اللہ حافظ

شکیل فاروقی  منگل 20 فروری 2018
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

بڑے دکھ کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمارا معاشرہ اپنی پستی کی انتہا کو پہنچ چکا ہے جس کی بد ترین مثال معصوم بچوں کے ساتھ منہ کالا کرنے کے واقعات ہیں جو کسی ایک شہر یا صوبے تک محدود نہیں ہیں بلکہ آئے دن کہیں نہ کہیں تواتر کے ساتھ رونما ہورہے ہیں اور وہ بھی اس ملک میں جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کہلاتا ہے۔

سچ پوچھیے تو وطن عزیز میں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے جس کا سب سے بڑا سبب خوف خدا کا ختم ہوجانا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہر شخص موت کو فراموش کرکے ’’ بابر با عیش کوش کو عالم دوبارہ نیست‘‘ یا ’’کھاؤ پیو اور موج اڑاؤ‘‘ کے فلسفے پر عمل پیرا ہے۔

قانونِ قدرت ہے کہ جب کوئی معاشرہ اپنے بگاڑکی آخری حدود کو چھونے لگتا ہے تو عدل وانصاف ناپید ہوجاتا ہے جب کہ عدل و انصاف ہی کسی بھی معاشرے کی بقا، سلامتی، ترقی اور خوشحالی کا ضامن ہوتا ہے۔ ایسی صورتحال میں معاشرہ دو حصوں یا طبقات میں تقسیم ہوجاتا ہے۔ ایک حلقہ وہ جو مقتدر افراد پر مشتمل ہوتا ہے اور دوسرا وہ جو عملاً محکوم مگر عام الفاظ میں عوام کہلاتا ہے۔

نظام حکومت خواہ بادشاہی ہو یا جمہوری اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ بادشاہی نظام میں جاگیردار تختِ حکمرانی کے پائے ہوتے ہیں جب کہ نام نہاد جمہوریت کے نظام میں بڑے بڑے سرمایہ دار اور صنعت کو حکومتی تخت کے پایوں کا کردار ادا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ جمہوری حکمران مالی وسائل کے لحاظ سے مستحکم افراد کے کندھے استعمال کرکے ہی مسند اقتدار تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔ دوسرا طبقہ ان لوگوں پر مشتمل ہوتا ہے جن کے روز و شب جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے محنت و مشقت کی نذر ہوجاتے ہیں۔

روزی توکسی طور کماکھائے مچھندر

بہ ظاہر ایک طبقہ ظالم نظر آتا ہے اور دوسرا مظلوم۔ لیکن واقعتاً ایسا نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جو طبقہ ظالم نظر آ رہا ہے اس کے پاس وسائل موجود ہیں جن سے وہ بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے جب کہ دوسرا طبقہ وسائل کی عدم دستیابی کی وجہ سے سب کچھ برداشت کرنے پر مجبور ہے جو در اصل اس کی اخلاقی بلندی کی دلیل نہیں بلکہ حالات کا جبر ہے۔

کڑوا سچ یہ ہے اگر ہمارے اس بگڑے ہوئے معاشرے کے کسی قابل ذکر طبقے کے قلب و ذہن میں یہ خیال موجود ہوتا کہ انسان کے ہاتھوں انسان کا استحصال نہیں ہونا چاہیے تب بھی شاید ہمارا یہ معاشرہ زوال کی اس پست ترین سطح تک نہ پہنچتا۔ رہی بات آخرت میں سرخرو ہونے کی تو اس کی بھلا کون پرواہ کرتا ہے۔ ہر ایک کی بس یہی کوشش اور جستجو ہے کہ کسی بھی طریقے سے راتوں رات امیر بن جائیں معاملہ End justifies the means والا ہے۔ آخرت سنوارنے کی فکر تو محض چند لوگوں تک محدود ہے۔ ہماری غالب اکثریت Rat Race میں شامل ہے۔ دولت کے اس نشے نے ہمیں من حیث القوم ہمیں اندھا کردیا ہے۔

ہماری بد نصیبی اور کج روی کا عالم یہ ہے کہ ہمارے عوام کی غالب اکثریت جو بطور مظلوم طبقہ پر مشتمل ہے وہ مظلوموں کی صف سے نکل کر ظالم طبقے میں شامل ہونے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہی ہے جب کہ اقتدار پر قابض طبقہ طرح طرح کے حیلوں بہانوں اور نت نئی چالوں اور پُر فریب نعروں اور جھوٹے وعدوں کے ذریعے مسند اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط سے مضبوط تر کرنے کے لیے اپنا ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے۔ سب سے دلچسپ اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ کام دن رات جمہوریت کا مسحور کن راگ الاپ کر بڑے شاطرانہ انداز سے کیا جا رہا ہے۔

آغازِ کلام جمہوریت سے جس کا ڈھانچہ درج ذیل چار ستونوں پر استوار ہوتا ہے مقننہ انتظامیہ، عدلیہ اور میڈیا۔ مقننہ کا کام ہے قانون سازی اور انتظامیہ کی ذمے داری ہے اسے عملی جامہ پہنانا۔ انتظامیہ کے پاس چونکہ قوت نافذہ ہوتی ہے اسی لیے اسی حکومت کہاجاتا ہے عدلیہ قوانین کی تشریح کرتی ہے اور یہ فیصلہ بھی کرتی ہے کہ کوئی قانون یا اس کی کوئی شق آئین سے متصادم تو نہیں۔ اس کے علاوہ عدلیہ انتظامیہ کی ناک میں نکیل بھی ڈالتی ہے تاکہ وہ اپنے اختیارات سے تجاوز نہ کرے اور اپنے دائرۂ اختیار میں رہے۔

عدلیہ فائنل اتھارٹی ہوتی ہے جس کے فیصلے کو تسلیم کرنے کے تمام ادارے غیر مشروط طور پر قطعی پابند ہوتے ہیں اس کے فیصلے پبلک پراپرٹی ہوتے ہیں۔ عدلیہ کے فیصلوں سے اختلاف کیا جاسکتا ہے اور ان کے نقائص اور غلطیوں کی نشاندہی بھی کی جاسکتی ہے لیکن ججوں کی ذات کو ہدف تنقید بنانا جائز نہیں اور جمہوری کلچر اس کی ہرگز اجازت نہیں دیتا۔ اسی طرح ججوں کی نیت پر شک و شبہ کا اظہار کرنا بھی جمہوریت کی روح کے سراسر منافی ہے اور واقعتاً جمہوریت کی توہین ہے۔

ہمارے سیاست دان سوتے جاگتے جمہوریت کی مالا تو جپتے رہتے ہیں لیکن عدلیہ کے فیصلوں کو مانتے ہوئے ان کی بھویں تن جاتی ہیں اور ماتھے پر شکنیں پڑنے لگتی ہیں۔ آپ ہی دیکھ لیجیے کہ عدالت عظمیٰ کا حالیہ فیصلہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کو ہضم نہیں ہورہا۔ جب سے سپریم کورٹ نے انھیں آئین کی دفعہ (F) (1) 63 کے تحت نا اہل قرار دیا ہے انھوں نے اس فیصلے کے خلاف اودھم مچایا ہوا ہے اور چیخ و پکار سے آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے۔

شروع میں انھوں نے اس فیصلے میں کوئی خامی نکالنے کے بجائے ’’مجھے کیوں نکالا گیا؟‘‘ کی رٹ لگائی۔ یہ سلسلہ کافی عرصے تک چلتا رہا اور میاں صاحب جگہ جگہ بس یہی واویلا کرتے رہے لیکن جب وہ یہ شور مچاتے مچاتے تھک گئے تو فیصلہ سازی کرنے والے جج صاحبان پر براہ راست حملے کرنے پر اتر آئے۔ گویا کھسیانی بلی کھمبا نوچے۔ میاں صاحب روز مرہ بلا ناغہ معزز جج صاحبان کی نیک نیتی پر کھلم کھلا شک و شبہ کا اظہار کرتے پھررہے ہیں۔

عدالت عظمیٰ کے متعلقہ بینچ کے بارے میں ان کا فرمانا یہ ہے کہ مقدمہ شروع ہونے سے پہلے ہی فیصلہ کرلیاگیا تھا۔ میاں صاحب کا یہ بھی فرمانا ہے کہ یہ فیصلہ کہیں اور ہوا ہے اور ججوں نے تو محض اس پر دستخط کیے ہیں۔ موصوف اس کے علاوہ اور بھی بہت کچھ کہتے پھر رہے ہیں۔ عدلیہ پر اس سے زیادہ سنگین حملے بھلا کیا ہوسکتے ہیں۔ ایسے میں ہم عدالت عظمیٰ کے معزز جج صاحبان کی قوت برداشت کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ وہ یہ سب انتہائی صبر و تحمل کے ساتھ سن رہے ہیں اور برداشت کررہے ہیں۔

میاں صاحب کی جانب سے عدلیہ پر حملے کی یہ پہلی مثال نہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ان کی ماضی کی حکمرانی کے دور میں بھی عدلیہ پر چڑھائی کی گئی تھی۔ عام خیال یہ تھا کہ ایک عقل مند آدمی کی حیثیت سے میاں صاحب اس طرح کی غلطی کو کبھی نہیں دہرائیںگے مگر ان کے حالیہ رویے نے اس قسم کی تمام توقعات پر پانی پھیردیا ہے۔

آپ کو یہ بھی یاد ہوگا کہ آج سے دو سال پہلے منظم دھاندلی کے سلسلے میں سپریم کورٹ نے فیصلہ عمران خان کے خلاف اور میاں نواز شریف کے حق میں دیا تھا جس پر عمران خان نے صرف اعتراض کیا تھا اور کوئی واویلا نہیں کیا تھا۔ یہ تو وہی ہوا کہ میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو تھو۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر عدلیہ کا فیصلہ کبھی ایک فریق تسلیم نہیں کرے گا اور کبھی دوسرا فریق فیصلہ ماننے سے انکار کرے گا تو پھر ریاست کا نظام آخر کیونکر چلے گا۔

ادھر عدالت عظمیٰ کا حال یہ ہے کہ ساری دنیا میں تسلیم شدہ ضابطہ یہ ہے کہ ججز خود نہیں بولتے ان کے فیصلے بولتے ہیں مگر ہمارے یہاں جج صاحبان کبھی ’’گاڈ فادر‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں تو کبھی کسی کو ’’ سسلین مافیا‘‘ قرار دیتے ہیں۔

جہاں تک ملک کی انتظامیہ کا تعلق ہے تو اس کی کارکردگی بھی منفی ہی ہے۔ وہ اس موقعے کی تلاش میں رہتی ہے کہ عوام کو رہا سہا جو ریلیف بھی حاصل ہے کسی طرح اس کو بھی ختم کردیا جائے۔ ہماری بیوروکریسی کالے فرنگیوں پر مشتمل ہے جو خود کو انگریزوں کا جانشین سمجھتی ہے۔ اس کے ارکان بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی اس نصیحت کو فراموش کرچکے ہیں کہ ’’آپ عوام کے حاکم نہیں بلکہ خادم ہیں‘‘ انھیں احساس ہی نہیں کہ وہ عوام کے پیسے سے اپنی ملازمت کی تنخواہ وصول کرتے ہیں۔

قانون اور طب کے مقدس پیشوں سے وابستہ افراد کا بھی برا حال ہے وکلا جو درحقیقت قانون کے رکھوالے ہیں آئے دن قانون کی دھجیاں بکھیرتے رہتے ہیں۔ یہی حال ڈاکٹروں کا ہے جو کہلاتے تو مسیحا ہیں لیکن آئے دن احتجاج اور ہڑتال کرتے رہتے ہیں جب کہ مریض ان کے انتظار میں تڑپتے رہتے ہیں۔ ہمارے تاجر حضرات بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری ان کا مقصد حیات ہے۔ جائز اور ناجائز کی تمیز اور حلال و حرام کا فرق ہمارے معاشرے سے کب کا مٹ چکا ہے، اس قوم کا اللہ ہی حافظ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔