ایم کیو ایم پاکستان منتشر؛ پی پی سندھ سے سینیٹ کی تمام نشستیں لینے کیلیے متحرک

نعیم خانزادہ  بدھ 21 فروری 2018
پیپلزپارٹی نے تمام داؤپیچ استعمال کرناشروع کردیے،پہلے 9 کی امید تھی مگراب تمام سیٹوں پرنظریں جمالیں

پیپلزپارٹی نے تمام داؤپیچ استعمال کرناشروع کردیے،پہلے 9 کی امید تھی مگراب تمام سیٹوں پرنظریں جمالیں

 کراچی:  ایم کیو ایم پاکستان کے اختلافات کا فائدہ اٹھانے کے لیے سیاسی پنڈت متحرک ہوگئےسینیٹ انتخابات میں اراکین اسمبلی کے ووٹ حاصل کرنے کیلیے پرکشش مراعات کا پیکیج دینا شروع کردیا پیپلزپارٹی بھی سینیٹ کا میدان مارنے کے لیے تمام داؤ پیچ استعمال کررہی ہے۔

سندھ اسمبلی میں اراکین کی تعداد کے اعتبار سے پیپلز پارٹی کے بعد ایم کیو ایم کی اکثریت نمایاں ہے۔ سینیٹ انتخابات میں پیپلز پارٹی کو پہلے 9 نشستیں حاصل کرنے کی امید تھی مگر ایم کیو ایم میں اختلافات کے بعد پی پی نے تمام نشستوں یا کم کم از 11 سیٹوں پر نظریں جمالی ہیں۔ ایم کیو ایم 37 ، پی ایس پی 8، فنکشنل لیگ9، تحریک انصاف 3 اور ن لیگ کی 7 نشستوں کے ساتھ گرینڈ اپوزیشن اتحاد ہوتا تو پیپلز پارٹی کی سینیٹ نشستیں محدود کی جاسکتی تھیں مگر اپوزیشن کے عدم اتفاق کے ماحول میں پیپلز پارٹی مکمل فائدہ اٹھانے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ سینیٹ انتخابات میں جنرل نشست کے لیے 21 سے 22 جبکہ ایک خصوص نشست کے لیے 55 اراکین کے ووٹوں کی ضرورت ہوگی۔ تحریک انصاف کے رکن خرم شیر زمان پہلے ہی ووٹوں کی خرید و فروخت کے الزام لگاچکے ہیں۔ انھوں نے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ اراکین اسمبلی کو ووٹ کی خریداری کے لیے فون آنا شررع ہوچکے ہیں۔

ذرائع کے مطابق متحدہ بحران کے بعد بولیوں کا یہ سلسلہ مزید تیز ہوگیا ہے۔ ایم کیو ایم اراکین کو مسلسل پیشکشیں مل رہی ہیں ، وہ پہلے ہی پارٹی کی دھڑے بندی اور سینیٹ امیدواروں کی فوج سے پریشان ہیں کہ ووٹ آخرکسے دیں۔ پی ایس پی میں جانے والے اراکین کے دوست بھی فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہے ہیں، اسی وجہ سے نتائج حیران کن ہوسکتے ہیں۔ ایم کیو ایم اس وقت اپنی تاریخ کے بدترین بحران سے گزر رہی ہے اور کئی ارکان تو مستقبل سے بھی مایوس ہیں ایسی صورتحال میں وہ آخری فائدہ اٹھانے کا بھی سوچ سکتے ہیں۔ ایم کیوایم پاکستان کے دونوں گروپوں کے سربراہان نے بھی پیپلز پارٹی پر براہ راست الزام لگا یا ہے کہ اراکین اسمبلی کو خریدنے کے لیے تجوریوں کے منہ کھول دیے گئے ہیں لیکن ہما رے اراکین اسمبلی بکنے والے نہیں تاہم ذرا ئع کاکہنا ہے کہ سند ھ کی بڑی سیاسی جماعت نے ایم کیوایم کے اراکین سے بلا واسطہ یا بالواسطہ رابطے شروع کر دیے ہیں، جس کا رسپانس بھی اچھا ملا ہے۔

ایم کیوایم کی 30سالہ پارلیمانی تاریخ میں ایسا وقت کبھی نہیں آیا جس میں پارٹی کی قیادت کو اپنے اراکین اسمبلی پر اعتماد کا بدترین فقدان نظر آرہا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اب تک ایم کیوایم پاکستان کے اراکین اسمبلی کی جانب سے کسی قسم کی را ئے سامنے نہیں آئی لیکن ذرائع کا کہنا ہے کہ ایم کیوایم پاکستان میں اسی طر ح کی صورتحال برقرار رہی تو سندھ کی بڑی سیاسی جماعت یعنی پیپلزپارٹی فائدھ اٹھاسکتی ہے ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ایم کیوایم پاکستان کے اراکین اسمبلی سینیٹ انتخابات سے قبل ہی تقسیم دکھائی دیتے ہیں۔ پی آئی بی کالونی گروپ نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے پاس 24اراکین سندھ اسمبلی ہیں جبکہ بہادرآباد گر وپ نے 15سے زائد اراکین اسمبلی کی حما یت کا دعویٰ کیا ہے۔

7 ارکان اسمبلی پاک سر زمین پا رٹی میں شمولیت اختیار کرچکے ہیں اور ایم کیو ایم کے4 ایم پی ایز بیر ون ملک ہیں جن کا ملک آنے کا تاحال کو ئی امکان نہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے اس صورتحال میں ایم کیو ایم کے ارکان اسمبلی فیصلہ نہیں کرپارہے کہ وہ کس کو ووٹ دیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ سینیٹ انتخابات میں سندھ کی بڑی سیاسی جماعت پیپلزپارٹی جس حکمت عملی کے تحت جارہی ہے اگر وہ اس میں کا میاب ہو گئی تو ایم کیوایم کو ایک نشست ملنا بھی مشکل ہوجائے گی نظرآتی ہے۔ اس بار ایم کیوایم پاکستان کے4سینیٹر رٹائر ہورہے ہیں۔ کچھ دن قبل تک ایم کیوایم دعویٰ کر رہی تھی کہ وہ اپنی چا روں نشستوں پر فتح حاصل کرلے گی لیکن سینیٹ کے امیدواروں کے ناموں پر اختلافات نے سندھ کا سیاسی منظرنامہ ہی تبدیل ہو گیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔