جمہوری اصلاحات کا مسئلہ

ظہیر اختر بیدری  منگل 20 فروری 2018
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

دنیا میں جمہوریت کے جو ماڈل رائج ہیں، ان میں عوام کی بالادستی ایک لازمی عنصرکی حیثیت سے موجود رہی ہے ، اس تناظر میں عوام کو وقت کا سرچشمہ کہا جاتا ہے ۔ جس جمہوریت میں عوام کی بالادستی موجود نہیں اسے جمہوریت نہیں ماناجاتا۔ عوام کی بالادستی قانون ساز اداروں میں ان کی موجودگی سے ظاہر ہوتی ہے۔

بد قسمتی یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ جمہوریت میں نیابتی نمایندگی کے نام پر اشرافیہ کے کارندوں کو قانون ساز اداروں میں بھیجنے کا اہتمام کیا گیا ہے اور قانون ساز ادارے اشرافیہ کے کارندوں سے بھرے ہوئے ہیں اور فطری طور پر یہ نمایندے اشرافیائی مفادات کی نگہبانی کرتے ہیں۔ اس لیے عشروں تک عوام کے مسائل حل نہیں ہو پاتے، اس قسم کی حکمرانی کو بہر حال جمہوریت نہیں کہاجاسکتا پسماندہ ملکوں میں عموماً اسی قسم کی جمہوریت نافذ ہے اگر کسی جمہوریت میں عوامی نمایندے قانون ساز اداروں میں پہنچ بھی جاتے ہیں تو وہ اس لیے بے اختیار ہوتے ہیں کہ اشرافیہ کے ایجنٹ قانون ساز اداروں میں طاقتور ہوتے ہیں اور عوام کے حقیقی نمایندوں کو عضو معطل بناکر رکھ دیتے ہیں۔

اس حوالے سے یہ بڑی عجیب وغریب ٹریجیڈی ہے کہ اشرافیہ ہی نہیں بلکہ مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں میں بھی خاندانی اور موروثی سیاست کا رجحان عام ہونے لگا ہے۔ اس رجحان سے مذہبی جماعتیں بھی بچی ہوئی نہیںہیں۔ خاندانی سیاست خاندانی حکمرانی، سراسر جمہوریت کی نفی ہے، اس واشگاف حقیقت کو جانتے ہوئے بھی ہمارے سیاست دان جمہوریت پر کیوں جانثار کررہے ہیں، ویسے تو سرمایہ دارانہ جمہوریت عملاً سرمایہ دار طبقات کے مفادات کی محافظ ہوتی ہے لیکن پروپیگنڈا یہی کیا جاتا ہے کہ جمہوریت عوامی مسائل کے حل کا واحد ذریعہ ہے۔

سوائے ترقی یافتہ ملکوں کے جہاں کے عوام کو ترقی کی غریبی مل جاتی ہے اور یہ عوام قسطوں کی زندگی انجوائے کرتے ہیں پسماندہ ملکوں کے عوام جمہوریت کی نعمتوں بھوک، افلاس، غربت، بے کاری، بیماری، تعلیم جیسی بنیادی ضروریات سے مستفید ہوتے رہتے ہیں ۔ ان عذابوں کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پسماندہ ملکوں میں یا تو قانون ساز اداروں میں عوام کے حقیقی نمایندے موجود ہی نہیں ہیں یا پھر الگ کچھ نمایندے قانون ساز اداروں میں موجود ہیں تو انھیں بے دست و پا بناکر رکھ دیا گیا ہے اس کی ایک مثال ہماری صوبائی حکومت میں لوئر اور مڈل کلاس کی حالت زار سے مل سکتی ہے۔

متحدہ میں سو خرابیاں اور کمزوریاں ہوسکتی ہیں لیکن متحدہ غریب اور مڈل کلاس کے منتخب نمایندوں پر مشتمل جماعت ہے، جسے اسمبلیوں میں اچھوت بناکر رکھ دیا گیا ہے وہ ترقیاتی فنڈ جو منتخب نمایندوں کا حق ہوتے ہیں اس حق سے وہ محروم ہیں ۔ بلدیاتی اداروں کے انتخابات میں یہ جماعت بھرپور طریقے سے کامیاب ہوتی ہے لیکن اسے اس کے آئینی حق مالی اور انتظامی اختیارات سے محروم کرکے رکھ دیا گیا ہے اور ڈھائی کروڑ انسانوں کا یہ شہر صفائی جیسے بنیادی مسئلے سے محروم کچرے کے ڈھیر میں بدل کر رہ گیا ہے۔

ترقی یافتہ ملکوں میں بے شمار خرابیاں ہوسکتی ہیں لیکن ان جمہوریتوں میں کوئی کتنا بڑا سرمایہ دار ہو یا سیاست دان ہو جمہوری قانون ساز اداروں میں جانے سے پہلے اسے بلدیاتی اداروںمیں خدمات انجام دینے کی پریکٹیکل تربیت حاصل کرنا پڑتی ہے۔ اس کے بغیرکسی کو قانون ساز اداروں میں جانے کی اجازت نہیں ہوتی، اس کے برخلاف پسماندہ ملکوں میں جہاں اشرافیہ کی بالادستی قائم ہے اشرافیہ کے لاڈلے ٹارزن کی طرح دولت تعلقات اور رشتوں کی ٹہنیوں سے لٹک کر قانون ساز اداروں اور اسمبلیوں میں دھڑام سے کود پڑتے ہیں۔

پاکستان کی جمہوری تاریخ بد عنوانیوں،کرپشن اور اربوں روپوں کی لوٹ کھسوٹ سے بھری ہوئی ہے اس ملک کے غریب طبقات اپنی بنیادی ضروریات کی تکمیل کی خاطر ہزار دو ہزار کی رشوت لیتے ہیں تو اس جرم میں انھیں گرفتاری اور سزا کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن اشرافیہ کے شہزادے اربوں روپوں کی کھلے بندوں لوٹ مار کرتے ہیں تو قانون اور انصاف منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں اور ملزمان کے ساتھ وی وی آئی پی ٹریٹمنٹ ہوتا ہے اگر بفرض محالہ ان شہزادوں کو سنگین اور بھاری کرپشن کے الزامات کا سامنا ہوجائے تو یہ نواب ابن نواب چارٹرڈ ہوائی جہازوں کے ذریعے بیرون ملک فرار ہوجاتے ہیں اور بیمار بن کر قیمتی اسپتالوں میں ایڈمٹ ہوجاتے ہیں اور اپنی بیماری انجوائے کرتے ہیں۔

یہ صورتحال  قیام پاکستان سے جاری و ساری ہے لیکن اس میں 5 اسٹار سہولتوں کا ایسا اضافہ ہوگیا ہے کہ اسیری بھی تبدیلی اب ہوا بنی ہوئی ہے اور پھر سرمایہ دارانہ قانون اور انصاف میں اتنی لچک ہوتی ہے کہ الزام کا رخ جس طرف چاہیں پھیرا جاسکتا ہے۔ ہماری وکلا برادری  چار چار قتل کرنے والے کو مکھن سے بالا کی طرح نکالنے والا سب سے بڑا وکیل مانا جاتا ہے۔ کیا ان ساری مراعات کو جمہوریت کی عنایت کہاجاسکتا ہے؟

آج پاکستان کے اکیس کروڑ عوام جمہوریت کے ایسے ایسے مناظر دیکھ رہے ہیں کہ حیرت سے ان کی زبانیں گنگ اور آنکھیں پتھرائی ہوئی ہیں، ان سارے حسین نظاروں کے باوجود جمہوریت کی مائی باپ اشرافیہ ہی نہیں بلکہ مڈل کلاسزکی زبانیں بھی جمہوریت کی مدح سرائی کرتے کرتے گنگ ہوگئی ہیں۔

اس 70 سالہ پرانی جمہوریت کی اصلاح کی کوشش بھی جاری ہیں، آئین میں ترامیم کا سلسلہ بھی اس سلسلے کی کڑی ہے۔ پہلے آئین ایک شخص کو دو بارہ وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہونے کی اجازت دیتا تھا چونکہ ووٹرم یعنی دس سال کی مدت عوام کی خدمت کے لیے کم مانی جاتی تھی سو آئین میں ترمیم کرکے وزیراعظم کی خدمت کی مدت کو بڑھا دیا گیا۔ یہ ایسی جمہوری اصلاح ہے جس کے دور رس نتائج سے آج پاکستان کا بچہ بچہ واقف ہو رہا ہے۔ پہلے تو ہماری خاندانی جمہوریت میں اقتدارکا تسلسل نسلوں تک جاری رہتا ہے اور جانے قانون میں اس قدر لچک کہاں سے آجاتی ہے کہ اس قسم کی تمام اصلاحات قانونی اور جائز ہوجاتی ہیں۔

ہماری جمہوریت پانی کی طرح ہے اور آمریت آگ لمبی ہوئی ہے۔ ایک جنرل (ر) جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کے سنگین جرم میں غداری کا تمغہ سینے پر سجائے دور کی خاک چھان رہا ہے اور جمہوریت کے روح رواں اسے تختہ دار پر کھینچنے کی کوشش میں سرگرداں ہیں۔ ملک کی 70 سالہ تاریخ میں چار بار منتخب حکومتوں کا تختہ الٹا گیا ان تختہ الٹنے والوں پر غداری کا الزام تو لگایا گیا لیکن کرپشن کا الزام نہیں لگایا گیا، جب کہ سول حکمرانوں کی طرف سے جب بھی سول حکومت کا تختہ الٹا گیا ان پر بھاری کرپشن کے الزامات ہی لگائے گئے۔

اہل وطن اس صورتحال پر دم بخود ہیں کہ گوئم مشکل و نہ گوئم مشکل والی صورتحال کا سامنا ہے بہر حال جمہوریت میں اصلاحات کی ضرورت کا احساس تو سب کو ہے لیکن اصلاحات کس قسم کی ہوں اور یہ کون کرے گا، یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب جمہوریت کے علمبردار ہی دے سکتے ہیں ۔ عام آدمی تو اصلاحات کا شکار ہی رہتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔