اپنے جہاں سے بے خبر

ڈاکٹر یونس حسنی  بدھ 21 فروری 2018

امریکی معاشرے میں زوال کی علامت کے ظہور پر ہمارے کالم کی روشنائی ابھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ چند دوسرے عناصر بھی دکھائی دینے لگے۔ امریکی فوجی بجٹ میں گھپلوں کے انکشاف سے معاشرے کی شفافیت پر جو داغ لگتا ہے وہ ظاہر ہونے لگا ہے اور امریکی جو من حیث القوم بے ایمان نہیں سمجھے جاتے تھے اور ان کے یہاں کرپشن کا وہ زور نہیں تھا جو ہمارے یہاں ہے مگر اب ایسی خبروں کے آنے سے امریکی معاشرہ بھی کرپشن کی زد میں ہے۔

اب چند اور خبریں ایسی آئی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ سب اچھا نہیں ہے۔ امریکا میں خوشحالی ہے، قانون کی حکمرانی ہے اور ہر طرح کا اطمینان ہے۔ معاشرے کی انھی خوبیوں کے پیش نظر دنیا بھر سے انسان کھچے چلے آتے ہیں اور امریکی معاشرہ رنگا رنگ نظر آتا ہے اور ہر ملک و قوم کے افراد بہتر مستقبل کے لیے امریکا کا رخ کرتے نظر آتے ہیں۔

مگر خود امریکا میں خوشحالی، قانون کی حکمرانی اور بہتر زندگی کے باوجود امریکی نوجوان آخرکس وجہ سے ژولیدہ سری میں مبتلا ہیں۔ اطلاعات کے مطابق امریکا میں کیلی فورنیا، ٹیکساس اور کلورریڈو سمیت بیشتر ریاستوں میں نوجوان وضع کے نشوں سے شوق فرماتے اور انھی کو اپنا ذریعہ آمدنی بنائے ہوئے ہیں۔

امریکی ریاستوں کیلی فورنیا، ٹیکساس اور کلوریڈو میں تو میری جوانا (بھنگ) کی فروخت کو قانونی تحفظ حاصل ہے، مگر اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں کو اس قسم کی تجارت کی اجازت نہیں ہے۔

مگر اب امریکا میں اٹھارہ سال سے کم عمر کے لڑکے اور لڑکیاں بھی بھنگ سے بنے بسکٹ، چاکلیٹ اور دوسری اشیا فروخت کر کے ’’خوشحالی‘‘ سے ہمکنار ہو رہے ہیں۔

آخر یہ نوخیز بچے نشہ آور اشیا کی تجارت اور اس سے لطف اندوزی کیوں کر رہے ہیں۔ نہ انھیں کوئی غم ہے نہ وہ ہماری طرح بے انصاف معاشرے میں رہ رہے ہیں، مالی بدحالی کا شکار ہیں، وسائل کی کمی کے مارے ہیں ان میں سے کوئی چیز نہیں تو پھر یہ نشے سے دلچسپی چہ معنی دارد۔

مغربی معاشرے میں شراب نوشی حلال و جائز ہے۔ ہیروئن بھی وہاں مقبول ہے۔ شراب نوشی تو سرے سے کوئی عیب تصور نہیں کی جاتی۔ اس لیے بھنگ چاہے وہ بسکٹ کی شکل میں ہو، ٹافی کی صورت میں یا حقے میں پی جائے کم تر درجے کا نشہ ہے۔ مگر وہاں بات نشے کی نہیں ہے۔ بات ہے پیسہ کمانے اور راتوں رات امیر بن جانے کی۔ متعدد غذائی اشیا میں بھنگ شامل کرکے اسے فروخت کرنا ایک منفعت بخش کاروبار ہے۔ مال کا یہ لالچ اور امیر بننے کی یہ خواہش انسانی قدروں کو پامال کرتی اور قوموں کو زوال کی طرف لے جاتی ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ امریکی معاشرہ ان خطرات سے آگاہ نہیں وہاں ایسے ادارے موجود ہیں جو ان نشہ آور اشیا کے بڑھتے ہوئے رجحان پر نظر رکھے ہوئے ہیں مگر اب وہ صرف نظر ہی رکھ سکتے ہیں اپنی قوم کو نشے سے باز نہیں رکھ سکتے۔ اور جو قوم نشے کی نذر ہو جائے زوال اس کا مقدر بن جاتا ہے۔

دوسرا رجحان جو امریکی معاشرے کو تباہی کی طرف لے جا رہا ہے تشدد کی گرما گرمی ہے۔ کہنے کو امریکی ہمیں شدت پسند دہشت گرد اور خدا جانے کیا کیا کہتے رہتے ہیں حالانکہ ہمارا شدت پسند بھی صرف بنیاد پرست ہوتا ہے۔

امریکی معاشرے میں آتشیں اسلحے کی فراوانی کا عالم یہ ہے کہ ہر نوجوان صاحب اسلحہ ہے اور جب اسے غصہ آئے اور وہ غصے سے بے قابو ہو فائرنگ کر کے لوگوں کو ہلاک کر دے اور امریکی صدر تک اسے ذہنی مسائل کا شکار نوجوان قرار دے کر بات کو ٹال دیں۔

پچھلے دنوں ایک اسکول کے طالب علم کو اس کی سرگرمیوں کے باعث اسکول سے نکال دیا گیا۔ اس پر اتنا غضب ناک ہوا کہ گن لے کر اسکول پہنچا اور 17 طلبا کو ہلاک اور درجنوں کو زخمی کر دیا۔

پچھلے 45 دنوں میں شہریوں کی طرف سے فائرنگ کرکے لوگوں کو ہلاک کرنے کا یہ تیسرا واقعہ ہے۔

یہ دہشت گردی کس حد میں ہوتی ہے اور کیوں ہوتی ہے کیا امریکی دوسرے ملکوں میں دہشت گردوں کو تلاش کرنے کی بجائے اپنے معاشرے میں پیدا ہونے والے دہشت گردانہ رجحانات کو قابو میں لانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے اگر ان کے اندر ہی گورے دہشت گردی کریں تو خلل دماغ اور رنگ دار ایسا ہی کوئی اقدام کر بیٹھیں تو جواب میں دہشت گردی کا الزام اور اس کی مادری ملک کی تباہی تک کے درپے ہونا اسی کو کہتے ہیں۔

سارے جہاں کا جائزہ اپنے جہاں سے بے خبر

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔