جانے والوں کی یاد میں

نسیم انجم  اتوار 31 مارچ 2013
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

سال نو کے شروع ہوتے ہی فکروفن اور علم و ادب کے حوالے سے نابغہ روزگار شخصیات داغ مفارقت دے گئیں ان کی جدائی نے جو خلا پیدا کیا ہے اس کا بھرنا فی الحال تو بے حد مشکل نظر آتا ہے۔ جن لوگوں کے جانے کی عمر تھی، انھیں تو جانا ہی تھا لیکن جن کی رخصتی وقت سے پہلے ہوئی ان کے بچھڑنے کے غم نے شدت اختیار کرلی۔ ڈاکٹر محمد علی صدیقی چند دنوں کی علالت کے بعد رخصت ہوگئے، گرامی صاحب بھی اچانک ہی دنیا کے آب و گل سے سوئے عدم روانہ ہوئے، قیصر سلیم بھی کئی سال بیمار رہے اور آخر اپنے ربّ سے جا ملے۔ قیصر سلیم کئی یادگار اور شاندار ناولوں کے مصنف و مترجم تھے۔

انھوں نے ’’افسانہ‘‘ کے عنوان سے ایک پرچہ بھی نکالا تھا، ترجمہ نگاری میں بھی انھوں نے کمال حاصل کیا تھا۔ ان کی تقریباً 25 کتابیں شایع ہوچکی ہیں۔ افسانوی مجموعہ ’’رات گزرگئی جاناں‘‘ کے عنوان سے شایع ہوچکا تھا، سیاست پر بھی ان کی گہری نظر تھی وہ ایک فعال قلمکار تھے۔ ڈاکٹر محمد علی صدیقی کی تنقید نگاری سے اہل علم و ادب اچھی طرح واقف ہیں ان کا شمار اہم نقادوں میں ہوتا ہے۔ تنقید کے اعتبار سے کئی کتابیں اشاعت کے مرحلے سے گزریں اور داد و تحسین حاصل کی ان کی علمیت و ادبیت کے ڈنکے دور دور تک سنے جاتے تھے وہ ایک مستند قلمکار تھے۔ ان کی عظمت کے گن ہر وہ شخص گاتا ہے جس کا قلم سے رشتہ ہے۔ گلوکارہ مہ ناز کے بھی مرنے کے دن نہ تھے، لیکن شدید علالت کے باعث وہ اپنے مداحوں اور عزیزواقارب کو روتا چھوڑ کر چلی گئیں۔ وہ بہت اچھی انسان اور بڑی گلوکارہ تھیں۔

ابھی ان حضرات کا غم تازہ ہی تھا کہ بالکل اچانک یہ خبر سننے کو ملی کہ زیب اذکار کے چھوٹے بھائی اسرار شاکی (اسرار حسین) ہم سب سے روٹھ کر دور بہت دور اس جگہ چلے گئے جہاں سے واپس کوئی نہیں آتا۔ یہ تو مجھے معلوم تھا کہ اسرار حسین کئی ماہ سے بستر علالت پر ہیں اور علاج جاری ہے، لیکن بات فنا تک پہنچے گی، اس بارے میں مجھے کبھی خیال نہ آیا۔ شاید اسی لیے دھچکا شدید قسم کا لگا۔ زیب اذکار حسین اور اسرار حسین سے مجھے بھائیوں جیسی محبت اور عقیدت تھی اور ہے، زیب اذکار اور ان کے اہل خانہ کو اﷲ سلامت رکھے، آمین۔ لیکن اسرار شاکی کا اتنی جلدی چلے جانا بالکل بھی اچھا نہ لگا۔ ویسے بھی ’’موت‘‘ کا لفظ دکھ اور غم میں ہی مبتلا کرتا ہے۔

اسرار حسین کا مختصر سا تعارف کراتی چلوں، اسرار حسین اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے، انھوں نے صحافت میں ڈبل ایم اے اور اردو میں ایم اے کیا ہوا تھا۔ بزم علم و دانش کے جنرل سیکریٹری کے فرائض بھی انجام دیے، یہ ایک ادبی تنظیم تھی، 1986 کی تاریخی کانفرنس میں مسلم شمیم، محمد علی صدیقی، زاہدہ حنا، مظہر جمیل جیسے بڑے قلمکاروں کے ساتھ مل کر کام کیا۔ انگریزی اخبارات میں بھی اعلیٰ عہدوں پر فائز رہ چکے تھے، ہفتہ وار رسالے کے ایڈیٹر انچارج کی حیثیت سے اپنے فرائض سنبھالے رہے۔ بہت سی ادبی انجمنوں سے تعلق رہا جس میں عوامی ادبی انجمن میں زیادہ فعال رہے۔

اسرار حسین نے ایک نئی تنظیم دوست احباب کے ساتھ مل کر بنائی تھی جس کا نام تھا ’’مماثلات‘‘۔ یہ نام اسرار حسین نے ہی تجویز کیا تھا۔ اسرار حسین صحافی ہی نہیں تھے بلکہ بہت اچھے شاعر بھی تھے، ان کے مزاج میں انکساری و عاجزی کوٹ کوٹ کر بھری تھی، ان کی شاعری سننے کے لیے ان سے بار بار درخواست کرنا پڑتی تھی، تب کہیں وہ شعر و سخن کی رونمائی بے حد دلنشیں انداز میں کرتے، ان کے اشعار میں مثبت سوچ اور تخیل کی بلندی پنہاں تھی، اسرار حسین یقیناً قادرالکلام شاعر تھے۔

اسرار حسین کے انتقال کے کئی روز بعد آرٹس کونسل نے یاد صدیقی اور اسرار حسین کے لیے تعزیتی ریفرنس کا انعقاد کیا۔ آرٹس کونسل کی یہ ریت رہی ہے کہ وہ اپنے ممبران کے دکھ سکھ کے لیے ادبی و تعزیتی محافل کا نہ صرف اہتمام کرتی ہے بلکہ پیغام رسانی کے ذریعے یعنی SMS کے ذریعے بار بار یاد دہانی کراتی ہے کہ آج تقریب رونمائی ہے یا تعزیاتی اجلاس ہے یا اپنوں کی یاد میں دیے روشن کیے جائیں گے، وغیرہ وغیرہ۔ لیکن یہ بات بھی قابل غور ہے کہ سب کے ساتھ یکساں سلوک ہرگز نہیں ہوتا ہے دوسرے اداروں کی طرح ادھر بھی اپنے ہی لوگوں پر خصوصی نظر کی جاتی ہے۔ اس قسم کے گلے شکوے عام طور پر سننے میں آتے ہیں۔

بہرحال! اطلاع عام کی تشہیر بہت اچھے طریقے سے کی جاتی ہے۔ یاد صدیقی کو میں نہیں جانتی ہوں بلکہ اکثریت کا یہی خیال تھا کہ وہ ناواقف ہیں، شاید تقریبات کے مواقعوں پر دیکھا ہو لیکن ذہن کے پردے پر ان کی تصویر کوشش کے باوجود نمایاں نہ ہوسکی، لیکن یاد صدیقی کی شخصیت بقول احمد شاہ کے آرٹس کونسل کے امور خاص کے حوالے سے بے حد اہمیت کی حامل تھی، وہ احمد شاہ کے دست راست تھے، ہر کام، ہر مشکل گھڑی، صبر آزما لمحوں میں وہ مشورے دیتے، اچھا برا سمجھاتے اور وہ جو کچھ کہتے اور مسائل کے حل کی تجاویز بتاتے وہ کام سب کے لیے بہتر ہوتے۔ گویا ان کی موجودگی احمد شاہ، یامین اختر، سحر انصاری کے لیے تقویت کا باعث تھی۔ احمد شاہ نے اپنی تقریر کے دوران مزید کہا کہ یاد صدیقی کا ہم سے بچھڑ جانا ادب کا بڑا نقصان ہے وہ ایک اچھے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ عظیم انسان بھی تھے۔

ان کے اشعار میں زمانے کے دکھ واضح دکھائی دیتے تھے جب کہ اسرار حسین اپنی نظموں میں معاشرے کے مسائل بیان کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ اس موقع پر یامین اختر نے دکھ کے ساتھ کہا کہ ہم دونوں ہی اسٹیشن پر کھڑے تھے لیکن گاڑی پہلے یاد صدیقی کی آگئی اور میں کھڑا رہ گیا۔ وہ اپنے دیرینہ دوست یاد صدیقی کی موت سے بہت دلبرداشتہ تھے۔ سحر انصاری نے بھی اپنے دکھ کا اظہار کیا۔ فاضل جمیلی، فراست رضوی، صابر ظفر، زیب اذکار اور دوسرے کئی لوگوں نے اظہار خیال کیا اور مرحومین کے لیے دعائے مغفرت کی اور ان کے کاموں اور کارناموں پر روشنی ڈالی۔ سچ ہے مرنے والے تو دور افق کے پار چلے جاتے ہیں اور اپنے چاہنے والوں کے لیے دکھوں کی ایک فصل بوجاتے ہیں اس فصل میں ہجروکرب کے بیل بوٹے اگتے رہتے ہیں جو جانے والوں کی یاد دلاتے ہیں۔

لیکن یاد بھی وہی لوگ آتے ہیں جو صاحب کردار، خوش اخلاق ہوتے ہیں، دوسروں سے محبت اور عزت کرنا جانتے ہیں، ایسے ہی لوگوں کو زمانہ یاد کرتا ہے، پرستش کرتا ہے، بے شک انسان کو اعلیٰ کردار ہی اعلیٰ منصب عطا کرتا ہے، جھکتی وہی شاخیں ہیں جن پر رنگ برنگے پھل اور پھول موجود ہوتے ہیں، ورنہ تو فی زمانہ ایسے بھی لوگوں کی کمی نہیں ہے جو اپنے ہی ہم منصب ساتھیوں اور دوستوں کا ہر لمحہ برا ہی چاہتے ہیں، کسی کو آگے بڑھتا نہیں دیکھ سکتے نہ زبان سے اچھی بات کہہ سکتے ہیں اور نہ اپنے عمل سے کسی کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں ان کی مثال ’’مکھی‘‘ کی طرح ہوتی ہے ’’چپ بیٹھے گی زخم پر ‘‘۔ بعدازمرگ بھی ان کی اہمیت خس و خاشاک سے کمتر ہوتی ہے۔

موت برحق ہے، ہر کسی کو اس دنیا کے میلے کو خیرباد کہنا ہے اور اپنے اعمال کے ساتھ اﷲ کے روبرو حاضر ہونا ہے۔ اچھا انسان وہی ہے جو اپنی ذات سے اپنے عمل سے کسی کو ہرگز ہرگز نقصان نہیں پہنچاتا ہے۔ اسرار حسین بہت سی خوبیوں سے مزین تھے کم بولتے، لیکن اچھا بولتے، لوگوں کے بارے میں درست اندازے لگانے میں وہ ماہر تھے۔ انھوں نے شاعری کے ساتھ ساتھ افسانے بھی لکھے اور تنقیدی مضامین بھی، ان کی تخلیقی صلاحیتوں میں تنقیدی بصیرت بھی شامل تھی۔ احساس کی لو اور افکار کے پیچ و خم نے اسرار شاکی کی شاعری کو ایک نئی حرارت اور بانکپن عطا فرمایا تھا۔ وہ چلے گئے لیکن اپنے دوست احباب کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ میری دعا ہے کہ اﷲ رب العزت مرحومین کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے اور ان کے لواحقین کو صبرجمیل کی دولت سے مالا مال کردے (آمین!)۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔