پی پی پی لیڈر اور عوام (حصہ دوم)

امجد اسلام امجد  اتوار 31 مارچ 2013
Amjadislam@gmail.com

[email protected]

پنجابی میں ایک محاورہ ہے ’جُھل ڈالنا‘ یعنی جب کوئی شخص کسی چوری یا جرم کے شبے میں پکڑا جائے تو اس کے سر پر ایک چادر ڈال کر اس کی خوب پٹائی کی جاتی ہے اور اسے پتہ بھی نہیں چلتا کہ مارنے والوں میں کون کون شامل ہے اور لطف کی بات یہ ہے کہ موقع دیکھ کر اس ہجوم میں کچھ ایسے لوگ بھی شامل ہو جاتے ہیں جنھیں اصل میں خود بھی ’’جُھل‘‘ کے نیچے ہونا چاہیے تھا۔

آج کل پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے کہ اپنے لیڈروں کی نالائقی اور بے عملی کی وجہ سے پارٹی کے مخلص اور بے لوث کارکن بھی ایک ’’جُھل‘‘ میں آئے ہوئے ہیں اور سارا الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا اور تجزیہ کار اور کالم نگار گزشتہ 5 سال کی کارکردگی بلکہ ناکارکردگی پر جانے والی حکومت کی خوب کھنچائی کر رہے ہیں اور اس کی زد میں کہیں کہیں وہ کارکن بھی آ رہے ہیں جو الٹا داد رسی اور ہمدردی کے مستحق تھے اور ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ مارنے والوں میں وہ تماش بین اور راہ گیر بھی شامل ہو گئے ہیں جن کا اپنا دامن داغ اور دھبوں سے بھرا پڑا ہے اور یہ وہ داغ ہرگز نہیں ہیں جو پتہ نہیں کس طرح ’’اچھے ہوتے ہیں‘‘۔

یہ ساری تمہید میں نے اس لیے بیان کی کہ میرے گزشتہ اور اس سے پیوستہ یعنی موجودہ کالم کو بھی اسی منظر نامے کا حصہ نہ سمجھا جائے۔ بلاشبہ میں پی پی پی کی مجموعی اور عمومی کارکردگی سے مایوس ہونے والوں میں سے ہوں مگر میں اس ناکامی کو اس کی لیڈر شپ کی ناکامی سمجھتا ہوں، ورکرز کی نہیں اور جہاں تک اس کے عوام دوست نعرے یعنی روٹی، کپڑا اور مکان کا تعلق ہے، نظریاتی حوالے سے میرے نزدیک یہ وہ نعرہ ہے جو ہر عوامی، فلاحی ریاست کے منشور کا حصہ ہوتا ہے، سو اس کی اہمیت اور افادیت سے بھی انکار ممکن نہیں۔ رونا تو اس لیڈرشپ کا ہے جس نے اس خوبصورت نعرے کے سحر میں گرفتار لاکھوں کروڑوں لوگوں کے اعتبار کو نہ صرف دھوکا دیا بلکہ ان لفظوں کی حرمت کو بھی جی کھول کر پامال کیا اور اس پر مستزاد یہ کہ اپنے کیے پر کسی کو شرمندگی بھی نہیں۔

غم نہیں اس نے بے وفائی کی

دکھ تو یہ ہے اسے، ملال نہیں

اور یہ وہ حمام ہے جس میں کم و بیش سب ہی ننگے ہیں، فرق اگر ہے تو شاید مادرزاد ننگے اور جسم پر ایک آدھ جھولتے ہوئے چیتھڑے کا ہو کہ اس اجتماعی منظر نامے میں ’’کوئی کسی سے کم نہیں‘‘

بھنور میں کھو گئے ایک ایک کر کے ڈوبنے والے

سرِ ساحل کھڑے تھے سب تماشا دیکھنے والے

خدا کا رزق تو ہر گز، زمیں پر کم نہیں یارو

مگر یہ کاٹنے والے، مگر یہ بانٹنے والے

تو بات ہو رہی تھی پی پی پی کے تین گزشتہ ادوار حکومت کی (میرے نزدیک محترمہ بینظیر بھٹو کی دونوں حکومتوں کو ایک ہی تسلسل کا حصہ سمجھنا چاہیے) جیسا کہ ہم نے دیکھا ذوالفقار علی بھٹو مرحوم اگرچہ ان توقعات پر تمام تر پورے نہیں اترتے جو ان سے وابستہ ہو گئیں تھیں لیکن اس کے باوجود ان کے عہد میں کچھ ایسے کام ضرور ہوئے جو نہ صرف تعریف کے قابل ہیں بلکہ جن کی وجہ سے آگے چل کر ہم بہت سے چیلنجز کا سامنا کرنے کے قابل بھی ہو سکے۔ بدقسمتی سے ان کی صاحبزادی کے دونوں ادوار حکومت میں اس طرح کا کوئی کام ڈھونڈنا اگر ناممکن نہیں تو بے حد مشکل ضرور ہے۔

بلاشبہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں انھوں نے بے حد تکالیف اٹھائیں، والد کے ’’عدالتی قتل‘‘ کے علاوہ خود بھی قید و بند اور جلا وطنی کی صعوبتوں سے گزریں لیکن اقتدار میں آنے کے بعد انھوں نے اس ذہانت، پیش بینی، دلیری اور قائدانہ صلاحیت کا ثبوت نہیں دیا جس کی ان سے توقع کی جا رہی تھی، بھلے ہی وہ خود اور ان کے رفقاء اس ناکامی کو فوجی جرنیلوں، صدر غلام اسحاق اور مسلم لیگ ن کی سازشوں اور دباؤ سے تعبیر کریں لیکن امر واقعہ یہی ہے کہ سیاسی سطح پر وہ کچھ ڈلیور نہیں کر سکیں جو ان کی پارٹی کا منشور تھا۔

اس بیچ دو برس کے لیے میاں نواز شریف برسراقتدار رہے جو محترمہ کے پاس غور و فکر اور آئندہ کی سمت نمائی کے لیے ایک سنہری موقع تھا مگر جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی حکومت پر کرپشن کے الزامات لگے اور یوں اس بار ان کی برطرفی پر رونے والی آنکھیں بھی نایابی کی حد تک کمیاب ہو گئیں اور ان کے ورکرز نے مایوس ہو کر اپنے غم و غصے کا اظہار کچھ اس طرح سے کیا کہ 1997ء کے الیکشن میں میاں نواز شریف اور ان کی پارٹی کو دوتہائی اکثریت حاصل ہو گئی۔ آصف زرداری جیل میں اور محترمہ ایک بار پھر خودساختہ جلاوطنی میں چلی گئیں۔

جنرل پرویز مشرف نے پہلے میاں نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ کر کے انھیں خاندان سمیت جدہ جلا وطنی پر مجبور کیا اور پھر خود اپنی روشن خیالی اور سب سے پہلے پاکستان کے نعروں کی چکاچوند میں شروع کے چند برس اطمینان سے حکومت کے بعد (نائن الیون کے علاوہ) اپنے ہی پیدا کردہ مسائل میں الجھتے چلے گئے اس دوران میں سیاسی سطح پر محترمہ نے پہلی بار ذہنی بلوغت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کچھ بنیادی اور دوررس فیصلے کیے اور ملک کے اندر ایک ایسی فضا پیدا کرنے میں ممدومعاون ثابت ہوئیں جس کی وجہ سے پرویز مشرف کے لیے اپنی آمریت کو مزید طول دینا ناممکن ہو گیا اور ایک ایسا ماحول پیدا ہو گیا۔

جس میں قومی سطح کی سیاسی جماعتوں نے مل جل کر زندہ رہنے کا رستہ اختیار کرنا شروع کیا اور امید کی جانے لگی کہ اس بار پیپلزپارٹی کی قیادت پاکستانی عوام اور اپنے ورکرز کی توقعات پر پورا اترتے ہوئے روٹی، کپڑا اور مکان کے خواب کو کلی نہ سہی جزوی طور پر تعبیر دینے میں شاید کامیاب ہو جائے لیکن ایک افسوسناک سانحے کے حوالے سے تقدیر آڑے آ گئی اور 27 دسمبر 2007ء کو محترمہ ایک ایسے حادثے کا شکار ہو گئیں جس کی باقاعدہ تفتیش ان کی وفات کے 5 برس بعد ان کی اپنی پارٹی کی حکومت کے باوجود شروع نہیں ہو سکی البتہ ان کی اس اچانک موت سے ایک ایسی جذباتی فضا پیدا ہو گئی کہ پی پی پی کو نہ صرف اکثریت کے ساتھ ایک مخلوط حکومت بنانے کا موقع مل گیا بلکہ ان کے شوہر آصف علی زرداری بھی پارٹی کے کوچیئرمین ہونے کے ساتھ ساتھ مملکت پاکستان کے ایسے صدر بن گئے جن کو چاروں صوبوں کی حمایت حاصل تھی۔

اس کے بعد کیا ہوا! یہ اپنی جگہ پر ایک الگ موضوع ہے۔ عام طور پر لوگ ان کی دانشمدانہ چالاکیوں کا بہت ذکر کرتے ہیں کہ کس طرح وہ ہر بحران پر قابو پانے کی غیرمعمولی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن بہت کم اس بات پر غور کیا جاتا ہے کہ ان ’’بحرانوں‘‘ کو پیدا کس نے کیا تھا۔ ان کی حکومت کے توسط سے قوم کو چند ایسے وزراء سے بھی تعارف حاصل ہوا جن کے نام اور پارٹی خدمات سے خود پی پی پی کے پرانے ورکرز بھی تقریبا ناآشنا تھے اور یوں پانچ برس تک لشتم پشتم اس پارٹی کی حکومت تو قائم رہی مگر زندگی کا کوئی ایسا تخلیقی شعبہ نہیں جس میں اس دوران میں شدید انحطاط نہ آیا ہو۔ عام طور پر اس طرح کی گورننس کو بیڈگورننس کہا جاتا ہے لیکن یہاں تو نوبت کم و بیش non governance تک پہنچ گئی کہ نہ تو حکومتی رٹ کا کہیں پتہ تھا اور نہ ہی انرجی کے کرائسس اور مہنگائی کے طوفان کو کوئی روکنے والا رہا۔

پی پی پی کے ورکرز اور اس کے نعرے کے ساتھ ہمدردی رکھنے کی وجہ سے آج ہر صاحب انصاف اور اہل دل ایک عجب مخمصے میں گرفتار ہے یعنی ہم سب یہ چاہتے ہیں کہ قوم کے ہر فرد کو انصاف سمیت تمام بنیادی انسانی حقوق بلا تمیز رنگ و نسل اور مذہبی عقیدے کے حاصل ہوں لیکن یہ بھی ہے کہ اس کے لیے اب کوئی اس پارٹی کی موجودہ لیڈرشپ پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ سو آخر میں دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ خدا اس پارٹی کو اور اس کے توسط سے قوم کو ایسے سیاستدان عطا کرے جو اس مقام کے صحیح معنوں میں اہل ہوں لیکن یہ لگتا ہے کہ اس کے لیے اصلی اور سچے ورکرز کو کم از کم آئندہ پانچ برس تو انتظار کرنا ہی پڑے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔