6 سال کے دوران پاکستان میں بدعنوانی ’’معمولی کم‘‘ ہوئی، ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل

ویب ڈیسک  جمعرات 22 فروری 2018
پاکستان میں ٹیکس آمدن، سرکاری اہل کار اور سیاسی پارٹیوں تک میں انتہائی بدعنوانی کی شکایات عام ہیں، رپورٹ : فوٹو : فائل

پاکستان میں ٹیکس آمدن، سرکاری اہل کار اور سیاسی پارٹیوں تک میں انتہائی بدعنوانی کی شکایات عام ہیں، رپورٹ : فوٹو : فائل

برلن: ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے مختلف ممالک میں بدعنوانی کے تاثر سے متعلق تازہ سالانہ رپورٹ ’’کرپشن پرسیپشن انڈیکس 2017‘‘ میں پاکستان کو 32 کے اسکور کے ساتھ 117 ویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔ 2016 کی رپورٹ میں بھی پاکستان کا اسکور یہی تھا۔

غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق بدعنوانی کے حوالے سے دنیا بھر کے ممالک پر نظر رکھنے والی عالمی تنظیم ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے ’’کرپشن پرسیپشن انڈیکس 2017‘‘ جاری کردیا ہے جس میں گزشتہ 6 سال کے دوران بدعنوانی کے حوالے سے پاکستان کا اسکور 5 درجے بہتر ہوکر 32 ہوگیا ہے۔ اس انڈیکس میں 2012 کے دوران پاکستان کا اسکور 27 تھا۔

رپورٹ میں 180 ملکوں کو بدعنوانی یعنی کرپشن کے اعتبار سے تین درجوں یعنی ’مکمل مبرا،‘ ’جزوی طور پر مبرا‘ اور ’غیر مبرا‘ میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں بنگلہ دیش اور تاجکستان کو بدعنوانی کی مثال قرار دیا گیا ہے۔ قرغزستان، نیپال اور پاکستان کو بدعنوانی سے ’جزوی طور پر مبرا‘ جب کہ افغانستان اور میانمار کو ’غیر مبرا‘ کے درجے میں رکھا گیا ہے۔

رپورٹ میں پاکستان کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں زمین سے متعلق امور سے 75 فیصد عوام کا جب کہ پولیس سے 65 فیصد واسطہ پڑتا ہے جہاں ہر سطح پر رشوت ستانی موجود ہے، یہاں تک کہ ٹیکس آمدن، سرکاری اہل کار اور سیاسی پارٹیوں تک میں انتہائی بدعنوانی کی شکایات عام ہیں۔

اس خبرکوبھی پڑھیں: نومولود بچوں کی شرح اموات میں پاکستان سرفہرست

واضح رہے کہ کرپشن پرسیپشن انڈیکس کےلیے 2017 کے دوران 180 ممالک میں 22,000 سے زائد افراد سے سوالنامے کے ذریعے سروے کیا گیا جبکہ دیئے گئے جوابات کی روشنی میں ہر ملک کو 0 سے لے کر 100 تک کا اسکور دیا گیا۔ اس انڈیکس میں کم اسکور زیادہ کرپشن کو جبکہ زیادہ اسکور کم تر کرپشن کو ظاہر کرتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق مذکورہ پیمانے پر 2017 کےلیے پاکستان کا اسکور 32 جبکہ بنگلہ دیش کا اسکور 28 رہا۔ ایشیائی ممالک میں پاکستان، افغانستان، بنگلہ دیش، بھارت، قرغزستان، میانمار، نیپال، اور تاجکستان میں انتہائی درجے کی بدعنوانی ہے، جس کے نتیجے میں وسیع شعبہ جات اور ادارے متاثر ہو رہے ہیں۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے مطابق بدعنوانی کے اعتبار سے پاکستان کا پڑوسی ملک افغانستان، 15 اسکور کے ساتھ دنیا کے بدعنوان ترین ممالک میں چوتھے نمبر پر ہے جبکہ بھارت کا اسکور 40 اور چین کا 41 ہے، یعنی چین میں بھارت سے کم بدعنوانی ہے۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ ان ممالک میں بدعنوانی کے خلاف کوششوں میں محدود پیش رفت ہوئی ہے، جس کے نتیجے میں لوگ متاثر ہو رہے ہیں اور غیرملکی سرمایہ کار یا کمپنیاں رشوت ستانی کو اِن ملکوں میں سرمایہ کاری کی راہ میں رکاوٹ قرار دیتی ہیں۔ اِن ممالک میں شفافیت اور احتساب کو فروغ دینے کا ریکارڈ خاطر خواہ نہیں، سرکاری رقوم کے انتظام میں عدم شفافیت کا عنصر عام ہے اور کالا دھن سفید کرنے کی روک تھام (اینٹی منی لانڈرنگ) کے سلسلے میں ضابطے بھی غیر تسلی بخش ہیں۔

ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے مطابق گزشتہ عشرے کے دوران بھارت کے دفاعی اخراجات میں 147 فیصد، پاکستان میں 107 فیصد جبکہ بنگلہ دیش میں 202 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا اور اس حوالے سے بھی غیر شفافیت برتی جا رہی ہے۔ بھارت میں 2013ء کے دوران فوج غیرقانونی طور پر گولف کورس چلا رہی تھی، جو سرکاری زمین پر واقع ہیں؛ جب کہ بھارتی فضائیہ کے اہل کار ناجائز شاپنگ مالز اور سینما ہال چلارہے ہیں۔ بنگلہ دیش میں اس بات کے ثبوت موجود ہیں کہ فوج ملک کے قدرتی وسائل کا ناجائز اور بے دریغ استعمال کرتی ہے۔

ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ حاصل کردہ نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ وہ ملک جہاں صحافتی آزادی اور غیر سرکاری تنظیموں کے تحفظ کا خاطر خواہ بندوبست نہیں، وہاں رشوت ستانی کی شرح بدترین صورت حال اختیار کر چکی ہے۔ ’کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس‘ کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے، اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایسے ملکوں میں جہاں بدعنوانی کی صورت حال ’’بدترین ہے‘‘ وہاں گزشتہ چھ برسوں کے دوران اوسطاً ہر ہفتے میں ایک صحافی ہلاک ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ پانچ میں سے ایک صحافی بدعنوانی کی خبریں دینے کی پاداش میں ہلاک کیا جاتا ہے۔ پھر یہ کہ ایسے ملکوں میں اکثریتی معاملات میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔ اس سلسلے میں 100 ملکوں میں سے برازیل کا نام لیا گیا ہے، جہاں گزشتہ چھ برسوں کے دوران 20 صحافی ہلاک ہوئے، بلدیاتی حکومت اور منشیات کے کاروبار کے جرائم عام ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔