آٹزم کی 92 فیصد درستگی سے تشخیص کرنے والا بلڈ ٹیسٹ

ویب ڈیسک  جمعـء 23 فروری 2018
واروک یونیورسٹی کی ڈاکٹر نائلہ ربانی اور ان کے ساتھیوں نے خون کا سادہ ٹیسٹ بنایا ہے جو مریض اور بالخصوص بچوں میں آٹزم کی موجودگی کو وقت سے قبل بھانپ سکتا ہے۔ فوٹو: بشکریہ واروک یونیورسٹی

واروک یونیورسٹی کی ڈاکٹر نائلہ ربانی اور ان کے ساتھیوں نے خون کا سادہ ٹیسٹ بنایا ہے جو مریض اور بالخصوص بچوں میں آٹزم کی موجودگی کو وقت سے قبل بھانپ سکتا ہے۔ فوٹو: بشکریہ واروک یونیورسٹی

 لندن: برطانوی ماہر ڈاکٹر نائلہ ربانی اور ان کے ساتھیوں نے آٹزم سے خبردار کرنے والا کامیاب بلڈ ٹیسٹ وضع کیا ہے۔

برطانوی ماہرین نے چھوٹے بچوں میں آٹزم کے مرض سے خبردار کرنے والا ایک سادہ بلڈ ٹیسٹ وضع کرلیا ہے۔ ماہرین کے مطابق ہر 68 بچوں میں سے ایک میں آٹزم اسپیکٹرم ڈس آرڈر (اے ایس ڈی)  یا مختصراً آٹزم کہا جاتا ہے۔ یہ بیماری بچوں پر حملہ آور ہوتی ہے جس کی ابتدائی تشخیص سے علاج میں مدد مل سکتی ہے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل دنیا میں ایسا کوئی ٹیسٹ موجود نہ تھا جو قبل ازوقت آٹزم سے خبردار کرسکے۔

ڈاکٹرنائلہ کے مطابق بعض پروٹین کی تبدیلیاں خون اور پیشاب میں آٹزم کی خبر دےسکتے ہیں۔ اس کےلیے انہوں نے 38 بچوں کے خون اور پیشاب کے ٹیسٹ لیے جن کی عمریں 5 سے 12 برس تھیں جو اے ایس ڈی کے شکار تھے جبکہ 31 بچے اس بیماری سے پاک تھے۔ ماہرین نے ان دونوں گروپس کے خون اور پیشاب کے نمونوں کا بغور جائزہ لیا۔

آٹزم کے شکار بچوں کے خون کے پلازما میں پروٹین خراب یا شکستہ دیکھا گیا۔ اس کے بعد مسلسل غور اور تحقیق سے معلوم ہوا کہ آٹزم کے مریضوں کے خون اور پیشاب میں ڈائی ٹائروسِن اور گلائسی ایشن اینڈ پروڈکٹس (اے جی ای) کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اس بنا پر ماہرین نے ان بایومارکرز کو نوٹ کرنے والا ایک ٹیسٹ تیار کرلیا۔

اس کے بعد جب خون اور پیشاب میں موجود اجزا کی تفصیلات ایک کمپیوٹر الگورتھم میں شامل کی گئیں تو ٹیسٹ نے 92 فیصد درستگی سے آٹزم کی درست شناخت کی۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر 100 مریض ہوں تو یہ 92 مریضوں میں آٹزم ہونے یا نہ ہونے کی ٹھیک ٹھیک پیش گوئی کرسکتا ہے۔

آٹزم کا مرض پوری دنیا میں ایک چیلنج بنا ہوا ہے جس میں بچے کی ذہنی، دماغی، نفسیاتی اورجسمانی نشوونما شدید متاثر ہوتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔