بچت کی اہمیت اور اس کےلیے جدت آمیز سہولیات

ناصر تیموری  جمعـء 23 فروری 2018
آپ کے ہاتھ میں جوں ہی رقم آئے، سب سے پہلے اس میں سے بچت الگ کرلیجیے اور باقی رقم اس کے بعد خرچ کیجیے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

آپ کے ہاتھ میں جوں ہی رقم آئے، سب سے پہلے اس میں سے بچت الگ کرلیجیے اور باقی رقم اس کے بعد خرچ کیجیے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

انسان بے شک اپنی سوچ بڑی رکھے لیکن اس پر عمل درآمد کا آغاز چھوٹے کام سے کرے۔ اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشیں روک کر خاصی زیادہ بچت کی جاسکتی ہے ۔ ایک دن پیزا نہ کھائیں تو بچت شروع ہوجائے گی تاہم یہ بات مدنظر رہے کہ سرمایہ کاری پر قلیل المدتی فائدہ کم ملتا ہے یعنی اگر کوئی شخص 25 سال کی عمر سے میوچوئل فنڈ یا ایسیٹ مینجمنٹ میں کم تر سرمایہ کاری سے آغاز کرے تو وہ بیس سے پچیس سال میں خطیر رقم کا مالک بن سکتا ہے۔ لوگ عام طور پر مستقبل میں بچوں کی اعلیٰ تعلیم، شادیوں اور ریٹائرڈ زندگی گزارنے جیسے کاموں کےلیے بچت کے ذریعے طویل المیعاد بنیادوں پر سرمایہ کاری کرتے ہیں۔

وارن بفٹ کا بچت کے حوالے سے دلچسپ اصول ہے: ان کا کہنا ہے کہ دنیا کے بیشتر لوگ اخراجات سے بچنے والی رقم کو بچت سمجھتے ہیں لیکن یہ تصور غلط ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ آپ عملی زندگی میں داخل ہوتے ہی یہ فیصلہ کرلیجیے کہ آپ اپنی آمدن کا اتنے فیصد بچائیں گے۔ آپ کے ہاتھ میں جوں ہی رقم آئے، آپ سب سے پہلے اس میں سے بچت الگ کرلیجیے اور باقی رقم اس کے بعد خرچ کیجیے۔

میوچوئل فنڈز ایک وسیع شعبہ ہے جس میں لاکھوں لوگ اسٹاکس، بانڈز، ریئل اسٹیٹ یا کسی بھی سیکیورٹیز کے مشترکہ فنڈ میں سرمایہ لگاتے ہیں۔ ہر سرمایہ کار کو اپنے سرمائے کی شرح سے نفع ملتا ہے۔ بہت سے لوگ سوال کرتے ہیں کہ میوچوئل فنڈز میں سرمایہ کاری کتنے عرصے کےلیے ہوتی ہے؟ 20 سال، 10 سال یا 5 سال۔ اصل میں یہ سارے آپشنز درست ہیں۔ بلکہ آپ ایک دن کےلیے بھی پیسہ لگا سکتے ہیں۔

بچت مختلف سیونگ فنڈز میں بھی کی جاتی ہے۔ کاروبار سے حاصل منافع یا ماہانہ تنخواہ سے بچت کی بدولت ان کے میوچوئل فنڈ اکاؤنٹ میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ بہت سے لوگوں کو میوچوئل فنڈز میں اس بات پر تشویش ہوتی ہے کہ کیا ان کا پیسہ کہیں کسی غیر اسلامی سرمایہ کاری میں تو نہیں لگ رہا۔ اس ضمن میں مختلف ایسیٹ مینجمنٹ اداروں نے شریعت سے مطابقت رکھنے والی اسکیمیں بھی متعارف کرائی ہیں۔ یوں، لوگوں کےلیے بچت کے حوالے سے نت نئی سہولیات سامنے آرہی ہیں۔

بچت کے بارے میں بہت سے لوگوں کے خدشات ہیں۔ بعض لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ کم از کم کتنے پیسوں سے سرمایہ کاری کی جائے۔ اب عالم یہ ہے کہ بہت سے کاروباری ادارے 500 روپے میں بھی میوچوئل فنڈز اکاؤنٹ کھول دیتے ہیں۔ بچت کے حوالے سے بہت کاروباری اداروں نے سہل اور تیزرفتار سہولیات متعارف کرائی ہیں۔ مثلاً ایم سی بی عارف حبیب نے آئی سیو (iSave) کے نام سے ایک دلچسپ ڈیجیٹل آپشن متعارف کرایا ہے۔ اس کی مدد سے چند منٹ میں ہی آن لائن رجسٹر یشن کرائیے اور اپنے بینک اکاؤنٹ سے ’’آئی سیو‘‘ اکاؤنٹ میں بہ آسانی پیسے منتقل کرکے بچت کا آغاز کردیجیے۔ ایک بڑی سہولت یہ ہے کہ ماہانہ تنخواہ اس میں جمع کراتے جائیے اور بوقت ضرورت اپنے اخراجات کےلیے پیسے نکالتے رہیے۔ باقی رقم پر بچت کا منافع جمع ہوتا جائے گا۔

اسی طرح اگر کوئی اپنے بینک اکاؤنٹ میں پیسے واپس آئی سیو سے منتقل کرنا چاہے تو اسی وقت آن لائن ہی یہ کام ممکن ہے۔ اس ضمن میں ایم سی بی عارف حبیب نے بچت کے خواہش مند افراد کےلیے بینکوں میں استعمال ہونے والا اے ٹی ایم کارڈ بھی متعارف کرانے کا اعلان کیا ہے۔ یہ پاکستان میں اپنی نوعیت کی جدت انگیز پیش رفت ہے۔

یہاں یہ بات مدنظر رہے کہ کاروبار میں نفع و نقصان دونوں کو ضرور سامنے رکھنا چاہیے۔

عام طور پر لوگ یہ سوچتے ہیں کہ اگر تنخواہ ملنے کے پہلے ہی روز اپنی خواہشات پر خرچ نہیں کریں گے تو پھر کب خرچ کریں گے۔ بعض لوگ سیلری کا چھوٹا سا حصہ نکال کر میوچوئل فنڈز اور دیگر شعبوں میں لگاتے ہیں۔ اس طرح پیسے خرچ کرنے سے پہلے بچت کی اچھی عادت اپنائیے۔

لوگ سوچتے ہیں کہ چھوٹی بچت سے کیا ملے گا۔ ہر مہینے کے آغاز میں چھوٹی سی رقم نکال کر منظم سرمایہ کارانہ پلان میں لگائیے اور پھر باقاعدہ بچت کا کمال دیکھیے۔ پیسے بڑھتے ہی رہیں گے۔ بچت چاہے روزانہ کی ہو یا ماہانہ بنیادوں پر، رقم چھوٹی بڑی ہونے کی پروا کئے بغیر آج ہی سے بچت کا آغاز کردیجیے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ناصر تیموری

ناصر تیموری

بلاگر پیشے کے اعتبار سے ایک صحافی ہیں۔ فی الوقت ایک نجی ادارے میں فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر سماجی، علاقائی اور بین الاقوامی معاملات پر اظہار خیال کرتے رہتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔