طوائف کی توبہ…

شیریں حیدر  اتوار 31 مارچ 2013
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

کیا قاتل ادائیں تھیں اور کیا قیامت کا سراپا تھا اپنے وقتوں میں مراداں کا… اپنے علاقے میں اس کا ڈنکا بجتا تھا اور چہار عالم میں اس کا چرچا تھا،  وہ کسی مراد کے نتیجے میں پیدا نہیں ہوئی تھی،  لوگوں کے من میں اسے دیکھنے کی مراد جاگتی اور دھڑکتی تھی اسی لیے ماں باپ نے اسے جو بھی نام دیا ہو گا، اسے بھول کر کل عالم اسے مراداں ہی کہتا تھا، جانے کتنے دلوں کی مراد تھی۔ وہ کتنے ہی دل جیب میں لیے پھرتی تھی اور دل والوں کے سامنے انھیں جیب سے نکال کر مٹھی میں مسلتی، زمین پر پھینکتی اور اپنے پیروں تلے روند دیتی۔ اس کی یہ ادا بھی قاتل، اس کا مسکرا کر دیکھنا، اس کا غرور سے سر جھٹکنا، اس کا نظر انداز کر کے گزر جانا… یہ سب ان عاشقوں کے دلوں کی دھڑکنوں کو اتھل پتھل کر دیتا تھا۔

جن کے پاس کسی بھی قسم کی دولت ہو، حسن ہو، اختیار ہو،  عہدہ ہو، طاقت ہو… ان سب کی ادا اسی طرح ہوتی ہے۔ وہ وقت ہی ایسا ہوتا ہے کہ ان سب کا حامل خود کو اس دنیا سے بالا سمجھتا ہے، وہ سوچتا ہے کہ یہ حسن، جوانی، مال، دولت اور اختیار شاید اس کی قبر میں بھی اس کے ساتھ جانے والا ہے۔ آسمان کی بلندیوں پر نظر اور ہوا میں قدم ہوتے ہیں اور من اپنے سامنے کی ہر چیز کو حقیر دیکھتا ہے۔ مگر کسے یاد ہے

…ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں

ہر چیز ایک دم اپنے زوال کی طرف ایک نہ ایک دن گامزن ہو جاتی ہے۔ مراداں کا بھی وقت زوال آ گیا، اس نے بلا شرکت غیرے اپنے شعبے میں راج کیا تھا، اپنے سامنے پیدا ہونے اور جوان ہو کر نت نئے ناز اور ادا سے آگے آنے والی اسے اپنے مقابل لگنے لگیں، عمر کا سن بھی وہ نہ رہا کہ کسی کو لبھاتی، سو اس نے ’’توبہ‘‘ کر لی… اس کے سوا اس کے پاس چارہ بھی کیا رہ گیا تھا۔ نہ صرف توبہ کی، بلکہ سوتے جاگتے اسے اپنے عمر بھر کے ’’کارنامے‘‘ یاد آنے لگے،  عمر کی آخری منزل کٹنا مشکل ہو گیا… کس منہ سے اللہ کے پاس جاؤں گی؟ یہ سوچ اس کی نیندیں اڑا دیتی اور وہ آنسوؤں کی تسبیح رولتے رات گذار دیتی۔ اس کا جی چاہتا کہ وہ ان سب نوجوان لڑکیوں کو، جو اس کے پیشے میں تھیں، منع کر دے، کہہ دے کہ مت عذاب جمع کرو… مگر اسے معلوم تھا کہ کوئی اسے سننے اور ماننے والا نہیں ہے۔

اگر وہ اپنی ہم عصروں سے بات کرتی تو وہ اسے سمجھاتیں کہ اس سوچ کا اب کوئی فائدہ نہیں تھا، ماسوائے اللہ سے اپنے کیے کی معافی مانگنے کے۔ جو کچھ اپنی جوانی میں ایک طوائف کر لیتی ہے اس کا کوئی ہرجانہ ہے نہ واپسی کا راستہ۔ اپنے تجربات سے وہ کسی اور کو مستفید کر سکتی ہے نہ اس راستے کی کٹھنائیوں سے ڈرا کر کسی کو اس راہ سے ہٹا سکتی ہے۔ مراداں نے سوچا کہ زبانی سمجھانے سے تو کوئی نہیں سمجھتا، کیوں نہ کسی اور طریقے سے لوگوں کو بتایا جائے کہ یہ کتنا غلط پیشہ ہے… سو اس نے ایک کتاب لکھنے کا سوچا اور نہ صرف اس کتاب میں اپنے سابقہ پیشے کے بارے میں برائیاں لکھیں بلکہ اس حد تک بھی لکھا کہ اس نے یہ پیشہ مجبوراً اختیار کیے رکھا، اس کا ضمیر اسے بہت ملامت کرتا تھا، اپنے اس اعتراف کے بعد اس نے لکھا کہ اب اس نے صدق دل سے توبہ کر لی تھی، اپنی کتاب کا نام بھی اس نے ’’طوائف کی توبہ‘‘ ہی رکھا تھا۔

ساٹھ برس کی عمر میں توبہ چہ معنی دارد… توبہ تو کوئی اس وقت کرے جب اس میں گناہ کرنے کی صلاحیت بھی ہو، مواقع بھی،  شیطان اپنی طرف کھینچتا ہو مگر اپنے نفس کی طاقت سے اسے شکست دے کر اللہ تعالی سے توبہ طلب کی جائے۔ اس وقت  مراداں اگر توبہ نہ کرے تو اور کیا کرے، معاف کرنے والی ذات تو چاہے اللہ کی ہے جانے کس بات پر نواز دے۔ مراداں کی ہم عصروں نے بھی اسے لعنت ملامت کی کہ اس نے اس پیشے کی بے حرمتی کی جس سے اس نے عمر بھر کمایا اور کھایا، جس نے اسے نام دیا،  باقی طوائف کوئی ایسا پیشہ نہیں کہ صرف جسم بیچنے والی ہی طوائف ہوتی ہے… اپنے مفادات کے لیے اپنے دل اور دماغ بیچنے والے، اپنے ذاتی فوائد کے لیے اپنا قلم بیچنے والے… کیا وہ سب طوائف سے کم ملعون ہوتے ہیں؟

جب صاحب اختیار ہوتے ہیں تو ہر طوائف کی طرح بار بار بکتے اور استعمال ہوتے ہیں اور اسی کی طرح جب منہ میں دانت اور پیٹ میں آنت نہ رہے تو … صاحب کتاب بن کر جس تھالی میں کھانا، اسی میں چھید کرنے کی عملی مثال بن جاتے ہیں۔ آم کے آم اور گٹھلیوں کے دام… کتاب متنازعہ ہو اور منفی پراپیگنڈہ کیا جائے تو ہاتھوں ہاتھ بکتی بھی ہے اور لکھاری کی ’’نیک نامی‘‘ کا باعث بھی بنتی ہے۔ ملک اور ملک میں اہم اداروں کی ’’نیک نامی‘‘ کا تو کیا ہی شمار، سلامت رہیں بکے ہوئے لوگ، وہ نادان دوست کہ جن کے ہوتے ہوئے ہمیں کسی دشمن کی ضرورت ہی نہیں۔ اپنے دھندوں اور کرتوتوں کے وقت ضمیر کو نیند کی گولیوں کے زیر اثر سلا کر لطف اندوز ہونے والے، ادھر کرسی سے اترتے ہیں، ادھر ان کے ذہن منفی طرف چلنا شروع کردیتے ہیں۔

وطن کی حفاظت کی خاطر حلف اٹھانے والوں سے اس بات کا حلف بھی لیا جانا چاہیے کہ وہ اپنے نفس کے خلاف سب سے پہلے جہاد کریں گے… ساری مراعات حاصل کر کے، عمر کے چالیس برس اپنی ملازمت سے لطف اندوز ہو کر، اہم اور حساس پوزیشنوں پر کام کرنے والوں کے ضمیر کے لیے ضابطہ اخلاق مرتب کیا جانا انتہائی ضروری ہے۔ اگر اس وقت خاموش رہا جائے جب آپ کسی برائی میں اپنی رضا سے شامل ہو رہے ہوں تو بعد میں خاموشی کو توڑنا عین اس طوائف کی توبہ کے مترادف ہے۔ ایک ایسی کتاب جو ایک عام فہم زبان میں لکھی جائے، ( اس کی لفظی غلطیوں کو نظر انداز کر دیا جائے) تو ہر عام آدمی جس نے چار جماعتیں پڑھ رکھی ہوں گی وہ اس کتاب کو پڑھ سکے گا، ایسے شخص کا فہم کیا ہو سکتا ہے… اس کا اندازہ ہمیں اپنے ملک کی شرح خواندگی سے بخوبی ہو جاتا ہے۔

اسے دشمنوں کی سازش کے سوا اور کچھ نہیں کہا جا سکتا، اس ملک کی فوج ہمارے اپنے پیارے ہیں، ہم میں سے ہیں، انھیں کسی نے باہر سے لا کر ہم پر مسلط نہیں کیا ہے… یہ ہمارے بیٹے اور بھائی ہیں۔ایسی کتابیں پڑھ کر ریڑھ کی ہڈی جیسے اہم ادارے کے بارے میں ایک عام آدمی کیا رائے قائم کرے گا؟ کیا وہ فوج کے پورے کے پورے نظام پر شک کرنا شروع کر دے… کیا وہ سمجھے کہ فوج کا ادارہ جسے ہر شخص کرپشن سے پاک، سفارش سے بالا اور ملک کی محبت کے جذبے سے سرشار سمجھتا ہے، وہ سب جھوٹ ہے؟

کاش کوئی اس ملک کے عام اور سادہ عوام کو سمجھا سکے کہ ایسی منصوبہ بندیاں ہمارے دشمنوں کے ڈرائنگ روموں میں بیٹھ کر طے کی جاتی ہیں اور اس کے لیے جن لوگوں کو با آسانی لبھایا جا سکتا ہے، وہ وہی ہیں، جو بقول خود ان کے اپنے… اپنے عروج کے وقت نہ چاہتے ہوئے بھی اس نظام کا حصہ تھے… اس سے بڑا اور کیا غلط بیان ہو سکتا ہے؟ کون نہیں جانتا کہ ہر محکمے میں اس بات کا ہر ایک کے پاس اختیار ہوتا ہے کہ اگر اس کی ملازمت میں کوئی چیز اس کی مرضی کے خلاف ہو رہی ہو، اسے وہ اگر تبدیل نہ بھی کر سکے تو… کم از کم خود استعفی تو دے سکتا ہے!!!! اور اگر وہ نہ کیا جو اس وقت کی ضرورت تھی تو بہتر تھا کہ اس وقت یہ نہ کیا جاتا جو نہیں کیا جانا چاہیے تھا، خاموشی یہاں تک قائم رہی تو زندگی کی آخری سانس تک بھی رہ سکتی تھی!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔