رحمت کے فرشتے

ذوالفقار احمد چیمہ  بدھ 21 فروری 2018
zulfiqarcheema55@gmail.com

[email protected]

اس بار کراچی میں قیام زیادہ رہا جسمیں حب کے ٹیکنیکل ٹریننگ سینٹر کا دورہ بڑا مفید رہا۔ حب کراچی سے قریب ہے مگر ہے صوبہ بلوچستان کا حصّہ۔ صنعتی مرکز ہونے کے ناتے فنی تربیت میں سینٹر آف ایکسیلنس بنانے کے لیے اسی ادارے کا انتخاب کیا گیا ہے۔ اس کے بعد کراچی شپ یارڈ کا دورہ بھی بڑا مفید اور حوصلہ افزا تھا کہ اس کے مینیجنگ ڈائریکٹر وائس ایڈمرل حسن شاہ کی معیّت میں تمام ورکشاپس دیکھیں اور نیوٹیک کے زیرِاہتمام تربیت حاصل کرنے والے نوجوانوں سے ملاقات کی۔ وائس ایڈمرل صاحب نے یہ کہہ کر دل خوش کردیا کہ ان تمام نوجوانوں (چار سو سے زائد) کو ٹریننگ مکمّل ہونے کے بعد کراچی شپ یارڈ میں ہی ملازمت مل جائے گی۔

کراچی میں میری نئی کتاب  “دوٹوک” کی تقریبِ رونمائی بھی منعقد ہوئی۔ تقریب آرٹس کونسل کراچی میں منعقّد ہوئی جس کے صدر احمد شاہ انتہائی متحرّک شخص ہیں، ادب کے فروغ کے لیے ان کی مخلصانہ کوششیں قابلِ قدر ہیں۔  تقریب میں سینئر صحافی جناب محمود شام نے سیر حاصل گفتگو کی، آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ اور پورٹ قاسم اتھارٹی کے چیئرمین ڈاکٹر نجف قلی مرزا نے بھی اظہارِخیال کیا اور کتاب سے زیادہ مصنّف کے بارے میں اپنے تجربات اور جذبات شیئر کیے۔ معروف صنعتکار اور کالم نگار مرزا اشتیاق بیگ اور احمد شاہ نے بھی اظہارِ خیال کیا، تقریب کی میزبانی کلکٹر کسٹمز عرفان جاوید نے کی اور خوب کی۔ آرٹس کونسل کا ہال سامعین سے بھرا ہوا تھا جسکے لیے جاوید اکبر، عمر شاہد، عمر ریاض، عبدالرحیم شیخ اور نبیلہ عمر کی کوششوں کا بڑا دخل ہے۔

کراچی میں ہونے والی نیوٹیک کی کئی تقریبات میں مجھے “سیلانی” کے ہیڈ آفس آنے کی دعوت ملتی رہی، لیکن میں نہ جاسکا۔ لہٰذا اس بار وہاں جانے کا پختہ ارادہ کرکے گیا تھا۔ جاکر دیکھا تو جسم و روح پر اس کے بڑے خوشگوار اثرات مرتّب ہوئے۔ سیلانی ویلفیئرٹرسٹ ایک فلاحی ادارہ ہے جو 1999 میں قائم ہوا تھا، مولانا بشیر فاروقی اس کے بانی اور سربراہ ہیں۔ یہ ادارہ خواجہ محکم الدّین سیلانی کے نام سے موسوم ہے جو ہندوستان کے مختلف علاقوں میں گھومتے رہتے تھے (جسکی وجہ سے انھیں سیلانی کہا جانے لگا) اور وہ اپنی درگاہ پر غریبوں اور مسکینوں کے کھانے کا اہتمام کیا کرتے تھے۔

سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ کے ہیڈکواٹرز میں اس کے سربراہ مولانا بشیر فاروقی صاحب سے بھی ملاقات ہوئی، وہ ایک درویش صفت مگر انتہائی متحرک انسان ہیں جنکی سربراہی میں اس ادارے کے کاموں اور کارناموں کا پتہ چلا تو حیرانی بھی ہوئی اور رشک بھی آیا کہ ہمارے ملک میں ایسی معجزاتی شخصیات بھی ہیں جنہوں نے اپنی پوری زندگی انسانوں کے مسائل اور مصائب کم کرنے کے لیے وقف کررکھی ہے۔ یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی کہ یہ ادارہ اپنے پچپن دسترخوانوں پر ہر روز ڈیڑھ لاکھ افراد کو مفت مگر معیاری کھانا کھلاتا ہے، ہر ماہ چار سے پانچ سو بچیوں کی شادیوں کا بندوبست کرتا ہے۔ سیلانی ٹرسٹ نے ہائیر کے تعاون سے اپنے دفاتر کے باہر میزبان سیلانی ریفریجریٹرز کی سہولت فراہم کی ہے جن میں سے ضرورتمند کسی بھی وقت اشیائے خورونوش اپنے اور اپنے فیملی ممبران کے لیے بلاروک ٹوک حاصل کرسکتے ہیں، مخیّر حضرات اور عام لوگ بھی ان ریفریجریٹرز میں کھانے پینے کی اشیاء رکھ جاتے ہیں۔

سفید پوش خاندانوں کی کفالت بھی سیلانی کی اوّلین ترجیھات میں شامل ہے، کئی خاندان ایسے ہیں جنکا سربراہ یا کمانے والا اچانک وفات پاجاتا ہے یا کسی حادثے کے باعث معذور ہوجاتا ہے تو سارا خاندان مالی مشکلات کا شکار ہوجاتا ہے ایسے خاندانوں کو ماہانہ راشن، یوٹیلٹی بلوں کی ادائیگی، گھروں کا کرایہ اور بچوں کے تعلیمی اخراجات کے علاوہ دیگر ضروریاتِ زندگی کی چیزیں فراہم کی جاتی ہیں۔ اسوقت سیلانی ٹرسٹ ساڑھے سات ہزار خاندانوں کی کفالت کررہا ہے۔ یہ ادارہ ایک طرف غریبوں کی مالی امداد کرتا ہے اور دوسری طرف انھیں اپنے ہاتھوں سے روزی کمانے کی بھی ترغیب دیتا ہے اور اس سلسلے میں ان کی مدد بھی کرتا ہے۔ ادارے نے درجنوں مستحق افراد میں پَوپ کَورن مشینیں اور رکشے بھی تقسیم کیے ہیں۔

ہمارے ملک میں بے شمار لوگ ایسے بھی ہیں جنھیں رہنے کے لیے چھت میسّر نہیں ہے، سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ ایسے افراد کو کرائے کی ادائیگی اور گھروں کی مرمّت میں مدد کرتا ہے، اس کے علاوہ اس ادارے نے سیلانی فلیٹ اسکیم بھی شروع کی ہے جسکے تحت مستحق لوگوں کو آسان قسطوں میں فلیٹ فراہم کیے جائیں گے۔ ماہِ رمضان میں یہ ادارہ غریب خاندانوں میں پورے مہینے کا راشن اور عید کا سامان فراہم کرتا ہے۔ پچھلے سال اس ادارے نے 35000سے زائد خاندانوں میں رمضان پیکیج تقسیم کیے۔ سیلانی کی جانب سے اس کے دسترخوانوں پر سحری اور افطاری کا بھی خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔ سیلانی ویلفیئرٹرسٹ غریب و لاچار لوگوں کے لیے کفن دفن کا اہتمام بھی کرتا ہے اس سلسلے میں انھوں نے میّت بس سروس کا اجراء کردیا ہے۔ اس کے علاوہ سیلانی نے ایک منفرد فائر فائٹنگ سروس بھی شروع کی ہے جسکے تحت رضاکاروں کی ٹیم موٹرسائیکلوں پر ایسی تنگ گلیوں میں بھی پہنچ جاتی ہے جہاں فائر بریگیڈ کی گاڑیاں نہیں پہنچ سکتیں، یہ ٹیم جدید کیمیکل اور آگ بجھانے کے آلات کے ذریعے فوری کاروائی کرتی ہے۔ یہ ادارہ پسماندہ علاقوں پر خصوصی توجّہ دیتا ہے، سیلانی ٹرسٹ تھرپارکر میں ہر ماہ چار سو افراد کو آٹے کی بوریاں فراہم کرتا ہے، نیز کپڑے، سویٹرز اور کمبل بھی فراہم کیے جاتے ہیں۔

تھرپارکر میں ہی بچّوں کو پرائمری تعلیم کی فراہمی کے لیے سیلانی نے گرین ہاؤس اسکول پراجیکٹ کے تحت پچّاس سے زائد گوٹھوں میں گرین ہاؤس اسکول بھی قائم کردیے ہیں جہاں صبح پرائمری اور قرآنی تعلیم دی جاتی ہے اور شام کو تعلیمِ بالغان کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ سیلانی ٹرسٹ نے “صاف پانی پراجیکٹ” کا بھی آغاز کردیا ہے اس کے تحت آراو پلانٹس اور ٹھنڈے پانی کے کولرز فراہم کیے جاتے ہیں۔ سیلانی ٹرسٹ کے تحت پورے ملک میں ہر روز ایک ہزار سے زائد مویشی ذبح کیے جاتے ہیں اور ان کا گوشت غرباء کے علاوہ ٹی بی اور کینسر کے مریضوں اور نادار طلباء میں بھی تقسیم کیا جاتا ہے۔ سیلانی انٹرنیشنل ٹرسٹ زیابیطس اور ہیپاٹائٹس جیسی موذی  بیماریوں میں مبتلا مریضوں کی بھی خدمت کررہا ہے، اس کے ہیڈکوارٹرز میں تھیلیسمیاسینٹر بھی قائم کردیا گیا ہے جو جدید ترین آلات سے لیس ہے۔

سیلانی ٹرسٹ کے تحت پہلی بار موبائل ہیلتھ کلینک سروس کا آغاز بھی کردیا گیا ہے جسکے تحت دور دراز علاقوں میں رہنے والے غریب اور تنگ دست لوگوں کو ، جو ڈاکٹر یا اسپتال تک جانے کی استعداد نہیں رکھتے، طبّی سہولت مفت فراہم کی جاتی ہے۔ موبائل کلینکس کے ذریعے ہیپاٹائٹس اور ڈینگی جیسی مہلک بیماریوں کے بارے میںآگاہی بھی پیدا کی جاتی ہے۔ اس ٹرسٹ کے زیرِاہتمام ماں اور بچّے کی نگہداشت کے مراکز بھی قائم کیے گئے ہیں جہاں انھیں معیاری طبّی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم کے لیے سیلانی علیمیہ یونیورسٹی بھی قائم کردی گئی ہے۔

اتنا کچھ جاننے کے بعد مجھے یہ تجسس تھا کہ یہ ادارہ نوجوانوں کو فنی تربیت فراہم کرکے ہنرمند بھی بنارہا ہے یا نہیں؟ میرے پوچھنے پر بتایا گیا کہ سیلانی ٹرسٹ کے تحت تکنیکی تربیت کے بھی پروگرام چلائے جاتے ہیں اس پر میں نے اس قابلِ اعتماد اور قابلِ رشک ادارے کے سربراہ کو فوراً پیشکش کی کہ اس سلسلے میں نیوٹیک آپ کے ادارے کے ساتھ پارٹنر شپ کرکے خوشی محسوس کریگا۔

لگتا ہے مولانا بشیر فاروقی صاحب اور ان کے بے لوث ساتھی رحمت کے فرشتے ہیں جو انسانوں کے زخموں پر مرہم رکھتے ہیں اور جو افتادگانِ خاک کے مسائل اور مصائب کم کرنے کے لیے دن رات کوشاں رہتے ہیں۔ مجھے رحمت کے ان فرشتوں کی زندگیاں بڑی ہی قابلِ رشک لگیں۔ کائناتوں کا خالق اور مالک یقیناً ان فرشتوں کو آخرت کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی اس کا اجر عطا کریگا۔

نوٹ:پچھلے اتوار کو “دوٹوک” کی تقریب الحمرا آرٹس کونسل میں منعقد ہوئی تو محترم مجیب الرحمن شامی صاحب اور امجد اسلام امجد صاحب سمیت کئی اصحابِ علم و دانش کا کہنا تھا کہ کتاب کی تقریب میں کبھی ایسا نہیں دیکھا کہ ہال پڑھے لکھے لوگوں سے اسطرح بھرا ہو کہ کچھ سیڑھیوں پر بیٹھے ہوں اور بہت سے لوگ کھڑے بھی ہوں، اﷲسبحانہ تعالیٰ کی رحمتوں کا جتنا شکرادا کروں کم ہے۔ تقریب کے دوران ہی محترمہ عاصمہ جہانگیر کے انتقال کی خبر ملی ، قومی اداروں کے آئینی کردار کے بارے میں ان کے نظریات بہت واضح تھے ۔ بلاشبہ جمہوریت کی پاسبانی کے لیے اٹھنے والی ایک توانا آواز خاموش ہوگئی ہے جس پر مجھ سمیت جمہوریت کے ہر خیرخواہ اور حامی کو صدمہ ہوا ہے۔ ان کے کئی نظریات سے اختلاف اپنی جگہ __ مگر میں ان کے بچّوں کے غم میں شریک ہوں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔