سُپربگس۔۔۔۔۔ طاقت وَر اینٹی بایوٹکس بھی بے اثر

ندیم سبحان میو  بدھ 21 فروری 2018
موجودہ طاقت وَر اینٹی بایوٹکس کے خلاف جراثیم میں مزاحمت پیدا ہوچکی ہے

موجودہ طاقت وَر اینٹی بایوٹکس کے خلاف جراثیم میں مزاحمت پیدا ہوچکی ہے

اسپتالوں میں روزانہ متعدد مریض بہ غرض علاج لائے جاتے ہیں۔ ان میں سے کئی صحت یاب ہوجاتے ہیں اور کئی کی واپسی لاش کی صورت میں ہوتی ہے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ معمولی بیماری کا مریض اسپتال میں لائے جانے کے بعد زیادہ بیمار ہوجاتا ہے، مرض کی شدت بڑھتی چلی جاتی ہے اور بالآخر اس کی جان کے لالے پڑجاتے ہیں۔ محلّے یا خاندان میں کسی کا انتقال ہونے پر یہ استعجابیہ جملہ آپ کے کانوں میں ضرور پڑا ہوگا،’’ ارے۔۔۔۔۔ وہ مرگئے؟ وہ تو بالکل صحت مند تھے۔‘‘

بعض بدقسمت اسپتال لے جائے جانے کے بعد زیادہ بیمار ہوجاتے ہیں۔ اس کی وجہ وہاں پائے جانے والے طاقت وَر اور مہلک جراثیم ہیں جن پر اینٹی بایوٹک ادویہ بھی اثر نہیں کرتیں۔ طبی اصطلاح میں یہ خطرناک جراثیم carbapenem-resistant Enterobacteriaceae یا CRE کہلاتے ہیں۔ ان کے اندر جراثیم کش ادویہ کے خلاف مزاحمت پیدا ہوجاتی ہے، چناں چہ طاقت وَر اینٹی بایوٹکس کے مسلسل استعمال کے باوجود مریض کی حالت بگڑتی چلی جاتی ہے۔ یہ جراثیم دنیا کے صاف ترین اسپتال میں بھی پائے جاسکتے ہیں۔ حال ہی میں امریکی شہر لاس اینجلس کے مختلف اسپتالوں میں سی أر ای سے متأثرہ کئی مریض سامنے آئے، ان میں سے دو کی موت ہوچکی ہے جب کہ باقی شدید بیمار ہیں۔

CRE کیا ہیں؟
سی آر ای بیکٹیریا یا جراثیم کا خاندان ہے جن کے اندر اینٹی بایوٹک ادویہ کے لیے مزاحمت پائی جاتی ہے۔ ان جراثیم کی نسلوں میں مزاحمت بہ تدریج بڑھتے بڑھتے اس سطح پر پہنچ گئی ہے جہاں بیشتر موجودہ اینٹی بایوٹکس ان پر اثرانداز نہیں ہوسکتیں۔

اینٹی بایوٹکس سے مامون ہوجانے کی وجہ سے ان جراثیم کو ’’ سُپربگس‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ان کی مختلف اقسام ہیں۔ انسانی جسم میں داخل ہونے کے بعد یہ دوران خون میں پہنچتے ہیں اور وہاں موجود انسانی جسم کے بیشتر محافظ جراثیم کا خاتمہ کردیتے ہیں، اس کے نتیجے میں بیماری کی شدت بڑھتی چلی جاتی ہے اور جسم کا مدافعتی نظام کمزور ہوجانے کے باعث نئے عوارض لاحق ہوجاتے ہیں۔

 CRE کس قدر عام ہیں؟
یہ جراثیم بہت عام ہیں۔ سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن ( سی ڈی سی) کی رپورٹ کے مطابق امریکا میں ہر سال بیس لاکھ افراد ان سے متأثر ہوتے ہیں، ان میں سے اوسطاً تئیس ہزار جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ سی ڈی سی کے مطابق لاس اینجلس میں یومیہ پچیس اسپتالوں میں سے ایک میں کم از کم ایک مریض سی آر ای سے متأثر ہوتا ہے۔ اسی ادارے کی رپورٹ کے مطابق 2011ء میں ملک بھر میں سی أر ای انفیکشنز سے سات لاکھ بائیس ہزار افراد متأثر ہوئے تھے۔ ان میں سے پچھتر ہزار افراد موت کا شکار ہوگئے تھے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا بھر میں کتنے لوگ ان جراثیم کی وجہ سے موت کے منھ میں چلے جاتے ہوں گے۔

لوگ ان کا شکار کیسے ہوتے ہیں؟
یہ جراثیم اسپتالوں میں پائے جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے علاج کی غرض سے اسپتال جانے والے مریض ہی ان سے زیادہ متأثر ہوتے ہیں۔ اسپتال کی فضا کے ساتھ ساتھ یہ جراثیم وہاں استعمال ہونے والے طبی آلات پر بھی موجود ہوسکتے ہیں۔ مریضوں کے طبی معائنے یا آپریشن کے دوران جراثیم ان کے جسم میں منتقل ہوجاتے ہیں۔ جن مریضوں کا مدافعتی نظام کمزور ہوتا ہے یہ ان پر شدت سے حملہ آور ہوتے ہیں۔

اسپتال سُپر بگس سے نمٹنے میں ناکام کیوں؟
ان طاقت وَر جراثیم سے نمٹنا مشکل ہے۔ یہ خردبینی جان دار فضا سے لے کر نکاسیٔ آب کی نالیوں، طبی آلات، طبی عملے کے ہاتھوں اور لباس تک پر پائے جاتے ہیں۔ انھیں پھیلنے سے روکنے کے لیے مسلسل صفائی ستھرائی، بار بار جراثیم کش ادویہ کے چھڑ کاؤ اور دیگر اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس پورے عمل پر کثیر اخراجات بھی ہوتے ہیں۔ اس لیے اکثر اسپتالوں ، خاص طور سے سرکاری اسپتالوں میں اس پہلو سے بے پروائی برتی جاتی ہے جس کا خمیازہ کئی مریضوں کو زندگی سے محرومی کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے۔

CRE سے بچاؤ ممکن ؟
اس کے امکانات برائے نام ہیں۔ ایسی تحقیقی رپورٹیں مسلسل شایع ہورہی ہیں جو یہ بتاتی ہیں کہ موجودہ طاقت وَر اینٹی بایوٹکس کے خلاف جراثیم میں مزاحمت پیدا ہوچکی ہے اور مستقبل قریب میں عالمی سطح پر علاج معالجے کی صورت حال خوف ناک رُخ اختیار کرجائے گی۔ چناں چہ مزید طاقت وَر اینٹی بایوٹک ادویہ کی تیاری پر زور دیا جارہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔