گریٹ فائٹر

سید نور اظہر جعفری  منگل 20 فروری 2018

دوست دشمن کی پہچان کے لیے ڈکشنری کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ یہ طرز عمل سے باآسانی جانا جاسکتا ہے کہ کون دوست اور کون دشمن ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بحیثیت قوم طرز عمل بھی یہ بتاتا ہے کہ یہ قوم انسانیت دوست ہے یا انسان دشمن یعنی انسانیت دشمن ماضی قریب سے تو پہلی عالمی جنگ سے لے کر اب تک دوسرے ملکوں کے معاملات میں فوجی مداخلت اور آزاد انسانوں کے علاقوں پر زبردستی قبضوں اور تشدد نے ان ملکوں کو دنیا کے سامنے عریاں کر دیا ہے مگر دنیا اقوام متحدہ کے جال میں پھنسی چڑیا ہے جو ان عیار شکاری ملکوں نے اپنے مفادات کے لیے قائم کی ہے اور ’’ویٹو‘‘ یعنی جبرکا اختیار حاصل کر رکھا ہے۔

ان میں پھر ان کے مفادات کے تحت ووٹ دینے کو دوسرے ملک ہیں جو قومی طور پر ’’ضمیر‘‘ نام کی شے سے واقف نہیں اسے کافی عرصہ پہلے انھوں نے ’’ویٹو‘‘ پاور ملکوں کو فروخت کرکے ان کے قدموں میں اپنے تاج رکھ دیے ہیں ۔ ایک اور فراڈ بین الاقوامی غیر جانبدار ملک ہیں، یہ آنکھیں بند کرلینے والے الگ قسم کے مفاد پرست لوگ ہیں اور ان کا شمار بھی آخرکار ظالموں کے ساتھ ہوگا کیونکہ انھوں نے ظلم ہوتا دیکھا اور خاموش رہے زبان بھی نہ ہلائی۔

آج کے مسلمان ملکوں اور مسلمانوں سے قطع نظر اسلام کے ماننے والے جو مسلمان تھے ان کے نظریہ اسلام کو خدا نے بہت خوبصورت اصولوں سے سجایا ہے ، صرف مرد لڑ سکتے ہیں دین کی بقا اور اس سے دشمنی کرنے اور حملہ کرنے والے سے ، جو لڑ نہیں رہا اسے قتل نہیں کرسکتے، عورتوں بچوں کو بوڑھوں کو نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ مویشیوں کو بلاوجہ ہلاک نہیں کریں گے، مکانوں کو درختوں کو، فصلوں کو تباہ نہیں کریں گے۔تاریخ میں سچے مسلمانوں کے جنگ کے واقعات موجود ہیں جن میں کم مگر کچھ اسلامی تاریخ کے بادشاہ بھی ہیں جو منصف تھے اور اس کے برعکس دوسری قوموں کی جنگیں اور تباہ کاریاں اور مفتوح قوم پر ظلم کی لرزہ خیز داستانیں موجود ہیں۔

اس وقت دنیا میں تین ظالم ملک اور ان کے ظالم حکمراں اور دو ایسے ظالم ملک ہیں جن کی حکمراں خواتین ہیں کم ازکم میانمار اور بنگلہ دیش ٹرمپ اور امریکا، بھارت اور مودی اور سارے متعصب شدت پسند انسانیت دشمن، اسرائیل اور موشے دایان سے لے کر نیتن یاہو تک کے ظالم، ان سب کے ظلم کے مددگار بھی ہیں جو حمایت میں ووٹ دیتے ہیں یا مخالفت میں ووٹ نہیں دیتے اور بدقسمتی یہ ہے کہ ان میں مسلمان ملک بھی ہیں۔

عرب اسرائیل جنگ میں بظاہر اور درپردہ کون کس کے ساتھ تھا اور بعد میں رہا اور اب تک ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں نام لینا کیا ضروری ہے، قرآن کے اشارے موجود ہیں اونچی اونچی عمارتیں تعمیرکرنے والے بھارت نے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ ستر سال سے کیا ہوا ہے دنیا خاموش ہے، اسرائیل کا خنجر اس کے قیام کی صورت مسلمانوں کے سینے میں پیوست کیا گیا اور درپردہ بہت سے ملک اپنے مفادات کے تحت خاموش رہے اسرائیل وجود میں آگیا اقوام متحدہ نے مسلمانوں کے لہو میں ڈوبا اسرائیل تسلیم کرلیا۔

قدرت درمیان میں ہے ورنہ پاکستانی حکمرانوں نے چند ایک کو چھوڑ کر کشمیر کو بھی تقسیم شدہ تسلیم کرلینا تھا مگر اللہ پاکستان اور کشمیر کی حفاظت فرما رہا ہے۔ انسانی تاریخ کا شاہد طویل ترین ظلم ہے جوکشمیری برداشت کر رہے ہیں اور ان کے نام پر ’’کشمیر کاز‘‘ کا مختص گروہ سرکاری مال ہضم کر رہا ہے اور دنیا بھر میں کشمیر کے بارے میں کوئی اچھی رائے اور حمایت حاصل کرنے کا کام نہیں ہو رہا۔ پاکستان کے لوگوں کے دل میں کشمیر اور فلسطین کے چراغ جلتے ہیں دشمنوں نے جن میں ہمارے اپنے بھی ہیں ان چراغوں کو بجھانے کی سر توڑ کوشش کی مگر منہ کی کھائی ہر بار۔

کبھی خوشگوار جھونکا ہوا کا اس طرف سے بھی آجاتا ہے جہاں ہمیشہ باد سموم چلتی ہے۔ کشمیر کے تازہ ترین ظلم اسرائیل کی ایجاد ہیں مسلمانوں کو مارنے فلسطین کو ختم کرنے کے لیے اس پر مکمل قبضے کے لیے، مودی اس کا پیروکار ہے، کشمیر میں ان مظالم کو دہرانے میں، بھارت میں مردے کو جلاتے ہیں مگر مودی کا شاید اس سے برا اور عبرتناک انجام ہوگا اس نے مسلم دشمنی کو بھارت میں سرکاری طور پر پھیلا کر غنڈے سرکاری ملازمت میں رکھ لیے ہیں اوم پوری اور ایک بھارتی فوجی جو سچ بولے وہ بھارتی اور ہندو ہونے کے باوجود ظلم سے نہ بچ سکے جو اب ہر مسلمان پر جاری ہے، بھارت اور کشمیر میں۔

مقبوضہ فلسطین جس کا نام اسرائیل ہے اس کے ظالم یہودی وزیراعظم کا بھارت میں داماد کی طرح استقبال کیا گیا، فلم انڈسٹری کے انتہائی متعصب ایکٹر جنھوں نے اپنے بیٹے کی شادی میں ایک مسلمان اداکارکو بھی نہیں مدعو کرکے سرکار کا دل جیت لیا تھا اور جن کے لیے پاکستانی مرتے ہیں نے سیلفی بنائی اس کے ساتھ اور اس میں شامل سیف علی خان کی ایکٹر بیٹی کی تصویرکوکاٹ کر فیس بک اور دوسری جگہ لگایا لوگوں نے بے حد لعن طعن کی مگر وہ اندر سے مودی ہے بلکہ بہت پہلے سے مودی ہے۔

دوسری طرف شاہ رخ خان، سلمان خان اور عامر خان نے بھارت کے دورے پر آئے ہوئے اسرائیلی وزیر اعظم کو نظرانداز کردیا۔ فلسطینی مظلوم مسلمانوں کے قتل اور جنگی جرائم میں ملوث وزیر اعظم سے ملنے سے صاف انکارکردیا۔ بالی ووڈ کے ان تین خانز کی جانب سے اسرائیلی وزیراعظم سے ملنے کے بائیکاٹ پر سوشل میڈیا پر لوگوں نے ان تینوں کو اصل ہیرو قرار دیا اور سارہ علی کو فریم سے نکالنے پر بگ بی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور انھیں متعصب قرار دیا۔

سیف علی خان کا خاندان تو قدیم بھارتی ہے اور ذہن بھی لہٰذا ان کو کچھ بھی کہنا بے کار ہے۔ اس بھارت میں جہاں مسلمان گائے کے نام پر قتل کیے جا رہے ہیں۔ مسلمان عورتوں کی آبرو ریزی ہو رہی ہے۔ دہلی کھلے عام ظلم سے زنا کا شہر بن چکا ہے وہاں لوگ مجبوراً رہتے ہیں کہ وہ کہاں جائیں ہم فلسطین اور کشمیر کے ساتھ بھارت کے مسلمانوں کے لیے بھی افسردہ ہیں۔ مگر ہماری حکومتیں عیش و طرب میں ڈوبی ہیں ۔ بھارت کے ظلم کو دنیا کو دکھانا چاہیے مگر یہ صور پھونکے جانے کا انتظار کر رہے ہیں۔

ہم اورکیا کہیں روز بھارت سرحدی علاقوں میں مسلمانوں کو جو پاکستانی علاقوں میں ہے مار رہا ہے۔ کشمیر میں مار رہا ہے۔ بھارت میں مار رہا ہے اور ہم مجھے کیوں نکالا، مجھے کیوں بلایا، اور دوسرے فضول نعروں اور سلسلوں میں مصروف ہیں عرب ممالک بھی عیش کر رہے ہیں۔

دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو احساس تک نہیں کہ کیا کر رہے ہیں ڈالر کے عوض مسلمان کا خون۔ ایسے عالم میں اپنے آپ کو مشکل میں ڈال کر دشمنی مول لے کر تین بہادروں نے مسلمان ہونے کا حق ادا کردیا اور پاکستان کے خلاف بھارت کی گود میں جانے والے غداروں کو بتا دیا کہ مسلمان جہاں بھی ہیں اگر مسلمان ہیں تو مسلمان ہیں چاہے وہ کوئی بھی ہو سلیوٹ ٹوگریٹ خانز اور سلامتی کی دعا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔