قصبات اور دیہات کے سربراہوں کا انتخاب بالترتیب مقامی کانگریسیں کرتی ہیں۔اس طرح عوامی عدالتوں کے صدور اور چیف پراسیکیوٹرز کا انتخاب بالترتیب ضلعی سطح کی کانگریسوں کی جانب سے کیا جاتا ہے۔ صدر اور ریاستی کونسلوں کا انتخاب جیسا کہ اوپر بتایا گیا ، قومی کانگریس کرتی ہے۔

اگرچہ چین کے قانون میں ملک گیر شراکت داری کی ضمانت دی گئی ہے لیکن عملی طورپر ملک کے تمام تر انتخابی عمل پر کمیونسٹ پارٹی کی اجارہ داری ہے۔عملی طورپر گائوں کی سطح سے آگے کے عہدوں پر صرف چینی کمیونسٹ پارٹی کے ارکان ، آٹھ اتحادی پارٹیوں اور ہمدرد آزاد امیدواروں کو ہی ہر الیکشن میں منتخب کیا جاتا ہے۔

علاوہ ازیں اضلاع ، وہ شہر جو اضلاع نہیں بنے ، شہری اضلاع، بڑے قصبات ، نسلی قصبات اور چھوٹے قصبات کی کانگریسوں کا انتخاب براہ راست ہوتا ہے۔مزید براں ، دیہاتی کمیٹیوں کے ارکان اور چیئرمینوں کا انتخاب بھی براہ راست ہوتا ہے۔ مقامی کانگریسوں کو یہ آئینی اختیار حاصل ہے کہ وہ صوبائی سطح اور اس سے نیچے کے سربراہوں اور نائبین کو طلب کرسکتی ہیں۔

ڈینگ ژیاپو پینگ نے 1978ء میں برسراقتدار آنے کے بعد مقامی سطح پر براہ راست جمہوریت کاتجربہ کیا۔اس طرح کچھ بڑے قصبات اور شہری علاقوں میں مقامی حکومتی سربراہوں کے براہ راست الیکشن کے ذریعے چنائو کا تجربہ بھی کیا جاچکا ہے۔چین میں طرز حکومت کے اس پیچیدہ نظام میں دیہات کا درجہ روایتی طورپر سب سے نیچے ہے۔1980ء کے اوائل میں کچھ جنوبی دیہات نے ایک نیا نظام متعارف کرایا جس کے تحت ’’اپنے سربراہ کا چنائو خود کریں‘‘ نامی پالیسی اپنائی گئی ۔ اس پالیسی کے تحت آزادانہ الیکشن منعقد کیے جاتے جس کا مقصد گائوں کے سربراہ کاانتخاب ہوتا ہے۔

گائوں کے سربراہ کو مقامی دیہی معاشرے میں اچھی خاصی طاقت اور اثرورسوخ حاصل ہوتا ہے ۔ اس طرح کے کئی الیکشن بہت کامیاب ہوئے جس میں امیدواروں کے درمیان مذاکرے کرائے گئے ، پلیٹ فارم مہیا کیے گئے اور خفیہ بیلیٹ باکس متعارف کرایا گیا۔اس میں مکمل شراکت داری دی گئی اور اٹھارہ سال سے اوپر کے تمام شہریوں کو ووٹ دینے اور الیکشن لڑنے کا حق دیا گیا۔اس قسم کے الیکشن میں عام طورپر دوہزارسے زیادہ ووٹر نہیں ہوتے اور جیتنے والے کا تعین کرنے کے لیے سب سے زیادہ ووٹوں کا اصول اپنایا جاتا ہے اور سیاسی وابستگی کی کوئی پابندی نہیں ہوتی۔ الیکشن ہر تین سال بعد منقعد ہوتے اور ہمیشہ اعلیٰ سطح کی حکومت جو عام طورپر ضلعی حکومت ہوتی ہے ، اس کی نگرانی کرتی ہے۔

چین کی دیہی کمیٹیوں کے قانون کے مطابق ملک کے تمام دس لاکھ کے قریب دیہات سے امید کی جاتی ہے کہ وہ شفاف براہ راست الیکشن کرائیں گے جس کے تحت نیم حکومتی دیہی کمیٹیوں کا انتخاب ہوگا۔ 1998ء میں اس قانون پر نظرثانی کی گئی جس میں نامزدگی کے عمل میں بہتری لانے اور دیہی کمیٹیوں کی انتظامیہ میں شفافیت بڑھانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ نظرثانی کے تحت امیدواروں کی نامزدگی کا اختیار دیہی گروپوں اور کیمیونسٹ پارٹی کی شاخوں سے لے کر شہریوں کو ہی دے دیاگیا ہے۔وزارت شہری امور کے مطابق 2003ء سے لے کر اب تک اکثر صوبے چار سے پانچ مرتبہ دیہی الیکشن منعقد کراچکے ہیں۔بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ریاستی میڈیا باقاعدگی سے ان الیکشنوں میں ووٹوں کی خریداری اور بدعنوانی کی نشاندہی کرتا رہاہے ۔تاہم انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ ان الیکشن سے بہت سے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں۔

جیسا کہ اوپر بتایاگیا کہ چین میں الیکشن پرکمیونسٹ پارٹی کی اجارہ داری ہے جو 1949 ء سے ملک پر حکومت کررہی ہے۔ کمیونسٹ پارٹی کی سب سے سینئر اور فیصلہ ساز تنظیم پولٹ بیورو کی اسٹینڈنگ کمیٹی ہے جس میں مراتبی نظام کے تحت عہدوں کی تقسیم ہوتی ہے۔پولٹ بیورو کے ارکان کو کبھی بھی مسابقتی الیکشن کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔اگرچہ رسمی طور پر ان ارکان کی طاقت کا منبع پولٹ بیورو میں ان کے عہدے ہوتے ہیں تاہم چین میں عہدوں کے بجائے اصل طاقت ذاتی تعلقات کی ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ڈینگ ژیائو پینگ تمام سرکاری عہدوں سے مستعفی ہونے کے باوجود اتنے طویل عرصے تک چین کا سرکردہ لیڈر رہا۔ پولٹ بیورو تین اہم باڈیز پربھی کنٹرول رکھتا ہے جن میں مسلح افواج کو کنٹرول کرنے والا ملٹری افیئرز کمیشن، نیشنل پیپلزگانگرس یا پارلیمنٹ اور اسٹیٹ کونسل شامل ہے جو کہ حکومت کا انتظامی بازو ہے۔

امریکا میں انتخابات کیسے ہوتے ہیں؟

امریکا میں وفاقی صدارتی طرز حکومت ہے اور وفاقی ، ریاستی اورمقامی سطح پر تمام حکومتی عہدیدار منتخب ہوکرآتے ہیں۔قومی سطح پر ریاست کا سربراہ صدر کہلاتا ہے جو ایک الیکٹرل کالج کے ذریعے بالواسطہ طور پر عوام کی جانب سے منتخب ہوتا ہے۔بالواسطہ اس لیے کہ اصل میں عوام الیکٹرل کالج کے ارکان کو ووٹ دیتے ہیں جو آگے چل کر صدر کا انتخاب کرتے ہیں۔انتخاب کنندگان یعنی الیکٹرز عام طورپر اسی پارٹی کے صدارتی امیدوار کو ووٹ دیتے ہیں جس کو متعلقہ ریاست میں زیادہ مقبولیت حاصل ہوتی ہے۔اس طرح تمام وفاقی قانو ن ساز یعنی کانگریس کا انتخاب براہ راست ہوتا ہے۔ریاستوں کی سطح پر بہت سے منتخب شدہ عہدے ہوتے ہیں اور ہر ریاست کم ازکم ایک منتخب شدہ گورنر اور قانون ساز رکھتی ہے۔اس طرح مقامی سطح پر قصبوں اور شہروں میں بھی منتخب شدہ عہدیدار موجود ہوتے ہیں۔تخمینہ جات کے مطابق پورے ملک میں کم ازکم دس لاکھ عہدوں کو انتخابی سلسلے کے ذریعے پر کیا جاتا ہے۔

امریکا میں صدارتی انتخابات کے کئی مراحل ہوتے ہیں۔ ابتدائی مرحلہ دونوں بڑی پارٹیوں یعنی ری پبلکن پارٹی اور ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے اپنے اپنے صدارتی اور نائب صدارتی امیدوار کی نامزدگی ہوتی ہے۔اس کے لیے دونوں بڑی پارٹیوں کے ہر چار سال بعد اجلاس ہوتے ہیں جنہیں متعلقہ پارٹی کے قومی کنونشن کہا جاتا ہے۔نامزدگی کے لیے پارٹی ارکان امیدواروں میں سے ایک امیدوار چنتے ہیں جو کہ صدارتی الیکشن میں پارٹی کا امیدوار ہوتا ہے اور پارٹی کی جانب سے صدارتی الیکشن میں حصہ لیتا ہے ۔

امریکی الیکشن میں نامزدگی کا عمل بشمول پرائمری الیکشن اور نامزدگی کنونشن آئین کے پابند نہیں بلکہ ان کو ریاستوں اور سیاسی جماعتوں نے خود ہی وضع کررکھا ہے۔یہ بھی بالواسطہ انتخابات کے ذریعے عمل پذیر ہوتے ہیں جس کے تحت ووٹر متعلقہ پارٹی کے نامزدگی کنونشن میں ڈیلی گیٹس کا چنائو کرتے ہیں جو کہ آگے چل کر اپنی پارٹی کے صدارتی امیدوار کی نامزدگی کرتے ہیں۔

امریکا کے صدر اور نائب صدر چارسال کی مدت کے لیے منتخب ہوتے ہیں لہٰذا ان کا انتخاب ہر چار سال بعد بالواسطہ طریقے سے ہوتا ہے۔الیکشن ڈے کے موقع پر امریکی شہری پاپولر ووٹ کے ذریعے امریکی الیکٹرل کالج کے ارکان کا چنائو کرتے ہیں اور پھر یہ ارکان براہ راست امریکی صدر اور نائب صدرکو چنتے ہیں۔نیا امریکی صدر اگلے سال بیس جنوری کو اقتدار سنبھالتا ہے ۔ صدارتی الیکشن کے ساتھ ہی دیگر وفاقی ، ریاستی اور مقامی انتخابات بھی ہوتے ہیں۔

امریکی انتخابی عمل وفاقی اور ریاستی قوانین کے مطابق چلتا ہے۔ ہر ریاست کے الیکٹرل کالج کے انتخاب کنندگان کی ایک تعداد مختص ہوتی ہے جبکہ واشنگٹن ڈی سی کو اتنے ہی انتخاب کنندگان الاٹ کیے جاتے ہیں جتنے کہ سب سے چھوٹی ریاست کے لیے مختص ہوتے ہیں۔امریکی علاقہ جات کو الیکٹرل کالج میں کوئی نمائندگی نہیں دی جاتی۔امریکی کانگریس کے ایوان نمائندگان میں نشستوں کی کل تعداد 435 ہے جبکہ سینٹ میں 100 ہے جبکہ ڈی سی ایریا کی تین نشستیں ہیں۔اس طرح ٹوٹل 538 سیٹیں ہیںلہذا الیکٹرز یا حلقہ انتخاب کنندگان کی تعداد بھی 538 ہوتی ہے جو آگے چل کر صدر اور نائب صدر کاچنائو کرتے ہیں۔

امریکی آئین کے مطابق ہر ریاستی قانون ساز کے لیے انتخاب کنندگان کو چننے کا مخصوص طریقہ ہوتا ہے۔چنانچہ الیکشن ڈے کے موقع پر براہ راست وفاقی حکومت کے بجائے مختلف ریاستوں کی جانب سے پاپولر ووٹ کاانعقاد کیا جاتا ہے۔منتخب ہونے کے بعد انتخاب کنندگان اپنی مرضی سے کسی بھی صدارتی اور نائب صدارتی امیدوار کو ووٹ دے سکتے ہیں لیکن عام طورپر وہ اپنی پارٹی کے نامزد کردہ امیدوار کو ہی ووٹ دیتے ہیں جس کی تصدیق بعدازاں اوائل جنوری میں کانگریس کی جانب سے کی جاتی ہے جو انتخاب کنندگان کے لیے حتمی جج کا درجہ رکھتی ہے۔بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ الیکٹرز بے وفائی کا ارتکاب کرتے ہوئے اپنی مخالف پارٹی کے امیدواروں کو ووٹ دیں۔

روس میں الیکشن

روس میں باقاعدہ الیکشنز کا سلسلہ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد جاکر شروع ہوا تاہم یہ اب بھی دیگر ممالک سے خاصا مختلف اور پیچیدہ ہے۔روس میں وفاقی طرز حکومت ہے جہاں روسی صدر سربراہ ریاست اور قانون ساز بھی ہوتا ہے۔روس کی وفاقی اسمبلی یا پارلیمنٹ کے دو ایوان ہیں۔صدر کو عوام کی جانب سے چھ سال کی مسلسل دو مدتوں کے لیے منتخب کیا جا سکتا ہے۔یہ مدت 2008 تک چار سال تھی جو اب چھ سال کی جاچکی ہے۔وفاقی اسمبلی کے دوایوانوں میں سے ایک اسٹیٹ ڈوما اور دوسرا وفاقی کونسل ہے۔اسٹیٹ ڈوما کے ارکان کی تعداد ساڑھے چار سو ہے جنہیں متناسب نمائندگی کی بنیاد پر پانچ سال کی مدت کے لیے منتخب کیا جاتا ہے۔ وفاقی کونسل کا انتخاب براہ راست نہیں ہوتا بلکہ 83وفاقی فاعلین کی جانب سے ہر فاعل کی جانب سے دو دو ڈیلی گیٹس کو بھیجا جاتا ہے اور یوں مجموعی طور پر اس کے 166ارکان ہوتے ہیں۔

1990 ء سے لے کر اب تک روس میں صدر کے عہدے کے لیے 6 انتخابات اور پارلیمنٹ کے لیے سات انتخابات ہوچکے ہیں۔سوویت یونین کے خاتمے سے لے کر اب تک روس میں تین صدور عہدہ صدارت پر متمکن ہوچکے ہیں۔ ان میں بورس یلسن 1991-1996 تک ، ولادی میر پوٹن 2000-2004 اور پھر 2012 جبکہ دمتری میدویدوف 2008 میں صدر رہے۔ان کے مقابلے پر ان انتخابات میں کمیونسٹ پارٹی کے امیدوار تھے جو دوسرے نمبر رہے ۔ ان میں نکولائی رزکوف ، گناڈی یوگانوف اور نکولائی کاریتونوف شامل ہیں۔صرف 1996 کے الیکشن تھے جن میں کوئی تیسرا امیدوار بھی سامنے تھا۔ یہ الیگزینڈر لیبڈ تھے جنہوں نے صرف دس فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔

روس کے پارلیمانی انتخابات میں 1995ء اور 1999ء کے الیکشنوں میں کمیونسٹ پارٹی سب سے بڑی پارٹی رہی جس نے بالترتیب پینتیس اور چوبیس فیصد ووٹ حاصل کیے۔لبرل ڈیموکریٹک پارٹی نے پانچ سے پندرہ فیصد جبکہ یابلوکو نے مختلف الیکشنز میں دس سے پندرہ فیصد ووٹ حاصل کیے۔اس طرح دیگر پارٹیوں Russia’s Choice کے علاوہ Our Home is Russia ، یونٹی پارٹی آف رشیا ، فادر لینڈ آل رشیا ، People’s Deputies Faction ، یونائٹڈ رشیا اور دیگر پارٹیوں نے مختلف شرح سے ووٹ حاصل کیے۔

فرانس میں الیکشن کا طریقہ

فرانس میں نمائندہ جمہوریت کا نظام ہے۔فرانس میں مقننہ اور انتظامیہ کی شاخوں کے لیے عہدیداروں کا انتخاب براہ راست یا بالواسطہ طورپر شہر یوں کی جانب سے کیا جاتا ہے یا ان کو منتخب شدہ عہدیداروں کی جانب سے نامزد کیا جاتا ہے۔ فرانس میں مختلف مسائل خاص طورپر آئین میں ترمیم کے سلسلے میں ریفرنڈم کے ذریعے عوام کی رائے بھی لی جاتی ہے۔

فرانس میں سربراہ ریاست اور قانون ساز کا انتخاب قومی سطح پر کیا جاتا ہے۔ صدر کا انتخاب پانچ سالہ مدت کے لیے شہریوں کی جانب سے براہ راست ہوتا ہے۔فرانسیسی پارلیمنٹ کے دو ایوان ہیں جن میں قومی اسمبلی کے ارکان کی تعداد 577 ہے جنہیں شہریوں کی جانب سے پانچ سال کی مدت کے لیے براہ راست چنا جاتا ہے۔اس طرح ایوان بالا سینیٹ کے ارکان کی تعداد 348 ہے جن میں 328 کو ایک الیکٹرل کالج کے ذریعے چھ سال کی مدت کے لیے چنا جاتا ہے جبکہ دیگر بیس ارکان کو دیگر مختلف اداروں بشمول بیرون ملک مقیم فرانسیسیوں کی تنظیم French Assembly of French Citizens Abroad کی جانب سے چنا جاتا ہے۔

مزید براں ، فرانسیسی شہری کئی طرح کی مقامی حکومتوں کو بھی منتخب کرتے ہیں۔اس کے علاوہ بعض غیر سیاسی عہدوں کے لیے بھی سرکاری الیکشن ہوتے ہیں جیسے کہ مختلف عدالتوں کے ججوں کی تعیناتی کے لیے الیکشن وغیرہ۔ جن میں ورکر اور ملازمین ووٹ دیتے ہیں۔

فرانس میں مکمل طورپر دوجماعتی نظام نہیں ہے بلکہ فرانس کا نظام ایسا ہے کہ اس میں اگرچہ کئی سیاسی پارٹیاں موجود ہیں لیکن ان میں سے دو سیاسی پارٹیاں ہی حقیقت میں اصل طاقت رکھتی ہیں۔ان میں بائیں بازو کی پارٹی دی سوشلسٹ پارٹی اور دائیں بازو کی پارٹی یو ایم پی ہے۔الیکشن آئین میں دیے گئے قواعد وضوابط اور انتخابی قواعد کے مطابق ہوتے ہیں۔

فرانس میں الیکشن ہمیشہ اتوار کو ہوتے ہیں۔انتخابی مہم الیکشن سے پہلے جمعے کے روز ختم ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد کسی قسم کا انتخابی اشتہار یا براڈ کاسٹ نہیں ہو سکتی۔ پولنگ اسٹیشن چھوٹے قصبوں میں صبح آٹھ بجے سے لے کر شام چھ بجے تک کھلے رہتے ہیں جبکہ شہروں میں صبح آٹھ بجے سے لیکر رات آٹھ بجے تک کھلے رہتے ہیں۔اگرچہ قانون کے تحت مقررہ وقت سے پہلے الیکشن کے نتائج شائع یا ان علان کرنا ممنوع ہے لیکن بیلجیئم اور سوئیٹرزلینڈ کے میڈیا کے ذریعے یا غیرملکی انٹرنیٹ سائٹس پر ان کے نتائج معلوم کیے جاسکتے ہیں۔

بھارت میں الیکشن کا نظام

ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں وفاقی طرز حکومت ہے جس میں وفاقی ، ریاستی اور مقامی سطح پر عہدیدار منتخب شدہ ہوتے ہیں۔ قومی سطح پر حکومت کا سربراہ وزیراعظم کہلاتا ہے جسے انڈین پارلیمنٹ کے ایوان زیریں لوک سبھا (قومی اسمبلی) کی جانب سے چنا جاتا ہے۔ لوک سبھا کے دو ارکان کے سوا تمام ارکان براہ راست عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوتے ہیں۔ بھارت کے آئین کے مطابق ہر پانچ سال بعد الیکشن ہوتے ہیں اور تمام بالغ افراد کو حق رائے دہی حاصل ہوتا ہے۔ اس طرح بھارتی پارلیمنٹ کا ایوان بالا راجیہ سبھا (سینیٹ) کہلاتا ہے جنہیں ریاستی اسمبلیوں کے ارکان اور انڈین علاقہ جات کے الیکٹرل کالج کی جانب سے منتخب کیا جاتا ہے۔

بھارت آبادی کے اعتبار سے دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے اوراس کے ووٹروں کی تعداد 70 کروڑ سے زیادہ ہے جو کہ یورپی یونین اور ریاست ہائے متحدہ کے مجموعی ووٹروں سے بھی زیادہ ہے۔ 1989کے بعد سے بھارت کے الیکشن کے اخراجات تین گنا بڑھ کر تیس کروڑ ڈالر تک پہنچ چکے ہیں جن میں دس لاکھ سے زائد الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔

بھارت میں ووٹروں کی تعداد بہت زیادہ ہونے کے باعث الیکشن کئی مراحل میں منعقد ہوتے ہیں۔مثال کے طورپر 2004ء کے الیکشن میں کل چار مراحل تھے جبکہ 2009ء کے الیکشن پانچ مراحل میں مکمل ہوئے تھے۔ الیکشن کے سلسلے میں الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کیا جاتا ہے اور اس کے بعد امیدواروں کی فہرست کا اعلان ہوتا ہے۔اس میں الیکشن کے انعقاد سے لے کر ان کے نتائج اور کامیاب ہونے والوں کا اعلان بھی شامل ہے۔الیکشن کے سلسلے میں تمام سیاسی پارٹیوں کے لیے ایک ضابطہ اخلاق جاری کیاجاتا ہے جس کی پیروی تمام پارٹیوں پر لازم ہوتی ہے۔حتمی نتائج کے اعلان کے ساتھ الیکشن اختتام پذیر ہوجاتے ہیں اور نئی حکومت تشکیل دینے کا مرحلہ شروع ہوجاتا ہے۔

جیسا کہ اوپر بتایاگیا کہ بھارتی پارلیمنٹ سربراہ مملکت یعنی صدر اور قانون سازی کے دو ایوانوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ صدر کا انتخاب پانچ سال کی مدت کے لیے ہوتا ہے اور یہ انتخاب وفاقی اور ریاستی اسمبلیوں پر مشتمل حلقہ انتخاب کی جانب سے کیا جاتا ہے۔ بھارت کی قومی اسمبلی لوک سبھا کہلاتی ہے جس کے ارکان کی تعداد 545 ہے جن میں 543 ارکان کو عوام کی جانب سے براہ راست پانچ سال کے لیے منتخب کیا جاتا ہے جبکہ دو ارکان کو صدر نامزد کرتا ہے جو اینگلو انڈین کمیونٹی کی نمائندگی کرتے ہیں۔

اس طرح بھارت کے سینیٹ یعنی راجبہ سبھا کے ارکان کی تعداد 245 ہے جن میں سے 233 ارکان کو چھ سال کی مدت کے لیے چنا جاتا ہے جن میں ایک تہائی ارکان ہر دوسال بعد ریٹائرہوجاتے ہیں۔ان ارکان کا انتخاب بالواسطہ کیا جاتا ہے جن کے لیے ریاستی اسمبلیاں اور وفاقی علاقہ جات کے قانون ساز ووٹ دیتے ہیں۔ان ارکان کا انتخاب ’’واحد قابل تبادلہ ووٹ‘‘ کے ذریعے متناسب نمائندگی کی بنیاد پر ہوتا ہے ۔ دیگر بارہ ارکان کو معاشرے کے لیے ان کی خدمات کے ا عزاز میں سینیٹ کی رکنیت سے نوازا جاتا ہے جن میں مشہور فنکار ، اداکار ، سائنس دان ، قانون دان ، کھلاڑی ، تاجر ، صحافی یا عام لوگ شامل ہیں۔

جرمنی میں الیکشن کا طریقہ کار

جرمنی میں وفاقی سطح پرمقننہ کا انتخاب کیاجاتا ہے۔پارلیمنٹ کا ایک ہی ایوان ہوتا ہے جسے بنڈسٹیگ Bundestag کہا جاتا ہے جو کہ وفاقی اسمبلی ہے۔ بنڈسراٹ Bundesrat وفاقی کونسل ہے جو کہ علاقوں کی نمائندگی کرتی ہے اور پارلیمنٹ کا ایوان نہیں سمجھی جاتی کیونکہ اس کے ارکان کاانتخاب نہیں ہوتا۔ وفاقی اسمبلی یا بنڈ سٹیگ کے ارکان کی تعداد 598 ہے جو کہ چار سال کی مدت کے لیے منتخب ہوتے ہیں۔ان میں سے نصف 299 ارکان یک رکنی حلقہ جات سے منتخب ہوتے ہیں جبکہ باقی نصف ارکان متناسب نمائندگی کے تحت انتخاب میں آتے ہیں۔ رائے دہندگان پہلے تو حلقہ جات کی نمائندگی کرنیوالوں کو ووٹ دیتے ہیں اور دوسری مرتبہ کسی پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں۔جرمنی میں صدر کا عہدہ نمائشی ہے جبکہ حکومت کا اصل سربراہ چانسلر کہلاتا ہے۔

جرمنی میں کثیر الجماعتی نظام ہے جس میں دو طاقتور پارٹیوں کے علاوہ کچھ دیگر پارٹیاں بھی وفاقی اسمبلی میں عوام کی نمائندگی کرتی ہیں۔1990 سے لے کر اب تک کُل پانچ پارٹیاں وفاقی اسمبلی میں عوام کی نمائندگی کرچکی ہیں۔الیکشن ہر چار سال بعد ہوتے ہیں۔حتمی تاریخ کا اعلان صدرکرتا ہے اور یہ اتوار یا عوامی تعطیل کا دن ہوتا ہے۔اٹھارہ سال اور اس سے زائد عمر کے شہری ووٹ دینے کے حقدار ہیں۔الیکشن میں حصہ لینے کے لیے بھی عمر کی حد یہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔