جیسے ڈائنو سار معدوم ہوئے

زاہدہ حنا  ہفتہ 30 مارچ 2013
zahedahina@gmail.com

[email protected]

چند دنوں پہلے جب ہمارے حالیہ جمہوریت پسند اور سابق مرد آہن نے یہ فرمایا کہ آمریت میں جمہوریت ہوتی ہے تو دل باغ باغ ہوگیا۔ یہ ایسا نادر قول تھا جسے آب زر میں لکھوا کر تیسری دنیا کے ان تمام ملکوں میں تقسیم کرانا چاہیے جہاں مرد آہن جمہوریت اور سیاستدانوں پر تبرا کرتے ہیں۔

90 دن کے لیے آتے ہیں اور پھر عمر خضر کی خواہش کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس وقت تک راج سنگھاسن پر جلوس کریں جب تک حضرت عزرائیل رخصت کرانے کے لیے نہ آجائیں۔ موصوف کے یہ زریں خیالات سن کر مجھے اپنی بارہ سال پہلے کی ایک تحریر یاد آئی جب ہمارے ایک محترم کالم نگار نے لکھا تھا کہ کسی شخص کا فوج کے اعلیٰ ترین عہدے پر فائز ہونا کوئی ایسی خرابی نہیں جس کی وجہ سے وہ صدر مملکت کے عہدے پر فائز نہ ہو سکے۔ اپنی بات کو وزن دینے کے لیے انھوں نے امریکی جرنیل جارج واشنگٹن اور فرانسیسی جرنیل چارلس ڈیگال کا حوالہ دیا تھا۔

اس کا جواب دیتے ہوئے میں نے لکھا تھا کہ اٹھارویں صدی کے امریکا میں جب برطانوی تسلط کے خلاف بغاوت شروع ہوئی تو یہ جارج واشنگٹن تھا جسے 1775 میں معتدل مزاج اور انتہا پسند امریکی انقلابیوں نے مشترکہ طور پر امریکا کی انقلابی افواج کا کمانڈر چنا تھا۔ امریکی تاریخ میں اس بات پر اصرار کیا جاتا ہے کہ یہ جنرل واشنگٹن کی مستقل مزاجی، تحمل اور قوت ارادی تھی جس نے برطانوی افواج کو پے بہ پے شکستوں سے دوچار کیا اور آخرکار برطانوی افواج کے کمانڈر لارڈ کارنوالس کو 1781 میں جنرل واشنگٹن کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے۔ یہ وہی لارڈ کارنوالس ہے جس نے چند برسوں بعد امریکا میں اپنی شکست کا داغ، ہندوستان میں ٹیپو سلطان کے خون سے دھویا۔

لارڈ کارنوالس کی شکست کے بعد 1782 میں جنرل واشنگٹن کی کمان میں جنگ لڑنے والے سپاہیوں اور بعض امریکی انقلابیوں کی جانب سے یہ مہم چلائی گئی کہ جنرل جارج واشنگٹن کو امریکا کا ’’بادشاہ‘‘ بنایا جائے اور اس کی تاج پوشی کی جائے۔ جنرل واشنگٹن کو اس تجویز کا علم ہوا تو اس کا طیش قابلِ دید تھا۔ اس نے اس تجویز کو سختی سے رد کیا اور 1783 میں امریکی کانگریس کے سامنے فوج کی کمان سے استعفیٰ دے کر واپس اپنی زمینوں پر چلا گیا۔ یہ جنرل واشنگٹن کا ذاتی فیصلہ تھا لیکن امریکی قوم نے اسے عام شہری کے طور پر زندگی گزارنے کی اجازت نہ دی۔

1787 میں جب فلاڈلفیا میں آئینی کنونشن منعقد ہوا تو اس میں شرکت کے لیے جنرل واشنگٹن کو دعوت دی گئی، وہ وہاں پہنچا تو گلی کوچوں میں اس کے نام کی گونج تھی۔ بارہ امریکی ریاستوں کے 55 نمائندوں نے جنرل واشنگٹن کو متفقہ طور پر اپنا صدر نامزد کیا۔ فلاڈلفیا میں ہونے والے جس کنونشن میں جنرل جارج واشنگٹن کو متفقہ طور پر صدر امریکا منتخب کیا گیا تھا، اسی کنونشن نے ستمبر 1787 میں ایک نیا آئین منظور کیا۔ جنرل جارج واشنگٹن جسے دو برس پہلے متفقہ طور پر صدر نامزد کیا تھا، اس نے 30 اپریل 1789 کو امریکا کے پہلے صدر کے طور پر حلف اٹھایا۔

جارج واشنگٹن یقیناً ایک جرنیل تھا، لیکن انقلابی فوج کا۔ اس نے انقلاب امریکا کی کامیابی کے بعد اپنی قوم سے اس کا ثمر طلب کرنا تو دور کی بات ہے، بادشاہ بننے سے انکار کردیا تھا، تمام اختیارات اپنی ذات میں مرکوز کرنے کے بجائے ’’جنرل‘‘ کے عہدے سے استعفیٰ دیا تھا اور اپنی زمینوں پر کاشت کرنے چلا گیا تھا … اور جب وہ پہلا صدر امریکا نامزد اور منتخب ہوا ہے، تو یہ اس کے ساتھی جرنیلوں کا نہیں، امریکا کی بارہ ریاستوں کے نمائندگان کا متفقہ فیصلہ تھا۔

ایک ایسے جرنیل کا موازنہ افریقہ، لاطینی امریکا یا ایشیا کے ایسے جرنیلوں سے کرنا، جنھوں نے قومی آزادی کی جنگ نہیں لڑی، یا جو منتخب حکومتوں کا تختہ الٹ کر اور آئین کو منسوخ یا معطل کرکے سربراہ مملکت بنے، کتنا منصفانہ اور دانشورانہ موازنہ ہے؟ اس بارے میں فیصلہ عوام پر چھوڑ دینا چاہیے۔

جنرل ڈیگال نے بھی قومی آزادی کی جنگ میں سرگرم حصہ لیا، سیاسی جدوجہد کی اور ان کا افریقہ، ایشیا یا لاطینی امریکا کے کسی ایسے طالع آزما سے موازنہ کرنا جو منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر، آئین اور جمہوری اداروں کو ختم کرکے برسر اقتدار آیا ہو، کس حد تک درست ہے؟ اس کا فیصلہ بھی میرے خیال میں عوام کی فہم و دانش پر چھوڑ دینا چاہیے۔ تیسری دنیا میں بھی اے کاش جنرل جارج واشنگٹن ایسے صدر ہوتے جو ’’شاہ امریکا‘‘ بنائے جانے کی تجویز کو حقارت سے ٹھکرا دیتے۔ ہمارے یہاں بھی کوئی جنرل ڈیگال ہوتا جو اپنی حکومت کے خلاف تحریک چلانیوالے کو ملک کا ضمیر ٹھہراتا اور یہ سوال کرتا کہ میں ملک کے ضمیر کو کیسے گرفتار کرسکتا ہوں؟ جرنیل تو ایک طرف رہے، کاش ہمارے یہاں ایسے دانشور اور ادیب پائے جاتے جو اپنی بات کے حق میں دلیل لاتے ہوئے دیانت داری سے کام لیتے۔

پاکستان میں بھی آمروں اور ان کی آمریتوں نے مسائل حل کرنا تو دور کی بات ہے، ان میں اتنا اضافہ کیا کہ جب وقفے وقفے سے منتخب حکومتیں آئیں تو ان کے ہاتھ ان وعدوں اور ضمانتوں کی ڈور سے بندھے ہوئے تھے جو ملک کے مقتدر طاقتوں نے انھیں حکمران بناتے ہوئے لیے تھے۔ ہماری وہ منتخب حکومت جس نے چند دنوں پہلے 5 برس کی مدت پوری کی ہے اس کی کارگردی بھی ایسی نہیں رہی جسے قابل رشک کہا جا سکے۔ اس کا سبب کچھ تو وعدے اور ضمانتیں تھیں جس کے بغیر وہ ایوان اقتدار میں نہیں آسکتی تھی۔ دوسرا بڑا سبب اس کی اپنی نااہلی اور بدعنوانیاں تھیں حالانکہ یہ ایک ایسی حکومت تھی جسے میاں نواز شریف کی شکل میں ایک جمہوریت دوست حزب اختلاف میسر آئی اور اس حزب اختلاف نے جمہوریت کی گاڑی کو پٹڑی سے اترنے نہیں دیا۔

اس رویے پر انھوں نے اپنے دوستوں اور دشمنوں سے جتنے طعنے سنے اور ہماری سیاسی لغت میں ’’مک مکا‘‘ اور ’’فرینڈلی اپوزیشن‘‘ جیسے لفظ سامنے آئے۔ یہ وہ لفظ تھے جس نے مسلم لیگ ن کی سیاسی حیثیت کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ نہیں معلوم کہ اگر اقتدار میاں صاحب کے حصے میں آتا ہے تو وہ ان منفی تاثرات سے کیسے چھٹکارا حاصل کرسکیں گے۔ مرحوم اقبال حیدر نے پیپلز پارٹی کی دوسری حکومت کے زمانے میں کہا تھا کہ یہ درست ہے کہ بی بی دوسری مرتبہ اقتدار میں آئی ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمیں دو مرتبہ اقتدار ملا لیکن اختیار ہمیں کبھی نہ مل سکا۔

ان کا اشارہ اس حقیقت کی طرف تھا کہ وزارت دفاع، وزرت خزانہ، وزارت داخلہ اور بعض دوسری اہم وزارتوں پر وہی لوگ فائز ہوئے جنھیں امریکا اور راولپنڈی کی آشیرباد حاصل تھی۔ اس کے بعد عوام دوست پالیسیاں بنانا اور ان پر عمل کرنا تقریباً ناممکن تھا۔ میاں صاحب کے مزاج کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہنا زیادہ مشکل نہیں کہ وہ اقتدار سے زیادہ اختیار کے خواہاں ہوں گے تاکہ عوام سے کیے ہوئے وعدوں کو کسی نہ کسی حد تک پورا کرسکیں۔

ہمارے یہاں آمر امریکا اور بعض دوسرے ملکوں کی سرپرستی کے بغیر برسراقتدار نہیں آسکتے۔ ان ملکوں کو اپنے یہاں جمہوریت محبوب ہوتی ہے لیکن تیسری دنیا میں وہ آمروںکی حمایت اس لیے کرتے ہیں کہ ان سے اپنی مرضی کے فیصلے کرالینا بہت آسان ہوتا ہے جب کہ منتخب حکومت کتنی ہی کمزور ہو اس کی پشت پر پارلیمان کی طاقت ہوتی ہے۔

اس تلخ حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مشہور برطانوی کالم نگار اور دانشور رابرٹ فسک نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ہم نے اپنے اپنے ملکوں میں جمہوریت کو ایک مقدس مقام دے رکھا ہے لیکن تیسری دنیا اور خاص طور سے مشرق وسطیٰ میں ہمارے حکمران آمریت کی حمایت کرتے ہیں۔ ہم عرصہ دراز تک صدام حسین کی حمایت کرتے رہے۔ ہم حسنی مبارک سے محبت کرتے رہے۔ وہ مشرق وسطیٰ میں ہونیوالے انتخابات کو ایک بھونڈا مذاق قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ تب ہی ان انتخابات میں حسنی مبارک کو 98 فیصد اور صدام حسین کو صد فیصد ووٹ پڑتے ہیں۔

جب ہمارے یہاں عدلیہ کی بحالی مہم چلی تو پاکستان میں جمہوریت اور آمریت کے حوالے سے دنیا کے کئی ملکوں اور بہ طور خاص انگلستان میں اس موضوع پر وہاں کے اخباروں میں کئی مضامین چھپے۔ ستمبر 2007 میں روزنامہ ’’آبزرور‘‘ نے اس حوالے سے متعدد برطانوی، امریکی اور ہندوستانی صحافیوں، دانشوروں اور سیاستدانوں کی رائے شائع کی۔ وولی سوینکا کا کہنا تھا کہ اگر ہم حالیہ تاریخ کی ورق گردانی کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اگراتفاق سے کوئی اچھا ڈکٹیٹر بھی تھا تو وہ اس طرح معدوم ہوا جیسے دنیا سے ڈائنو سار۔

صدام حسین اپنے انجام کو پہنچ چکے، حسنی مبارک جس طرح دنیا کے سامنے تماشا بنے ہوئے ہیں وہ ہمارے سامنے ہے۔ ہمارے یہاں انتخابات میں اب چند ہفتوں کا فاصلہ رہ گیا ہے یہ انتخابات ہمارے لیے اور بہ طورخاص پاکستان کے غریبوں اور متوسط طبقے کے لیے زندگی اور موت کا معاملہ ہیں۔ اس موقع پر ہمیں تہیہ کرنا چاہیے کہ ہم اپنے ووٹ سے سابق آمروں کو اس طرح سیاست کے میدان سے معدوم کریں گے جس طرح ڈائنو سار معدوم ہوئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔