تمہیں یاد ہوکہ نہ یاد ہو

سردار قریشی  بدھ 21 فروری 2018

مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں نے اداکاری کے شعبے سے وابستہ دو نہایت منجھے ہوئے اور مقبول فنکاروں کے ساتھ بھی کام کیا ہے، یہ اور بات ہے کہ تب وہ دونوں میرے شعبے یعنی صحافت سے وابستہ تھے۔ ہم تینوں کا تقرر ایک سندھی روزنامے میں دن کی شفٹ میں ڈیسک پر بطور سب ایڈیٹر ہوا تھا اور ہم تین چار دوسرے ساتھیوں کے ساتھ مل کر اندر کے صفحات بشمول ایڈیٹوریل پیج تیارکرتے تھے، ہمارے کام میں نامہ نگاروں کی ڈاک سے بھیجی ہوئی خواہ ٹیلی فون پر لکھائی ہوئی خبروں نیز پریس ریلیزکی سبنگ و ایڈیٹنگ، اشتہارات اور ایڈیٹر کے منتخب کردہ انگریزی مضامین کا ترجمہ کرنا شامل تھا۔میرے یہ دونوں فنکار ساتھی منظور قریشی اور محمود صدیقی تھے۔

منظورقریشی تو اب تک ٹیلی ویژن ڈراموں پر چھائے ہوئے ہیں جب کہ محمود صدیقی اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ سراج میمن ایڈیٹر ہونے کے باوجود ادارتی صفحہ خود کرتے تھے، وہ نہ صرف ایڈیٹوریل نوٹ لکھتے بلکہ مستقل کالموں کو چھوڑکر باقی مضامین کا انتخاب بھی خود کرتے، امر جلیل اور عبدالکریم سعدی کے کالم روزانہ کی بنیاد پر شایع ہوتے تھے جب کہ سراج، قمر شہباز اور رشید بھٹی کے کالم ہفتے میں ایک دن چھپتے تھے۔ منظور قریشی کا تعلق نواب شاہ اور محمود صدیقی کا سکھر سے تھا، دونوں آپس میں دوست بھی تھے اور پہلے گرومندر اور پھر طارق روڈ پر کرائے کے فلیٹ میں ساتھ رہتے تھے۔ ہمارے منیجر اشوک کمارگنگوانی ان کے تیسرے ساتھی اور مشترکہ دوست تھے جو نرسری پر خیام سینما کے آس پاس کہیں رہتے تھے۔

منظور قریشی کو متعارف کرانے والے عبدالکریم بلوچ تھے جوکسی زمانے میں ریڈیو پاکستان حیدرآباد کے اسٹیشن ڈائریکٹر ہوا کرتے تھے، انھوں نے اپنے کیریئرکا آغاز بچوں کے پروگرام سے کیا اور آگے چل کر پروڈیوسر لگ گئے، اخبار میں ہمارے ساتھی بنتے وقت ان کی پوسٹنگ کراچی میں تھی، عبدالکریم بلوچ البتہ پٹری بدل کر ریڈیو سے ٹیلی ویژن پر چلے گئے تھے، منظور قریشی کا مستقبل سنوارنے کے لیے انھوں نے بطور اداکار ان کو ٹی وی ڈراموں میں کام کرنے کا موقع دیا۔ پھر ایک وقت آیا جب ہرطرف ایک ڈرامے ’’کرن کہانی‘‘ کی دھوم تھی جس میں انھوں نے ڈاکٹرکا کردار ادا کیا تھا۔

مجھے اس کا پتہ اس وقت چلا جب ایک دن میں نے منظور قریشی کی غیر موجودگی میں ان کا فون ریسیو کیا، دوسری طرف کوئی لڑکی تھی جو ڈرامے سے متاثر ہوکر ان پر مرمٹی تھی، پھر اس قسم کی کالوں کا تانتا سا بندھ گیا اور ہمارا ڈیسک پر ساتھ بیٹھ کر کام کرنا مشکل ہوگیا، منظور قریشی کی فین لڑکیاں ان سے بات کرنے کے لیے ٹی وی اسٹیشن فون کرتی تھیں اور آپریٹر انھیں اخبار کے نمبر دے دیتا تھا کیونکہ وہ ان کے وہاں ہونے کا وقت ہوتا تھا، اخبار کے دو فون نمبر تھے، ایک ایڈیٹرکا ڈائریکٹ نمبر تھا جب کہ دوسرا نیوز روم کا تھا، ایڈیٹر کی غیر موجودگی میں منظور قریشی ان کا سیٹ بھی منگواکر اپنی ٹیبل پر رکھ لیتا اور پھر جو لڑکیوں کے فون آنے شروع ہوتے توکبھی ایک فون کی گھنٹی بجتی کبھی دوسرے کی، دونوں فونوں کے ریسیور ان کے دونوں ہاتھوں میں ہوتے، یہ کبھی ایک لڑکی سے بات کرتے توکبھی دوسری سے، وہ بھی اونچی آواز میں۔ ان کے دائیں بائیں اور سامنے بیٹھے ہوئے ہم لوگ جن کے آگے کام کا ڈھیر لگا ہوتا تھا، سخت ڈسٹرب ہوتے اور کام نہیں کر سکتے تھے۔

ان سے کہتے تو وہ اپنے مخصوص انداز میں زوردار قہقہہ لگا کرکہتے ’’تم لوگ جلتے ہو اورکوئی بات نہیں۔‘‘ وہ خود تو کام کرتے نہیں تھے، ہمیں بھی نہیں کرنے دیتے تھے، میں نے ذاتی طور پر انھیں تجویز دی کہ وہ جس طرح ایڈیٹر کی غیر موجودگی میں ان کا فون استعمال کرتے ہیں ویسے ان کا کمرہ بھی استعمال کرلیا کریں اور وہاں بیٹھ کر شغل کریں لیکن وہ نہیں مانے اور بولے وہاں بیٹھ کر تم لوگوں کو کیسے دیکھوں گا کہ کام کررہے ہو یا بیٹھے گپیں ہانک رہے ہو۔ ان کی حرکتوں کی وجہ سے کام متاثر ہوتا۔ ہینڈکمپوزنگ کا زمانہ تھا، فورمین ایڈیٹر سے کاپی دیر سے ملنے کی شکایت کرتا اور ہمیں خواہ مخواہ ڈانٹ پڑتی، ایک دن یونہی جب نیوز روم میں ایکشن ری پلے جاری تھا، میرا ماتھا ایک دم گھوم گیا، میں اپنی سیٹ سے اٹھ کر سیدھا ایڈیٹر کے کمرے میں گیا اور انھیں سارا قصہ کہہ سنایا، وہ اٹھ کر میرے ساتھ باہر نیوز روم میں آئے تو میں نے جھپٹ کر منظور قریشی کے ہاتھ سے فون لے لیا اور اس سے پہلے کہ وہ پلٹ کر دیکھتے میں نے وہ ایڈیٹر کو تھما دیا اور کہا سنیے اور بتائیے ایسے ماحول میں ہم کیسے کام کریں۔ ویسے سراج میمن اور منظور قریشی آپس میں دوست بھی تھے لیکن فون سن کر ان کا بی پی ہائی ہوگیا، فون زمین پر دے مارا اور غصے سے پاؤں پٹختے ہوئے اپنے کمرے میں چلے گئے، اسٹینو کو بلوا کر اسی وقت منظور قریشی کا ٹرمینیشن لیٹر ڈکٹیٹ کروایا اور انھیں کھڑے کھڑے فارغ کردیا۔

منظور قریشی اکاؤنٹنٹ سے حساب لے کر جانے لگے تو انھیں رخصت کرنے اپنے کمرے سے باہر آئے اور کہا ہم آج کے بعد بھی دوست رہیں گے لیکن سوری، میں دفتر میں اس قسم کی اوچھی حرکتیں برداشت نہیں کرسکتا۔ یہ 74‘  1973کی بات ہے ، میری منظور قریشی سے پھرکبھی ملاقات یا بات نہیں ہوئی، دوستوں سے البتہ کئی بار سنا کہ وہ مجھ سے اپنی شکایت کرنے پرسخت ناراض تھے، ہونا بھی چاہیے تھا لیکن سچی بات یہ ہے کہ ان دونوں کی دوستی کے پیش نظر میرے وہم وگمان بھی نہیں تھا کہ میری شکایت کا یہ نتیجہ نکلے گا، میں صرف یہ چاہتا تھا کہ وہ یہ مان کرکہ ایسے ماحول میں وہاں بیٹھ کرکام نہیں کیا جا سکتا، ہم لوگوں کے بیٹھنے کا کوئی دوسرا انتظام کر دیں۔

محمود صدیقی یوں تو بڑے اچھے اور دلچسپ آدمی تھے لیکن ان کی انگریزی ذرا کمزور تھی، سراج میمن کو اس بات کا بھی پتہ نہیں تھا کیونکہ تقرری کے وقت بطور شفٹ انچارج ان کا ٹیسٹ منظور قریشی نے لیا تھا، ایک دن ایسے وقت جب ایڈیٹوریل پیج سمیت اندرونی صفحات کا کام تقریباً مکمل ہو چکا تھا اخبارات کا مطالعہ کرتے ہوئے ایڈیٹر کو منو بھائی کا وہ کالم پسند آگیا جو پاکستان ٹائمزلاہور میں چھپا تھا، وہ اخبار ہا تھ میں لیے نیوز روم میں آئے اور فٹ اسکیل کی مدد سے کالم چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں پھاڑ کر ہم سب کو دیا اور یہ کہہ کر چلے گئے کہ یہ جلدی سے ترجمہ کر لو، میں فورمین سے کہتا ہوں وہ کمپوز کرادے گا اور یہ آج ہی ایڈیٹوریل پیج پر چھپے گا، ہر ٹکڑے پر نمبر لگا تھا تاکہ پتہ چل سکے کہ کونسا ٹکڑا کس سب ایڈیٹر نے ترجمہ کیا ہے۔

سب نے کر لیا، بس ایک ٹکڑا غائب تھا، فورمین بار بار آکر پوچھے کہ وہ ٹکڑا کس کے پاس ہے لیکن کوئی بتا کے نہ دے، اس کی شکایت پر ایڈیٹر نے خود آکر ایک ایک سے پوچھا، تب محمود صدیقی نے اپنا ٹکڑا پاٹھے کی کلپ سے نکال کر دکھایا اور پوچھا آپ اس کا تو نہیں پوچھ رہے۔ ان کے دریافت کرنے پر کہ اس کا ترجمہ کہاں ہے بولے وہ تو ابھی نہیں ہوا، اس سوال پر کہ اب تک کیا کر رہے تھے جواب دیا یہ سمجھنے کی کوشش کرہا تھا کہ یہ کیا لکھا ہے۔وہ ان کی صحافت کا آخری دن تھا۔ ان سب باتوں سے قطع نظر حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک باصلاحیت اور اپنے کردار میں ڈوب کر اداکاری کرنے والے بہت بڑے فنکار تھے، منظور قریشی آج بھی ٹی وی پر راج کرتے ہیں اور یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وہ اپنی کردار نگاری سے ان میں جان ڈال دیتے ہیں، میں بھی ان کے ڈرامے شوق سے دیکھتا ہوں لیکن ان کا ڈرامہ ’’کرن کہانی‘‘ دیکھنا مجھے آج تک نصیب نہیں ہوا۔ میں آج کا یہ کالم اپنے ناراض دوست منظور قریشی کی نذرکرتا ہوں، اس سرخی کے ساتھ کہ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔