سر سلامت جوتے ہزار

عبدالقادر حسن  ہفتہ 30 مارچ 2013
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

جنرل پرویز مشرف کو ہم نے نو برس تک اس شان میں دیکھا کہ لگتا تھا اس چہرے پر اقتدار کی روشنی کبھی ماند نہیں پڑے گی۔ فوج کا تو میجر بھی مان نہیں‘ ایک جرنیل اور وہ بھی کمانڈر انچیف لیکن وکالت کے آزاد پیشے سے متعلق ایک وکیل نے بھری عدالت میں ان پر جوتا پھینکا جو لگا تو نہیں لیکن لگنے جتنی بڑی خبر بنا گیا۔ لگ بھی جاتا تو اور کیا ہو جاتا۔

جنرل صاحب اگر اپنی ملازمانہ زندگی میں نچلے بیٹھتے تو شاید کسی کو ان پر اتنا غصہ نہ آتا لیکن انھوں نے اپنے اقتدار میں قرآن خوان بچیوں تک کو شہید کیا اور انھیں معاف نہ کر کے دنیا کو حیرت زدہ کر دیا۔ انھوں نے ایک لیڈر کو پہلے قتل کی دھمکی دی پھر قتل کرا دیا اور نہ جانے کتنے پاکستانیوں کو امریکا کے پاس بیچ دیا۔ قوم کو یہ سب اور بھی بہت کچھ یاد ہے اور یہی یاد جوتا بن کر ان کی طرف ہوا میں اُچھلی مگر نشانے پر نہ پہنچ پائی۔ سچ ہے کہ سر سلامت جوتیاں ہزار۔ جرنیلی ٹوپی جب اتر گئی ہے تو سر تو بہر ڈھانپنا ہی تھا۔

ایک وکیل نے اس کی ناکام کوشش کی مگر اب جب فی الحال ان پر باہر جانے کی پابندی لگا دی گئی ہے تو وہ اگر احتیاط سے کام لیں تو بہتر ہو گا۔ وہ اپنے آپ کو کمانڈو کہتے ہیں مگر بدتمیز اخباری رپورٹروں نے بتایا کہ وہ زندگی میں پہلی بار جب ایک عام پاکستانی کی طرح عدالت میں حاضر ہوئے تو ان کی حالت غیر تھی۔ وہ یہ سب برداشت نہیں کر پا رہے تھے اور عدالت کے کٹہرے میں سر جھکا کر اور ہاتھ باندھ کر کھڑے رہے۔ ان کے ماضی کے سرِ پُر غرور کی توہین کا واقعہ اس کے ذرا بعد میں ہوا ’’اور ہم لوگوں میں دن پھیرتے رہتے ہیں۔‘‘

پاکستانی فوجی حکمرانوں اور ان کی حکومت سے خوب شناسا ہیں اور ان کے آداب کو یاد رکھتے ہیں مگر جنرل پرویز جیسے بعض حکمران بھول جاتے ہیں کہ ادب کیسے کرایا جاتا ہے اور ہر کسی کی عزت اس کے اپنے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ جنرل مشرف فوج کے چوتھے حکمران تھے۔ ان میں اگر کوئی زندہ سلامت عزت بچا گیا تو وہ فیلڈ مارشل ایوب خان تھا جو اقتدار سے باقاعدہ ریٹائر ہوا اور اسے ایک دوسرے جرنیل کو سونپ گیا۔ جرنیل صاحب سے ملاقات ہو سکتی تھی میں ایک جونیئر رپورٹر کی حیثیت سے یا محض ایک پاکستانی نوجوان کی حیثیت سے ان کی خدمت میں حاضر ہونے میں کامیاب ہو گیا۔

انھوں نے مجھے جوس پلایا۔ پوری باتیں یاد نہیں لیکن انھوں نے باتوں باتوں میں کہا تھا کہ جب میں نے سنا کہ لوگ ’’ایوب کتا‘‘ کے نعرے لگاتے ہیں تو میں نے فوراً ہی ریٹائرمنٹ کا فیصلہ کر لیا۔ اندازہ ہوا کہ نہایت ہی خوبصورت ایوب خان میں خاندانی شرم و حیا باقی تھی۔ اس نے اپنی عزت بچا لی اور اسے کسی دوسرے کے ہاتھ میں نہیں جانے دیا۔ جنرل پرویز مشرف محترم ابھی پاکستان میں ہیں۔ ایک تو وہ محتاط رہیں دوسرے وہ اپنی بعض فاش غلطیوں پر ضد نہ کیا کریں جن میں سے بعض کے ثبوت وہ اپنے ہاتھ سے اپنی منسوخ شدہ پہلی کتاب میں دے چکے ہیں۔

جنرل مشرف ایک سیاسی پارٹی بنا کر الیکشن لڑنے کے لیے پاکستان آئے ہیں۔ یہ جوتا پہلا ووٹ ہے جو انھیں الیکشن سے پہلے ہی پڑ گیا ہے۔ اب وہ شاید الیکشن میں حصہ نہ لیں۔ انھوں نے پاکستانیوں کے ساتھ اپنے اقتدار میں جو کچھ کر دیا ہے اس کا ردعمل تو ان کو ملے گا ہی، اس لیے بہتر ہے کہ وہ سیاست دانوں کی طرح دل بڑا کریں اور اپنی قوت برداشت کو بڑھائیں تا کہ کوئی بات بھی ان کی چھیڑ نہ بن جائے۔ ان دنوں سیاست میں ہر قسم کے کھیل تماشے کی جھلکیاں دکھائی دے رہی ہیں اور قوم لطف اندوز ہو رہی ہے۔ بس دو چار دنوں تک امیدوار اپنے حلقوں میں گھس جائیں گے اور ووٹروں کو ہلکان کر دیں گے۔

ہمارے ہاں ووٹروں کو ایسے موقعے زیادہ نہیں ملتے۔ میں نے دیہاتی حلقے کے ایک ووٹر سے حال احوال پوچھا تو اس نے بہت خوش ہو کر بتایا کہ میں اپنے امیدوار کے حلقہ انتخاب کے سرکردہ منتظمین میں شامل ہو گیا ہوں۔ صبح ناشتے سے لے کر رات گئے تک کھابے جاری ہیں اور موٹروں کی سیر الگ ہے۔ ووٹروں کی تلاش میں صبح صبح نکل جاتے ہیں‘ اعلیٰ برانڈ کے سگریٹ پیتے ہیں اور فوم کے گدوں پر آرام کرتے ہیں۔ اللہ جانے کب تک الیکشن جاری ہیں لیکن فی الحال خیر ہے سنا ہے اخبار والے الیکشن میں بہت مزے کرتے ہیں۔ میں لاہور میں ایک صاحب کی تلاش میں آیا ہوں جو ہمارے ہاں برادری میں بہت اہم ہیں، یہ مل نہیں رہے۔

تو جناب اس طرح الیکشن دیہات سے لے کر شہروں تک پھیل گئے ہیں کیونکہ دیہی آبادی کے با اثر لوگ زیادہ تر شہروں میں رہتے ہیں۔ دیہات کے مقابلے میں شہری زندگی آسان ہوتی ہے لیکن ان دنوں شہروں میں مقیم سرکردہ دیہاتی الیکشن کے لیے اپنے دیہات میں چلے گئے ہیں اور خود اگر امیدوار نہیں بھی تب بھی وہ اس اہم ترین موقع پر غیر حاضر نہیں رہ سکتے۔ جو لوگ پاکستان کے شہروں یا دیہات میں رہتے ہیں، انھیں تو چھوڑیے کوئی ہمارے جنرل صاحب سے پوچھے کہ انھیں کس خبیث نے شہریوں کی جوتوں سے محفوظ زندگی ترک کر کے پاکستان آنے کا مشورہ دیا اور یہاں آتے ہوئے وہ اس پرویز مشرف کو بھی ساتھ ہی لیتے آئے جو یہاں کے ناراض عوام کو مطلوب تھا اور جن کے ہاتھوں میں گندے جوتے تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔