ہماری قیادت کہاں ہے

عبدالقادر حسن  بدھ 21 فروری 2018
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

دنیا اس قدر سمٹ گئی ہے کہ حالات و واقعات تحریری ہی نہیں تصویری صورت میں بھی وقوع پذیر ہوتے ہی چاردانگ عالم میں پھیل جاتے ہیں۔ آج تک دنیا میں ہم مسلمانوںکے لیے ان حالات وا قعات میں خوشخبریاں کم ہی ہوتی ہیں بلکہ ہماری مظلومیت کی داستانیںبھر ی پڑی ہیں، دنیا بھر کی زمین اگر کسی کے خون سے رنگین ہو رہی ہے تو وہ خون مسلم ہے جو کشمیر سے لے کر فلسطین سمیت دوسرے اسلامی ممالک میں بہایا جا رہا ہے۔

خود ہمارے ہاں سرزمین خون مسلم سے رنگین ہو رہی ہے۔ غیر مسلم ٖفوجیوں کی شوقیہ چلائی گئی گولیوں سے مسلمانوں کا خون بہا کر یہ فوجی نامعلوم اپنا کون سا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔کشمیر ہو یا عراق ،افغانستان سے فلسطین کے مسلمانوں پر بارود کی بارش سے اپنا غصہ نکالا جا رہا ہے ۔

روایتی اسلحے کے علاوہ ان جدید ترین ہتھیار استعمال ہوتے ہیں جو  کشتوں کے پشتے لگا دیتے ہیں۔ پاکستان میں بھی کئی شر پسند پچھلی دہائی سے زائد عرصہ میں زیادہ فعال رہے، ان کی شرپسندی کی وجہ سے ہم نے کئی گہرے گھاؤ کھائے اور زخم سہے ہیں، اپنے ملک کو کسی حد تک کچھ وقت کے لیے ان شر پسندوں کے رحم و کرم پر بھی چھوڑ دیا تھا، آئے روز کے دھماکوں میں سیکڑوں نہیں ہزاروں بلکہ لاکھوں پاکستانی لقمہ اجل بنے ہیں۔مسلمانوں کے مسلسل قتل کے چند میدان ہیں جو مسلسل گرم رہتے ہیں ورنہ ہر روز کہیں نہ کہیں دوسری جگہوں سے مسلمانوں کو قتل کرنے یا سمندر برد کرنے کی خبریں بھی آجاتی ہیں اور ان کا جرم بھی مسلمان ہونا ہی قرار پاتا ہے۔

مسلمانوں کے بلا خوف و خطر قتل کی مثالیں تاریخ میں ملتی ہیں جب باقاعدہ جنگوں میں دونوں طرف سے خون بہتا تھا جس میں مسلمان اور اس کے دشمن دونوں شامل ہیں۔ جنگوں کے علاوہ ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی کسی کو محض اس لیے قتل کر دے کہ وہ مسلمان ہے جو اسے ناپسند ہے ۔ مسلمانوں پر مسلط کی گئی خونریزی کے جن مقامات کا میں نے ذکر کیا ہے یہاں قتل و خونریزی کا سلسلہ مسلمانوں نے نہیں ان پر حملہ آوروں نے شروع کیا اور دنیا بھر میں ’دہشت گرد‘ قرار دئے جانے والے مسلمانوں نے کہیں بھی پہلی گولی چلائی نہیں بلکہ کھائی ضرور ہے۔

قتل مسلم کا سلسلہ اتنا پرانا ہو چکا ہے کہ میرے قارئین بھی یہ سوچیں گے کہ کون سا ایسا نیا واقعہ ہو گیا ہے کہ مجھے مسلمانوں کے قتل کی یاد آگئی ہے۔ مجھے گزشتہ چند روز میں ذرایع ابلاغ کے جدید ذرایع سے کچھ ایسے ویڈیو کلپ دیکھنے کو ملے جن میں مسلمانوں کو نہایت بے دردی اور بے رحمی کے ساتھ قتل کیاجارہا تھا، یہی نفرت اور سفاکی کی جھلک تھی جس نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ کیا خون مسلم اب اس قدرارزاں ہو گیا ہے اور بے گناہ مسلمانوں کے قاتلوں کو روکنے والا کوئی نہیں ۔کہاں گئے وہ عالمی جمہوریت کے چیمپیئن اور انسانی حقوق کے علمبردار جو مسلمانوں کی جانب سے چھوٹی سے چھوٹی بات پر تو طوفان برپا کر دیتے ہیں مگر جب مسلمانوں کے خلاف یہی عمل دہرایا جا رہا ہوتویہ عالمی ٹھیکیدار کسی کونے میں دبک جاتے ہیں اور اپنے ہونٹ سی لیتے ہیں۔

ان غیر مسلموں سے گلہ تو تب کریں جب اپنے ساتھ دیں آخر کیا ہے کہ پوری دنیا کے مسلمانوں کی آنکھوں کے سامنے یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ نوجوان اور بچے قتل کیے جارہے ہیں، عورتوں کی عزتیں برباد ہو رہی ہیں ،کیا دوسرے مسلمانوں کے دست بازو شل ہو گئے ہیں یا ان کے اندر سے حمیت ختم ہو گئی ہے، یہ سب دیکھ کر بزرگوں کی آنکھیں پتھرا رہی ہیں مگر مسلم امہ کے وجود میں کوئی حرکت بلکہ جھر جھری سی بھی نہیں اٹھتی جیسے کیڑے مکوڑوں کے مرجانے کا کوئی انسان نوٹس ہی نہیں لیتا۔مسلمانوں کا زوال اور انحطاط صرف یہ نہیں کہ ان کے پاس جدید ہتھیار نہیں اور سائنسی مہارتیں نہیں، ان کا اصل زوال یہ ہے کہ ان کے دلوں میں ایمان کی حرارت باقی نہیں رہی اور ان کی جرائتوں کو داد دینے کو جی چاہتا ہے کہ وہ مسلمانوں کے قاتلوں کے ساتھ الٹا معاملہ بندیاں کر رہے ہوتے ہیں۔ اگر مسلمانوں کے قاتلوں سے بدلہ نہیں لے سکتے.

اگر مظلوم کی حمایت نہیں کر سکتے، ان کی جانیں نہیں بچا سکتے تو کم از کم احتجاج  توکر سکتے ہیں ۔ اگر پاکستان کی بات کی جائے تو ہم نے اپنے ازلی دشمن بھارت کی گردن میں جو ناخن گاڑھ رکھا ہے جس کے نیچے وہ مسلسل تڑپ رہا تھا،  ہم نے نہ جانے کس کے کہنے پر وہ ناخن نکال لیا ہے ۔شاید ہمیں ووٹ ہی بھارت دوستی کا ملا تھا، اس لیے ہم نے اس دوستی میں ہاتھ کھینچ لیا ہے یا پھر مستقبل میں ہونے والے انتخابات میں ہم پھر یہی بھارت نوازی کا نعرہ لگانے والے ہیں ۔ جنگ کشمیری لڑ رہے ہیں اور ہم پاکستان میں بیٹھ کر ڈر رہے ہیں ۔

کشمیری مجاہدین کو کسی پاکستانی مجاہد کی اب ضرورت نہیں ہے اگر ایک لاکھ سے زائدکشمیر ی نوجوان جانیں دے چکے ہیں تو ابھی کئی لاکھ باقی ہیں ہم مسئلہ کشمیر کے ایک فریق ہیں لیکن اگر اصلی کشمیری حریت پسند ہم سے کوئی توقع رکھتے ہیں تو یہ ان کا حق اور ہمارا فرض ہے کہ ایک فریق ہونے کے ناطے ان پر کوئی احسان بھی نہیں ہے۔ ہمارا مسلم امہ کے لیے جو کردار متعین کر دیا گیا تھا وہ ہم ادا کرنے سے قاصر رہے کیونکہ ہمیں ایسی لیڈر شپ ہی میسر نہ آسکی جو عالمی برادری کو لیڈ کر سکتی، ہمیں سطحی قسم کے لیڈر ملے جو اپنے مفادات تک محدود رہے اور یوں ہم مسلم امہ کی واحد ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود طفیلیے بن کر رہے اور مسلم دنیا کے لیے اپنا کردار ادا کرنے سے قاصر رہے البتہ معاملات کو مزیدالجھانے کے لیے ہم نے ایسی لاتعداد بھانت بھانت کی تجویزیں دیں  کہ سارے خواب پریشان ہو گئے ہیں۔

شد پریشاں خواب من از کثرت تعبیر ہا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔