نیکی اور گناہ کے اپنے اپنے پیمانے ہیں

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 21 فروری 2018

کنفیوشس سے جب پوچھا گیا کہ اگر آپ کو حکومت کی ذمے داریاں سونپ دی جائیں، تو آپ سب سے پہلے کیا کام کریں گے تو انھوں نے جواب دیا کہ میں سب سے پہلے لوگوں کی زبان کی اصلاح کروں گا۔ ان کے ا س جواب پر لوگ حیران ہوئے اور پوچھا ’’اس کی کیا وجہ ہے‘‘ اس کے جواب میں کنفیوشس نے کہا کہ ’’جب کوئی حکم دیاجاتا ہے تو سمجھا نہیں جاتا جب سمجھا نہیں جاتا تو اس پر عمل غلط ہوجاتا ہے جب عمل غلط ہو جاتا ہے تو حکم دینے کا مقصد فوت ہوجاتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ پہلے لوگوں کی زبان کی اصلاح کی جائے ۔‘‘

کنفیوشس کی یہ بات بالکل ایسے ہی ہے جیسے کہ اگر کسی شخص نے کسی چیزکو صحیح طریقے سے نہیں سمجھا تو وہ اس کا استعمال بھی غلط کرے گا جیسے کہ اگرکسی شخص پر یہ بات عیاں نہیں ہے کہ نیکی اورگناہ کیا ہیں؟ تو نتیجے میں وہ شخص نیکی اورگناہ کے اپنے پیمانے بنالیتا ہے۔ جس طرح سے آج پاکستان میں ہر خاص شخص کے نیکی اورگناہ کے الگ الگ پیمانے ہیں۔ ایک عام شخص اگر ایک ہزار روپے کی چوری میں پکڑا جاتا ہے تو جیل کی سزا بھگتا ہے تو دوسری طرف خاص شخص ملک کے خزانے سے اربوں کی چوری کرتا ہے تو معزز ٹھہرایا جاتاہے۔ اگر ایک عام شخص رشوت لیتے پکڑ لیا جاتا ہے تو سزا کا حقدار ٹھہرایا جاتاہے جب کہ دوسری طرف خاص شخصوں کو کمیشن دے کر لوگ خوشی سے پھولے نہیں سماتے ہیں۔

ایک عام شخص قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے تو نتیجے میں سلاخوں کے پیچھے ہوتاہے جب کہ خاص شخص دن رات قانون اور انصاف کوبرا بھلا کہے تو لوگ زور زورسے تالیاں بجا کر اسے خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ اگر عام شخص کر پشن کرتا ہے تو و ہ سالوں جیل کی روٹیاں کھاتا ہے لیکن دوسری طر ف بڑا عہدیدار کرپشن اور لوٹ مارکرتا ہے تو وہ اور زیادہ بڑے عہدے اور منصب کا حقدار ٹھہرایا جاتا ہے۔ ایک عام شخص کوئی قتل کرتا ہے تو وہ عمر قید کی سزا بھگتتا ہے لیکن دوسری طرف خاص شخص ملاوٹ، جعلسازی کے ذریعے ہزاروں لوگوں کو موت کی نیند سلا دیتا ہے تو وہ بڑا بزنس مین کہلایا جاتا ہے اور اس کی ہر جگہ خوب آؤ بھگت کی جاتی ہے۔

آج پاکستان میں ہر خاص شخص نے اپنے فائدے ، منافعے اور لوٹ مار کے لیے نیکی اورگناہ کے اپنے اپنے پیمانے بنا رکھے ہیں الگ الگ تشریح کر رکھی ہے عام افراد کے لیے کرپشن،چوری، لوٹ مار، قتل، انصاف اور قانون کی خلاف ورزی کے الگ پیمانے ہیں اور خاص افراد کے لیے ان کے الگ معنی اور تشریح ہیں یعنی ایک ہی وقت میں مختلف جگہوں میں نیکی اور گناہ اپنے روپ گرگٹ کی طرح بدلتے پھر رہے ہیں۔ دنیا بھر کے سماجوں میں ہمارے سماج کو یہ اعزاز بھی حاصل ہوگیا ہے کہ اس سے زیادہ کنفیوز، بے حس، انتشار زدہ، دوسرا کوئی اور سماج ہے ہی نہیں۔ جہاں ہر خاص شخص عقل کے بجائے پیٹ سے سوچ رہا ہے، ظاہر ہے بڑے بڑے عہدوں، منصبوں، رتبوں پر بیٹھے خاص شخص پیٹ سے سوچیں گے تو نتیجہ اس سے مختلف نکل بھی کیسے سکتا ہے پوری دنیا میں نیکی اور بد ی کے پیمانے ایک جیسے ہیں۔

قانون، انصاف اور اخلاق کے مطلب اور تشریح ایک جیسی ہے اور یہ پیمانے، مطلب اور تشریح ہر عام اور خاص شخص پر ایک ہی جیسے لاگو ہوتے ہیں گناہ اور جرم عام شخص کرے یا خاص شخص سزا ایک ہی جیسی ملتی ہے۔ ہمارے سماج کو دیکھ کر سقراط کی کہی گئی بات بہت یاد آتی ہے ا س نے کہا تھا ’’تصورکرو کہ انسان کسی زمین دوز غار میں رہتے ہیں وہاں وہ بچپن سے زنجیروں میں جکڑے پڑے ہیں انھوں نے اگر کوئی روشنی دیکھی ہے تو وہ اس آگ کی ہے جو سامنے کی دیوار پر متحرک سائے پیدا کرتی ہے وہ تمام دن ان سایوں کو دیکھتے رہتے ہیں وہ یہ ہی دیکھتے رہتے ہیں کہ وہ ہیں کیسے اورکس طرح حرکت کرتے ہیں، ان میں سے جو لوگ ان سایوں کے متعلق قیاس آرائی کرنے میں بہت ماہر ہیں وہ بہت ہی قابل تعریف سمجھے جاتے ہیں۔ اب فرض کرو کہ ان میں سے کوئی قیدی کسی طرح آزادی حاصل کرلیتا ہے اور غار سے باہر نکل کر سورج کی روشنی میں پہنچ جاتا ہے یکبارگی تیز روشنی میں پہنچ کر اس کی نگاہیں خیرہ ہو جائیں گی۔

شاید وہ ان حقائق کو جنہیں وہ اس وقت اپنے چاروں طرف دیکھ رہا ہے ان سایوں کے مقابلے میں کم اہمیت دے لیکن جب رفتہ رفتہ اس کی آنکھیں سورج کی روشنی کی عادی ہوجائیں گی تو وہ اپنے چاروں طرف دیکھ سکنے کے قابل ہوجائے گا، اب اسے غارکی تاریک زندگی اچھی معلوم نہ ہوگی، اگر اس آزاد شخص کو دوبارہ قیدیوں کے ساتھ غار میں رہنے کے لیے بھیج دیا جائے تو اس پر کیا گزرے گی اس کی آنکھوں میں روشنی تو پھر بھی رہے گی لیکن وہ سایوں کو اچھی طرح پہچان سکے گا اور اس کے ساتھی قیدی اس پر ہنسیں گے وہ کہیں گے کہ جب وہ باہرگیا تھا تو اسے دکھائی دیتا تھا اب وہ اندھا ہوکر واپس آیاہے وہ کہیں گے کہ غار سے باہر نہ نکلنا ہی بہتر ہے وہ قانون بنا دیں گے کہ اگر کوئی شخص کسی قیدی کو آزاد کرانے اور اسے باہر روشنی میں لے جانے کی کوشش کرے گا تو اسے ہلاک کر دیا جائے ۔ جہاں تک اس شخص کا تعلق ہے جس نے سورج کو دیکھا ہے اگر اسے قانونی عدالت میں یاکہیں اور اپنی بے گناہی ثابت کرنا ہو تو ممکن ہے کہ وہ عجیب وغریب حرکتیں کرے اور لوگ اس پر ہنسیں اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی آنکھیں نور سے بھری ہیں اور اسے سابقہ ان لوگوں سے پڑ گیا ہے جو صرف پر چھائیوں سے واقف ہیں ۔‘‘

ہمارے سماج کے تمام خاص شخص بھی غارکے قیدی ہیں اور وہ غارکی تاریکی اور صرف آگ کے سایوں سے واقف ہیں نہ وہ خود رہائی چاہتے ہیں اور نہ ہی دوسرے خاص قیدیوں کو رہائی حاصل کرنے دینا چاہتے ہیں۔ ان کے نزدیک تمام عام شخص جو نیکی کی زندگی گذارنا چاہتے ہیں ۔ اندھے اورگمراہ ہیں وہ صرف اپنی تاریکی اپنی بدی کو ہی روشنی سمجھے بیٹھے ہیں آپ لاکھ انھیں اصل روشنی دکھانے کی کوشش کرلیں لاکھ انھیں قید سے رہائی دلوا نے کی جدوجہد کرلیں اب کچھ نہیں ہونے والا ہے کیونکہ ان سب کو اپنی قید، تاریکی، سایوں اور بدی سے محبت ہوچکی ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔