تین ہر دل عزیز شخصیات کی یاد میں

ایم اسلم کھوکھر  بدھ 21 فروری 2018

آج کی نشست میں ہماری کوشش ہوگی کہ ہم تین حوالوں سے اپنی گفتگو کریں۔ اولین ہم ذکرکریں گے دو ایسی شخصیات کا جوکہ اب ہم میں موجود نہیں رہیں۔ ایک تو شخصیت ہیں عاصمہ جہانگیر جن کے بارے میں یہ تصور کرنا بھی محال تھا کہ وہ اس طرح سے اچانک لاکھوں لوگوں کو یوں سوگوار چھوڑ جائیںگی۔ یہ فقط لفاظی نہیں حقیقت ہے کہ دنیا بھر میں عاصمہ جہانگیرکو ان کی انسان دوستی کے باعث احترام و قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا یوں بھی ان کی جدوجہد کا عرصہ دو چار برس پر محیط نہ تھا، بلکہ یہ عرصہ کوئی 48 برس کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ انھوں نے تین تین آمریت پسند ڈکٹیٹروں کا مقابلہ کیا اور تمام مصائب و مشکلات کے باوجود انھوں نے کلمہ حق بلند کیا۔

وہ ہر ایک عوامی تحریک کا حصہ رہیں اور کسی بھی مرحلے پر ان کے پایۂ استقلال میں لغزش نہ آئی۔ چاہے تحریک بحالی جمہوریت (MRD) ہو، انسانی حقوق کی پامالی کا مرحلہ ہو یا ججز بحالی تحریک، عاصمہ جہانگیر جد وجہد میں سب سے آگے ہی نظر آئیں۔ یوں ان کا اس دنیائے فانی سے اٹھ جانا بالخصوص جبر و استبداد کے ستائے ہوئے لوگوں کے ساتھ ساتھ بائیں بازو کے ترقی پسندوں کے لیے بہت بڑا صدمہ ہے۔ یوں بھی یہ حقیقت ہے کہ ابھی ان کے مرنے کے دن نہ تھے مزید یہ کہ ابھی کئی برس تک جبر و استحصال کا شکار لوگوں کو ان کی ضرورت تھی۔ گویا ایک خلا ہے جو ان کی وفات سے پیدا ہوا ہے یہ خلا کب پر ہوگا یقین سے کہنا ناممکن ہے۔

خلا تو لیجنڈ اداکار صدا کار و بے شمار خوبیوں کے مالک قاضی واجد کی یوں بے وقت وفات سے بھی پیدا ہوا ہے۔ قاضی واجد شوبزکے شعبے کا وہ ستارہ تھے جن کی فنی خدمات کا عرصہ 60 برس پر محیط ہے گویا 1958ء سے 2018ء تک قاضی واجد نے اپنے فنی سفر میں ریڈیو پر صداکاری کے ساتھ ساتھ اسٹیج فلم و ٹیلی ویژن کے شعبے میں اپنی فنی خدمات کے باعث تادم مرگ لوگوں کے دلوں پر راج کیا۔ کسے خبر تھی کہ قاضی واجد اپنے چاہنے والوں کو یوں سوگوار چھوڑ جائیںگے۔ مگر موت ایک اٹل حقیقت ہے جس سے انحراف ممکن نہیں ہے۔ البتہ سچائی تسلیم کرنا ہوگی اور سچائی یہ ہے کہ قاضی واجد جیسے شفیق انسان کا اس دنیا سے ناتا ٹوٹ چکا ہے۔ عاصمہ جہانگیر و قاضی واجد کے تمام سوگواران سے اظہار تعزیت کرتے ہیں۔ مالک کائنات ان دونوں مرحومین کو جوار رحمت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ خالق باری سے ہماری یہی التجا ہے۔

کالم کے دوسرے مرحلے میں ہم ذکر خیر کریںگے نامور ترین شاعر ایک ترقی پسند ادیب و ایک عظیم انقلابی انسان فیض احمد فیضؔ کا جن کا 108 واں یوم پیدائش و 107 ویں سالگرہ 13 فروری 2018ء کو منائی گئی۔ فیضؔ نوجوانی میں ہی ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہوگئے تھے۔ جب 10 اپریل 1936ء کو انجمن ترقی پسند مصنفین کا قیام عمل میں آیا تو فیضؔ گویا انجمن ترقی پسند مصنفین کے بانیان میں سے تھے۔ یعنی انجمن کے بانی سید سجاد ظہیر نے انجمن کے قیام کے سلسلے میں فیضؔ سے خوب مشاورت کی گو کہ ان کی عمر عزیز اس وقت فقط 25 برس تھی۔

البتہ یہ ضرور تھا کہ ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہونا اس وقت کوئی آسان امر نہ تھا بلکہ یہ کٹھن ترین راستہ تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ وہ راستہ ہے جوکہ ہر لمحے ترقی پسندوں سے قربانی طلب کرتا ہے۔ چنانچہ فیضؔ کو بھی کٹھن ترین مراحل سے گزرنا پڑا۔ مستقبل شناس فیضؔ نے قیام پاکستان کے قیام سے بھی دو ماہ قبل یہ ادراک کرچکے تھے کہ قیام پاکستان کے مقاصد حاصل نہیں ہوپائیںگے۔ چنانچہ جون 1947ء میں ہی انھوں نے ایک غزل لکھ ڈالی جوکہ اگست ستمبر میں رسالہ نرگس میں سحر کے نام سے شایع ہوئی اس غزل کا ایک شعر میں تحریر کررہاہوں کہ فیضؔ فرماتے ہیں کہ:

یہ داغ داغ اُجالا یہ شب گزیدہ سحر

وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں

گویا فیضؔ نے متوقع حکمرانوں پر عدم اعتماد کا اظہار کردیا تھا۔ اپنی اس جسارت کا خمیازہ فیضؔ کو اس طرح بھگتنا پڑا کہ فیضؔ و ان کے دیگر 14 ساتھیوں پر ایک مقدمہ وہ بھی بغاوت کا قائم کردیاگیا جب کہ بات فقط اتنی سی تھی کہ 22 فروری 1951ء کو میجر اکبر خان جوکہ جہادِ کشمیر کے ہیرو تھے کے گھر میں مدعو مہمانوں کے درمیان جن میں فیضؔ بھی شریک تھے ایک امکانی بغاوت پر غور ضرور ہوا تھا البتہ اس بغاوت کو ناقابل عمل قرار دے کر رد کردیاگیا۔ پھر بھی فیضؔ اور ان کے ساتھی دیگر 14 ترقی پسندوں پر بغاوت کا مقدمہ قائم ہوا۔ اس تمام کیفیت کو پنڈی سازش کیس کا نام دیا گیا، اس مقدمے کے باعث فیضؔ و ان کے دیگر 14 ساتھیوں کو جیل کی اسیری جھیلنا پڑی۔ فیضؔ نے اس تمام صورتحال کو ان الفاظ میں بیان کیا کہ:

وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا

وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے۔

گویا بغاوت کے الزام کو یکسر فیضؔ نے مسترد کردیا اور کہا:

ہمیں نے روک لیا پنجۂ جنوں ورنہ

ہمیں اسیر یہ کوتاہ کمند کیا کرتے

فیضؔ نے تمام زیست مصائب کا سامنا کیا مگر ثابت قدم رہے اور ایوبی، یحییٰ خان و ضیا آمریت کے سامنے ڈٹے رہے۔ گو کہ اپنے ترقی پسند نظریات کے باعث وہ اسیر بھی ہوئے، جلاوطن بھی ہوئے، فیضؔ مزدور تحریک سے وابستہ رہے اور انھوں نے پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن کے نائب صدر کی حیثیت سے ٹریڈ یونین سرگرمیاں بھی جاری رکھیں۔ گویا فیضؔ قلمی یا ادبی محاذ پر ہی نہیں عملی جد وجہد پر بھی یقین رکھتے تھے۔ 1970ء میں جب ٹوبہ ٹیک سنگھ میں کسان کانفرنس منعقد ہوئی تو فیضؔ نے اس میں شرکت کی اور یہ نظم پڑھی:

اٹھے گا جب ہجوم سرفروشاں

پڑیں گے دار و رسن کے لالے

کوئی نہیں ہوگا جو بچالے

جزا و سزا یہیں پہ ہوگی

فیضؔ تمام دنیا کے آزادی پسندوں کے ہم آواز رہے۔ فلسطینیوں کے بھی بہرکیف حسب سابق اس برس بھی 18 فروری 2018ء کو فیضؔ کی یاد میں ایک پروگرام الحمرا سینٹر لاہور میں ترتیب دیا گیا ہے، جسے فیضؔ امن میلے کا عنوان دیا گیا ہے پاکستان مزدور کسان پارٹی، پاکستان برابری پارٹی، پاکستان کمیونسٹ پارٹی ودیگر جمہوری قوتیں فیضؔ امن میلے کی میزبان تھیں۔ اس پروگرام کے لیے پانچ لاکھ روپے کا بجٹ انتظامی امور کے لیے مختص کیا گیا۔ فیضؔ امن میلے کے تین سیشن رکھے گئے۔ پہلے سیشن میں موجودہ سیاسی صورتحال و الیکشن 2018ء پر گفتگو، مزید ماورائے عدالت قتل و سیاسی کارکنوں کی گمشدگی پر بھی بات۔ سیشن دوئم میں ادبی مشاعرہ، جس میں 26 شعرا کرام اپنا انقلابی کلام پیش کریںگے جب کہ سیشن سوئم میں رقص و موسیقی کا اہتمام کیا گیا ہے۔

اس سیشن میں لال بینڈ کے ڈاکٹر تیمور الرحمن، نامور گلوکار جواد احمد بھی دیگر فنکاروں کے ساتھ اپنے فن کا مظاہرہ کریںگے جب کہ کراچی سے شیما کرمانی خصوصی طور پر شرکت کریںگی اور اپنا رقص پیش کریںگی جب کہ خصوصی شرکت فیضؔ خاندان کے افراد کی ہوگی تاہم ان تمام سرگرمیوں کے ساتھ ضرورت اس امر کی ہے کہ عصر حاضر میں کلام فیضؔ و کردار فیض کی روشنی میں سماج میں جڑ پکڑچکی، برائیوں کے خلاف مشترکہ جد وجہد کی جائے جہالت کے خلاف، جبر کے خلاف، استحصال کے خلاف، ماورائے عدالت قتل کے خلاف، گمشدہ افراد کی بازیابی تک۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔