مشورے کی اہمیت

شاہد سردار  منگل 20 فروری 2018

یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ دنیا میں بسنے والے انسان عقل و فکر اور غور و تدبر کی صفات میں یکساں صلاحیتوں کے حامل نہیں ہوتے اور انسانی صلاحیتیں حالات و واقعات، گرد و پیش کے ماحول اور انسانی طبیعت و مزاج کے اختلاف کی وجہ سے مختلف ہوتی ہیں۔ اسی طرح کسی مسئلے، کسی بات کے مختلف پہلوؤں تک بھی تمام افراد کی رسائی نہیں ہوتی، اس لیے اس معاملے میں کسی ایک ذہین یا ایک ساتھ کئی فاضل لوگوں کی ذہنی صلاحیتوں سے استفادہ کیا جاتا ہے۔

اس روئے زمین پر کوئی بھی ایسا نہیں ہوسکتا جو مشورے کی اہمیت اور افادیت سے انکار کرے۔ اسی لیے دنیا کے تمام علمی طبقے اور دانشور انسانی زندگی کی ابتدا ہی سے مشورے کی اہمیت کے قائل ہیں اور قرآن و حدیث میں بھی مشورے کی اہمیت پر پورا زور دیا گیا ہے۔

ہرکس و ناکس سے مشورہ نہ لینا، بلکہ متعلقہ مسئلے میں روشن ضمیر، عالمی دماغ اور صاحب بصیرت افراد سے ہی مشورہ لینے کو مشورے کے آداب میں شامل کیا گیا ہے ۔ اجتماعی امور میں مشورہ دیتے وقت اجتماعی مفاد سامنے رکھنے کی بھی تاکید دانا لوگ کرتے ہیں اور ذاتی مفاد سے اجتناب کا مشورہ بھی اس لیے دیا جاتا ہے، الغرض یہ کہ مشورہ کرنے کے بے شمار فوائد ہیں۔

حضرت علی کا شہرہ آفاق قول بھی اس بات کا غماز ہے کہ یہ نہ دیکھ کہ کون کہہ رہا ہے بلکہ یہ دیکھ کہ کیا کہہ رہا ہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ کوئی نہ ملے تو دیوار سے مشورہ کرلینا چاہیے۔ آج کے دور میں ہم اپنے معاشرے پر نگاہ کریں تو پتا چلتا ہے کہ اکثر اولاد اپنے والدین یا بڑوں سے مشورہ نہیں کرتی، الٹے سیدھے کام کرتی ہے خاص طور پرکاروبار تک میں مشورہ نہیں کرتی اور نقصان اٹھاتی ہے۔

عام طور پر حکمرانوں کے مشیر عالم فاضل ہی ہوتے ہیں (یہ الگ بات ہے کہ حکمرانوں کی اکثریت ان کے مشوروں سے اجتناب ہی کرتی ہے، نتیجے میں عوام اور مملکت دونوں کا یکساں طور پر نقصان ہوتا ہے) ہماری ملکی تاریخ اس قسم کے حالات اور واقعات سے بھری پڑی ہے جس میں یا تو مشورے کی ضرورت کو قطعی خاطر میں نہیں لایا گیا اور اگر لایا بھی گیا تو اس پر خاطر خواہ عملدرآمد نہیں ہوسکا۔

دنیا بھر میں یہ عام معمول ہے کہ جمہوری حکومتیں کوئی بھی معاشی فیصلہ کرنے سے پہلے کم آمدنی والے غریب طبقے پر اس کے اثرات کا جائزہ لیتی ہیں اور ایسے اقدامات سے گریز کرتی ہیں جن سے معاشرے کے پہلے سے پسے ہوئے لوگوں کی مشکلات بڑھ سکتی ہوں۔

پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں ایک تہائی سے زائد آبادی خط افلاس سے نیچے عسرت کی زندگی گزار رہی ہے۔ اس کے لیے دوسری سہولتیں تو دورکی بات ہے دو وقت کی روٹی کا حصول بھی جان جوکھوں کا کام ہے۔ جب زمینی حقائق یہ ہوں تو ایسا کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے سو بار سوچنا چاہیے جس کے نتیجے میں مہنگائی کا طوفان آجائے لیکن ہماری حکومتیں ہمیشہ سے اپنے مشیران سے یا تو اس سلسلے میں کبھی رجوع ہی نہیں ہوتیں یا ان کے مشورے کو پس پشت ڈالتی رہی ہیں۔

حال ہی میں ہماری حکومت نے اچانک پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا بم گرا کر عوام، خصوصاً نادار طبقے کی مشکلات بڑھادی ہیں۔ سابق وزیر خزانہ کی سبکدوشی کے بعد وزارت خزانہ کے نئے وزیر مملکت اور مشیر بھی آگئے ہیں، بہتر ہوتا کہ نئے سرے سے معاشی منصوبہ بندی کی جاتی، نئی پالیسیوں کا اعلان کیا جاتا اور عوام کو اعتماد میں لیا جاتا۔ یہ تکلیف دہ سچائی ہے کہ موجودہ حکومت نے اپنے ساڑھے چار سال سے زیادہ اقتدار میں پٹرولیم مصنوعات کے اتار چڑھاؤ سے تین سو ارب روپے سے زائد کا منافع کمایا ہے۔

ہمارے ہاں کا اگر کوئی عام انسان کسی قانونی مسئلے سے دوچار ہوجائے تو اسے قانونی مشیر (وکیل) کرنے کی بڑی بھاری فیس ادا کرنی پڑتی ہے جب کہ اکثریت تو پیسے نہ ہونے کی بنا پر انصاف کی دہلیز تک نہیں پہنچ پاتی۔ قانونی مشیر یا وکلا عام طور پر فیصلہ سازی میں برسوں لگا دیتے ہیں لیکن لوگوں کو انصاف میسر نہیں آتا۔ کس قدر دکھ کی بات ہے کہ پاکستان کی عدالتوں میں 18 لاکھ مقدمات زیرالتوا ہیں۔

عدالت عظمیٰ میں 38 ہزار 71، اسلام آباد ہائی کورٹ میں 16 ہزار 244 مقدمات کا فیصلہ باقی ہے، لاہور میں ڈیڑھ لاکھ، سندھ میں 93 ہزار پشاور میں 29 ہزار اور بلوچستان میں 6 ہزار زیر التوا مقدمات ہیں ۔ ستم بالائے ستم وکلا کی ہڑتالوں کے باعث سال گزشتہ میں 22 لاکھ کے قریب مقدمات کی سماعت اور 2 لاکھ 40 ہزار مقدمات کے فیصلے نہ ہوسکے۔ پورے پنجاب میں ججوں کی مجموعی تعداد 1771 ہے جب کہ ترقی یافتہ ملکوں کے معیار کو پیش نظر رکھا جائے تو صوبے میں 10 ہزار سے زیادہ ججوں کی ضرورت ہے۔

کسی بھی معاشرے کی بقا و سلامتی کے لیے ارزاں اور جلد انصاف کی اہمیت کم ازکم ماہرین قانون کے لیے محتاج بیان نہیں۔ نظام انصاف میں وکلا ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ حق تلفی کا شکار ہونے والے انھی کے توسط سے عدالتوں سے انصاف کے طالب ہوتے ہیں، عدالتیں وکلا کے پیش کردہ دلائل کی بنیاد ہی پر فیصلے کرتی ہیں، لہٰذا آئے دن کی ہڑتالوں کے ذریعے وکلا ہی کا فراہمی انصاف میں تاخیر کا سبب بن جانا بلاشبہ ایک سنجیدہ لمحہ فکریہ ہے وکالت نہایت معزز پیشہ ہے جو مظلوموں کی حق تلفیوں کے ازالے کے ذریعے معاشرے کو سکھ چین عطا کرتا اور نفرت و انتقام کی روک تھام کرتا ہے۔

وکلا کا انصاف میں تاخیر کا سبب بننا درحقیقت اپنے موکلوں کے ساتھ ظلم ہے جو انھیں جلد اور بے لاگ انصاف ملنے کی امید پر بھاری فیسیں دیتے ہیں۔ ججوں کی تعداد میں اضافہ تو بتدریج ہی ہوسکتا ہے لیکن وکلا غیر ضروری ہڑتالوں سے گریزکا تہیہ کرلیں تو فراہمی انصاف میں تاخیر کی ایک بڑی وجہ فوری طور پر ختم ہوسکتی ہے لہٰذا ملک بھر میں وکلا تنظیموں کو اس بارے میں فوری اور مثبت فیصلہ سازی کرنی چاہیے۔

ہماری دانست میں اگر وکلا برادری اپنی فیسوں سے زیادہ آپس میں اپنے قانونی مشیران یا شعبہ قانون کے ماہرین سے صلاح مشورے میں اپنا دھیان لگائیں تو اس سے نہ صرف مقدمات کے مقدر کا فیصلہ جلد اور خوشگوار ہوسکتا ہے بلکہ ملک بھر میں اس طریقے کے استعمال سے التوا میں پڑے مقدمات کو جلدازجلد اپنے انجام تک پہنچایا جاسکتا ہے لیکن اس کے لیے صرف وکلا کو ہی نہیں بلکہ فاضل ججوں کو بھی اپنا کردار احسن طریقے سے ادا کرنا ہوگا۔ ایسا کرنے ہی سے عام لوگوں کو انصاف کے حصول کے لیے غیر معمولی مالی زیرباری سے بچایا جاسکتا ہے۔

ملک کے ہر شہری کی انصاف تک رسائی ممکن بنانے کی ضرورتوں میں سے ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ ظلم کا شکار ہونے والے فرد کو اپنی دادرسی کے لیے مالی زیرباری کا سامنا نہ کرنا پڑے بلکہ اس کے اخراجات ریاست برداشت کرے۔ اگر ایسا ممکن نہ ہوسکے تو حصول انصاف کا عمل اتنے کم خرچ کے اندر، اتنے سادہ طریقے سے اور اتنے کم وقت میں یقینی بنانا ضروری ہے کہ غریب آدمی کی ہمت جواب نہ دے سکے۔

عدالتی اصلاحات سے تعلق رکھنے والے کئی پہلوؤں پر حکومتی حلقوں میں صلاح مشورے یا غوروخوض کی اطلاعات اس اعتبار سے یقینا اچھی ہیں کہ معاشرے کی ارتقائی تبدیلیاں ہر شعبے سے متعلق قوانین اور ضابطوں میں اصلاح و تبدیلی کی متقاضی ہوتی ہیں اور مقننہ کا اصل کام یہی ہے کہ وہ وقت کی ضرورتوں کے مطابق قانون سازی و پالیسی سازی کرتی رہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔