تعلیم، تحقیق اور تخلیق؛ بقاء کے حقیقی ضامن

عماد ظفر  ہفتہ 24 فروری 2018
دفاع کے ضامن تعمیری اور تخلیقی ذہن ہوتے ہیں۔
فوٹو: انٹرنیٹ

دفاع کے ضامن تعمیری اور تخلیقی ذہن ہوتے ہیں۔ فوٹو: انٹرنیٹ

کہتے ہیں کہ گریٹ وال آف چائنہ زمانہ قدیم کے بسنے والے چینیوں نے دفاع کی خاطر بنائی تھی۔ اس زمانے میں بسنے والے چینیوں کا خیال تھا کہ دیوار کی اونچائی کی وجہ سے کوئی بھی ان کو تسخیر نہیں کر سکے گا اور یوں دشمن ان پر کبھی بھی قابض نہیں ہو سکے گا۔ روایات کے مطابق پہلے سو سال میں چائنہ پر تین حملے ہوئے اور تینوں حملوں میں دشمن نے زمانہ قدیم کے بسنے والے چینی باشندوں کو زیر کر لیا۔ دشمن نے ہر دفعہ دیوار کو تسخیر کرنے کے بجائے دیوار کی بلند فصیلوں پر معمور پہرے داروں کو رشوت دی اور آرام سے اس زمانے میں چین کو فتح کرتے رہے۔ صدیاں گزرنے کے بعد چین میں بسنے والوں کو احساس ہوا کہ وطن یا معاشرے کی حفاظت اونچی اونچی دیواریں اور دفاعی ہتھیار نہیں کر سکتے۔ دفاع کےلیے مضبوط معیثت اور معاشرے کی بقا کےلیے مضبوط سماجی ڈھانچہ درکار ہے۔

چینیوں نے یہ راز جاننے کے بعد دیوار چین کو ایک سیاحتی مقام کا درجہ دیا، معاشی ترقی اور تعلیمی سرگرمیوں کے اہداف مقرر کیے، اپنے معاشرے میں موجود بہترین دماغوں اور دانشوروں کو یکجا کر کے آنے والی نسلوں کےلیے رول ماڈل تخلیق کیے اور آج چائنہ دنیا کی دوسری بڑی سپر پاور ہے۔

جو راز چینیوں نے بہت پہلے جان لیا تھا، ہم وہ آج بھی نہیں جان سکے۔ ہم زمانہ قدیم کے چینیوں کی طرح دفاع پر وسائل خرچ کرکے اور ایٹم بم یا میزایل بنا کر سمجھتے ہیں کہ ہم ناقابل تسخیر ہیں۔ دشمن مسکراتے ہوئے ہر دفعہ دیوار چین کے محافظوں کو رشوت دینے والے واقعہ کی طرح ہم میں سے ہی کچھ افراد کو پیسہ اور آسائشات دے کر خریدتا ہے اور نتیجتاً کبھی سقوط ڈھاکہ تو کبھی ایبٹ آباد جیسے سانحات اور کبھی ریمنڈ ڈیوس جیسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں جو ہمارے ایٹمی طاقت ہونے کے دعوے کا مذاق اڑاتے رہتے ہیں۔ ہم بھی زمانہ قدیم کے چینیوں کی طرح اپنے سماج اور سماجی ڈھانچے کو درست کرنے کی جانب کوئی قدم نہیں اٹھاتے۔ گریٹ وال کی طرح ہم گریٹ دفاع بناتے ہوئے یہ بات مسلسل نظر انداز کرتے آئے ہیں کہ وطن کا دفاع اس میں بسنے والے لوگ کرتے ہیں، نہ کہ ہتھیار۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ جب ذہن سازی نہ کی جائے، معاشرے میں بسنے والے افراد کو عہد حاضر میں کوئی رول ماڈل نہ دیا جائے تو پھر معاشرہ سر اٹھا کر نہیں بلکہ سر جھکا کر جیتا ہے۔ ہم عہد رفتہ کے رول ماڈلز یا خود ساختہ ہیروز کو لے کر اسـں جدید دنیا کے مطابق معاشرہ تشکیل کرنے میں بالکل ناکام رہے ہیں۔ جو ہیروز یا رول ماڈل پہلے گزرے، انہیں بھی ہم تہذیبی نرگسیت کی بیماری کی وجہ سے متنازعہ بنا چکے ہیں۔ ویسے بھی ہم جنگ و جدل اور قتال میں اتنی دلچسپی رکھتے ہیں کہ ہم نے بچوں تک کو بھی بتا رکھا ہے کہ رول ماڈل ہونے کےلیے جنگجو ہونا بے حد ضروری ہے۔ زمانہ قدیم میں بسنے والی قوموں کے رول ماڈل بھی ایسے ہی ہوتے تھے جنہیں ’’نائٹ‘‘ (Knight) کہا جاتا تھا۔ مشہور مصنف سرونٹیز کا تخلیق کردہ کیریکٹر ڈان کویٹے جو کہ زمانہ قدیم کے جنگی رجحان کی ترجمانی کرتا تھا اس سے ملتے جلتے کیریکٹرز آج بھی ہمارے ہیروز ہیں۔ ہم تحقیق علم دوانشوارانہ اور تخلیقی محاذوں پر آج تک رول ماڈل بنانے میں ناکام رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے بڑے لوگ آج تک ہماری اپنی تاریخ کے ہی صفحات میں جگہ نہیں بنا سکے۔

ہم جی ڈی پی کا سب سے کم ترین خرچہ تعلیم کے شعبے پر کرنے والی قوموں میں سے ایک ہیں۔ حال ہی میں قومی اسمبلی میں پیش کیے گئے وزارت سائنس اور ٹیکنالوجی کے اعداد و شمار کے مطابق ریسرچ اور سائنس پر رقم خرچ کرنے والے ممالک کی فہرست میں پاکستان کا نمبر فہرست میں موجود 141 ممالک میں سے 131 واں ہے۔ یعنی تعلیم، تحقیق اور سائنس کے شعبہ جات میں ہم لوگ سرے سے دلچسپی لیتے ہی نہیں ہیں۔ نتیجتاً ہمارے اپنے قابل دماغ یا تو وطن عزیز میں خوار ہوتے پھرتے ہیں یا پھر بیرونِ مالک جا کر بس جاتے ہیں اور نت نئی تحقیقات اور ایجادات میں حصہ لیتے ہیں۔ ہم البتہ بحث مباحث اور میڈیا پر یہ جھوٹ بول کر دل کو بہلا لیتے ہیں کہ دنیا کی تمام ایجادات کئی صدیوں قبل گزرے مسلمان سائنسدانوں کی مرہون منت ہیں، اور پوری دنیا جھوٹ بولتی ہے کہ کیمرہ یا ٹی وی یا کمپیوٹر اور پہیہ انہوں نے ایجاد کیا۔

گریوی ٹیشن کا تصور نیوٹن کے باعث ہم تک پہنچا۔ یہ مائینڈ سیٹ کسی دشمن نے نہیں بلکہ ہم نے خود تیار کیا ہے۔ ہم نے قیام پاکستان کے بعد سوچ و خیالات اور نظریات پر تعصب کے پہرے بٹھائے اور دنیا کی تمام حقیقتوں سے آنکھیں بند کر کے رکھیں، آج جب آنکھیں کھلیں تو پالیسی سازوں کو پتا چلا کہ تعصب کے پہروں میں پروان چڑھنے والے دماغ اپنے سوا کسی کو نہیں مانتے اور ایک پیرانویا کا شکار ہیں۔

خیر اب جب قومی بیانیہ تبدیل کیا جا رہا ہے تو اس صورتحال میں بھی ہم وہی غلطی دہرا رہے ہیں۔ ہمیں اپنے بچوں کو رول ماڈلز دینے کی ضرورت ہے، ایسے رول ماڈل جن پر وہ فخر اور مان کر سکیں اور پوری دنیا میں سر اٹھا کر فخر سے کہہ سکیں کہ دیکھیے یہ ہیں ہمارے ہیروز۔ یہ ہیں لمحہ موجود میں ان کی خدمات۔ یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے‘ علم، تحقیق، سائنس و ٹیکنالوجی اور فنون لطیفہ پر ہمیں وسائل خرچنے کی ضرورت ہے تاکہ نرگس ماول والہ جیسی خواتین امریکہ جانے کے بجائے وطن عزیز میں ہی رہ کر تحقیق کرنے میں دلچسپی رکھ سکیں۔ ڈاکٹر عبدالسلام جیسے لوگوں کو محض اپنے عقیدے کی وجہ سے جبری جلاوطنی نہ اختیار کرنا پڑے۔ محسن حامد جیسے ناول نگار جو ’’دی موتھ سموک‘‘ جیسا ناول لکھ کر دنیا بھر میں اپنی قابلیت کا جھنڈا گاڑ سکتے ہیں، انہیں اپنی قابلیت کو منوانے کےلیے بیرونِ ممالک میں بسنے کا محتاج نہ ہونا پڑے۔ پیسہ اور وسائل ہمیں دماغ تیار کرنے پر لگانے چاہئیں، نا کہ ہتھیار۔

چین کو آج ایک سپر پاور اس کے ہتھیاروں نے نہیں، بلکہ ٹیکنالوجی، سائنس، ریسرچ اور معیشت نے بنایا ہے۔ امریکہ کی دنیا میں برتری ہتھیاروں کے بل پر نہیں، بلکہ جدید علوم میں ریسرچ کی بنا پر ہے۔ زمانہ قدیم کے جنگی تصورات اب ختم ہو چکے ہیں۔ عہدِ حاضر میں جنگیں معاشی، علمی، تحقیقی، سائنسی اور ٹیکنالوجی کے محاذوں پر لڑی اور جیتی جاتی ہیں۔ ہمارے بچوں کو ایک درست سمت کا تعین کرنے میں رہنمائی ملنی چاھیے تا کہ ہم بھی جدید دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اور معاشروں میں شامل ہوں سکیں۔

جنوبی ایشیا میں بسنے والے بچوں کا آئی کیو لیول دنیا بھر میں بسنے والے باقی بچوں کی نسبت زیادہ ہے، لیکن رہنمائی اور مواقع کی عدم فراہمی کی وجہ سے یہ ٹیلنٹ ضائع ہو جاتا ہے۔ دفاعی بیانیہ اب علم تحقیق اور سائنس و ٹیکنالوجی پر مبنی ہونا چاہیے، کیونکہ سب سے بہتر دفاع بہترین دماغ کر سکتے ہیں؛ ہتھیار نہیں۔ انسان کائنات کی لا محدود وسعتوں کو دریافت کر کے ترقی کی انتہا پر پہنچا ہے، نہ کہ بم اور میزائل بنا کر۔ یہ سیدھا سا نکتہ ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔

دانشور ذہن سازی میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر اب بھی دانشوری کے نام پر اصلاف پرست اور چھوٹے چھوٹے بونے ٹی وی اخبارات یا دیگر ذرائع کے ذریعے نفرت اور تعصب کا درس دیتے دنیا کی ایجادات، تحقیقات اور نت نئی ریسرچ سے منہ موڑ کر صدیوں پہلے کے جنگی کلچر میں ذہنوں کو مقید کرنا نہیں چھوڑیں گے تو پھر ریاست بھلے ہی جتنی مرضی کوشش کرلے، ہمارا بیانیہ تلوار اور بندوق کے گرد ہی گھومتا رہے گا۔

اگر اب بھی موت اور جنگوں کو گلوریفائی کیا جائے گا تو پھر ملا عمر اور اسامہ بن لادن جیسے افراد ہی بچوں کے آئیڈیل ہوں گے، نہ کہ اسٹیفن ہاکنگ یا ڈاکٹر عبدالسلام۔ پالیسی سازوں کو اب فیصلہ کرنا ہو گا کہ زمانہ قدیم کے چینی باشندوں کی مانند دفاع پر ہی وسائل لٹا کر تخریبی دماغ تیار کرنے ہیں یا علم و تحقیق پر پیسہ لگا کر تخلیقی اور تعمیری اذہان کی تشکیل دینی ہے۔ کیونکہ دفاع کے ضامن تعمیری اور تخلیقی ذہن ہوتے ہیں، ہتھیار اٹھا کر انسانوں کا قتل عام کرنے والے بونے نہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ[email protected] پر ای میل کردیجیے۔

عماد ظفر

عماد ظفر

بلاگر گزشتہ کئی سال سے ابلاغ کے شعبے سے منسلک ہیں۔ ریڈیو، اخبارات، ٹیلیویژن اور این جی اوز کے ساتھ وابستگی بھی رہی ہے۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے بھی وابستہ رہے ہیں۔ باقاعدگی سےاردو اور انگریزی بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔