صرف ایک فرد ہی کیوں؟

مقتدا منصور  بدھ 21 فروری 2018
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

عدالت عظمیٰ میں بیرون ملک پاکستانیوں کے ووٹنگ کے حق کے لیے دائر اپیل کی کارروائی کے دوران چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا حسین حقانی جیسے لوگوں کو بھی ووٹنگ کا حق دیا جائے ؟ پھر انھوں نے 2011 میں چلنے والے میموگیٹ نامی مقدمے کے بارے میں استفسار کیا کہ اس کا کیا بنا؟ جب انھیں یہ بتایا گیا کہ یہ مقدمہ Abeyance میں ہے اور اس کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا ، تو انھوں نے اس مقدمے کو ازسر نو کھولنے کے احکامات جاری کرتے ہوئے ایک تین رکنی بنچ قائم کر دیا ۔ ساتھ ہی حسین حقانی کی گرفتاری کے بھی احکامات جاری کر دیے۔

قارئین کی یاد دہانی کے لیے عرض ہے کہ 2 مئی 2011کو ایک امریکی فوجی دستے نے ایبٹ آباد میں کارروائی کرکے اسامہ بن لادن نامی عالمی دہشت گرد کو ہلاک کر دیا تھا ۔ اس واقعے کے حوالے سے ملک میں ریاستی نظام اور اس کی کارکردگی پر انگشت نمائی ہونے لگی تھی ۔ ساتھ ہی عوامی حلقوں میں یہ خبریں بھی گردش کرنے لگیں کہ پیپلز پارٹی اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان اختلافات گہرے ہوگئے ہیں۔اس لیے کسی بھی وقت پیپلز پارٹی کی حکومت ختم کی جاسکتی ہے۔ اس خبر سے برسراقتدار جماعت سمیت دیگر سیاسی حلقوں میں سراسیمگی پھیل گئی۔

ابھی یہ خبریں گرم تھیں کہ پاکستانی نژاد امریکی بزنس مین منصور اعجازکا ایک مضمون10اکتوبر2011 کو فنانشیل ٹائمز میں شایع ہوا ۔ جس میں اس نے الزام عائدکیاکہ حسین حقانی نے اس وقت کے صدر پاکستان آصف علی زرداری کی خواہش پر اس (منصور اعجاز) کے ذریعے ایک خط امریکی سینٹرل کمانڈ کے کمانڈر ایڈمرل مائیک مولن کوبھجوایا ۔ جس میں بقول منصور اعجاز ایڈمرل مولن سے استدعا کی گئی تھی کہ پینٹاگون اور امریکی حکومت پاکستان میں سویلین حکومت کو بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ایڈمرل مائک مولن  نے مختلف اوقات میں اس خط یا (میمو) کے بارے میں مختلف اوقات میں مختلف موقف اختیار کرکے مزید کنفیوژن پھیلادیا، لیکن پینٹاگون کے ترجمان کیپٹن جان کربی نے دو ٹوک انداز میں بیان دیا کہ وہ منصور اعجاز نامی کسی شخص سے نہ واقف ہے اور نہ ہی اس سے کوئی رابطہ ہوا ۔ لہٰذا منصور اعجاز کا پینٹاگون خط بھجوانے کا الزام غلط ثابت ہوگیا، مگر اس پر تسلسل کے ساتھ اصرارکیا جاتا رہا۔

منصور اعجاز کی اطلاع پرپورے ملک میں طوفان اٹھ کھڑا ہوا ۔ ذرایع ابلاغ نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ اینکرز جج بن کر شام7بجے سے12بجے کے دوران ملک دشمنی کے سرٹیفکیٹ بانٹنے لگے۔ اسی دوران لاہور کے جلسہ عام کے دوران تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے بھی سارا ملبہ حسین حقانی کے سر پر ڈال دیا۔اس دوڑ میں میاں نواز شریف کب پیچھے رہ جانے والے تھے، وہ بھی کالا کوٹ پہن کر سپریم کورٹ پہنچ گئے۔ محسوس یہ ہو رہا تھا کہ اس معاملے میں ریاست کے سبھی کل پرزے معصوم ہیں، صرف حسین حقانی ہی گناہگار ہے۔

عدالت عظمیٰ کے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ملک گیر شور شرابے کو دیکھتے ہوئے اس معاملے کی شنوائی کے لیے 9 اراکین پر مشتمل ایک بنچ تشکیل دیدیا۔ا س سلسلے میں بعض ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ عدالت عظمیٰ ملک کا سب سے بڑا عدالتی ادارہ ہے، جس کی ذمے داری ہائی کورٹ کی سطح سے آئے مقدمات کی اپیلوں پر فیصلہ دینے کے ساتھ آئین کی شقوں اور قانون کی تشریح (Iterpretation)ہے، لیکن یہ کسی بھی طور تفتیشی ادارہ نہیں ہے ۔ اصولی طور پر ہونا یہ چاہیے تھا کہ عدلیہ حکومت کو ایک وسیع البنیاد کمیشن قائم کرنے کے احکامات جاری کرتی۔ جو اس پورے معاملے کی غیر جانبداری کے ساتھ تفتیش کرتا۔ کمیشن کی رپورٹ کی بنیاد پر عدلیہ کوئی فیصلہ دیتی تویہ معاملات ہمیشہ کے لیے ختم ہوجاتے، مگر ایسا نہیں ہوا۔

حسین حقانی کو اکتوبر کے آخری ہفتے میں اسلام آباد بلایا گیا ، جہاں ان کی اہم ریاستی شخصیات سے ملاقاتیں ہوئیں۔اس کے بعد انھوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا، جو وزیر اعظم نے فوری طور پر قبول کرلیا۔ اس کے بعد وہ واپس امریکا چلے گئے۔اسی دوران سینئر صحافی سرل المیڈا نے لکھا کہ جس میمو پر صبح شام باتیں کی جارہی ہیں، وہ جعلی معلوم ہوتا ہے، کیونکہ اس پر کسی کے دستخط نہیں ہیں۔اس لیے اب اس معاملے کو داخل دفتر کردیا جانا ہی بہتر ہے، چونکہ اس سلسلے میں کوئی مناسب پیش رفت نہیں ہوسکی تو افتخار محمد چوہدری کی ریٹائرمنٹ کے بعد یہ مقدمہ سرد خانے میں چلا گیا۔ ان کے جانے کے بعد کسی نے بھی اس مقدمے کودوبارہ کھولنے میں دلچسپی نہیں لی۔

لوگ پوچھ رہے ہیں کہ وہ کیا وجوہات ہیں کہ سات برس بعد اس مقدمے کو دوبارہ کھولنے کی ضرورت محسوس ہوئی ہے؟اس سلسلے میں لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ کہانی کا پس منظر کچھ اور ہے اور بیان کچھ اور کیا جا رہا ہے۔ اس وقت بھی بعض قوتیں اصل کرداروں کو بچانے کی خاطر حسین حقانی کو قربانی کا بکرا بنانے کی کوشش کر رہی ہیں، آج پھر یہی عمل جاری ہے۔ جس طرح میاں نواز شریف کی حکومت نے نیوز لیکس کے معاملے میں طارق فاطمی اور راؤ تحسین علی خان کو قربانی کا بکرا بنایا  تھا۔ جس کے بارے میں سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے چند روز قبل ہی اپنی پریس کانفرنس میں واضح کیا کہ درج بالادونوں اصحاب کا نام اس فہرست میں شامل نہیں، جن پر نیوز لیکس کے بارے میں شک کا اظہار کیا گیا تھا۔

ہماری حکمران اشرافیہ اور ریاستی ادارے معاملات کو آئین و قانون کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے سلجھانے کی کوشش کرنے کے بجائے غلط طریقوں سے الجھا دیتے ہیں۔ یہ عمل دانستہ ہوتا ہے یا نا دانستہ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان سے محترمہ بینظیر کے قتل تک، کوئی بھی تفتیش درست سمت میں کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔اسی طرح ملک میں جنم لینے والے مختلف ایشوز اور بحرانوں کو حل کرنے کے لیے شفافیت پر مبنی طریقہ کار اختیار کرنے کے بجائے پیچیدہ راستوں کا انتخاب کیا جاتا ہے۔

ستر برس کی تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ طاقتور حلقے آئین و قانون کی اپنے مخصوص مفادات کے مطابق تشریح کرتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں عوام کے اندر اداروں کے بارے میں بے اعتمادی اور بے اعتباری بڑھ رہی ہے۔ ہماری حکمران اشرافیہ اور ریاستی ادارے کبھی اپنی غلطیوں کو تسلیم کرتے ہوئے جاری حکمت عملیوں اور بیانیوں کی تصحیح کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ جس کی وجہ سے مسائل کے انبار میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔اب یا تو انھیں زمینی حقائق نظر نہیں آرہے یا پھر دانستہ آنکھیں بند کررکھی ہیں۔

ہم یہ نہیں کہتے کہ حسین حقانی بے گناہ ہیں، مگر جو طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے، اس سے امتیازی سلوک کی بو بہرحال آرہی ہے۔ بحیثیت ایک متوشش شہری بصد احترام یہ کہنے کی اجازت چاہئیں گے کہ اس مقدمے میں مختلف نوعیت کے اسقام واضح طور پر نظر آرہے ہیں، اگر اس قضیے کو دوبارہ کھولنے کا تہیہ کرہی لیا گیا ہے تو عدالت عظمیٰ خود ہی ایک وسیع البنیاد تفتیشی کمیشن قائم کرکے اصل حقائق تک پہنچنے کی کوشش کرے ۔ اس کے علاوہ تفتیش صرف ایک فرد ہی کے خلاف کیوں ہو؟ کیوں نہ اس معاملے سے متعلق دیگر شخصیات اور فریقین کو بھی شامل کر لیا  جائے، تاکہ شفافیت کے ساتھ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔