گلوکاراورانتخابات

تنویر قیصر شاہد  اتوار 31 مارچ 2013
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

جنابِ عمران خان نے باقاعدہ سیاست کاری سے قبل ہراہم اور بڑا کام نہایت سنجیدگی اور شائستگی سے انجام دیا۔عالمی کرکٹ کے میدان میںدو عشروں تک کامیابیوں کے جھنڈے گاڑے تو نہایت محنت اور متانت سے ایک ایک قدم اُٹھایا۔اُن کے خلاف اگر کوئی سکینڈل بھی منظرِ عام پر آیا تو اُنہوں نے جواب دینے کے لیے کسی کو دشنام دیا نہ گالی دینے کے لیے زبان کھولی۔بس اپنی بات کہہ کر آگے بڑھ گئے اوربہانے تراشنے اور جھوٹ بولنے کے مرتکب ہونے سے احتراز اور پرہیز کیا۔

اُنہوں نے تعلیم اور صحت کے میدان میں دو بڑے اور مثالی کارنامے انجام دیے تو تندہی ،یک جہتی اورارتکازِ ذہن کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑا۔لاریب تعلیم وصحت کے شعبے میں اُن کے قابلِ فخر کارناموں سے وطن عزیز کے ہزاروں نہیں، لاکھوں افراد فیض یاب ہو رہے ہیں۔اِس حوالے سے اُن کی فیض رساں شخصیت سے کسی کو بھی جراتِ انکارنہیں لیکن سیاست کا چسکا اُن کے لیے مسائل ومصائب کا موجب بھی بن رہا ہے اور اُن کے لیے آزمائشوں کا میدان بھی۔

کیسے کیسے لوگ اُن کی پارٹی میں شامل ہو کر پاکستان کو ’’نیا پاکستان‘‘ بنانے کا ادّعا لے کر سامنے آرہے ہیں۔ اِس ضمن میں بعض فنکاروں نے عمران خان کے چاہنے والوں کو حیرت میں مبتلا کردیا ہے۔ پاپ سنگر سلمان احمد کی تو اِس سلسلے میں باقاعدہ رونمائی تازہ تازہ ہوئی ہے۔ویسے تو جناب عمران خان نے مینارِ پاکستان کے سائے تلے جو عظیم الشان جلسہ کیاتھا،اِس میں بھی موسیقی اور موسیقاروں نے خاصی رونق لگا رکھی تھی لیکن اب انتخابات میں یہ گلوکار حصہ بھی لیں گے اور وہ بھی کپتان کی مرضی اور منشاء سے،یہ خواب تو کبھی نہ دیکھا گیا تھا۔

پاکستان تحریکِ انصاف کے پلیٹ فارم سے انتخاب ’’جیت‘‘ کر پاکستان میں تبدیلی کی ہوائیں چلانے کا دعویٰ کرنے والے یہ صاحب جناب سلمان احمد یا ڈاکٹرسلمان احمد ہیں کون؟اُن کا شماردراصل پاکستان کے اُن افراد،گروہوں اور تنظیموں میں ہوتا ہے جو ہر حالت میں پاکستان کی بھارت سے دوستی کرانا چاہتے ہیں،خواہ بھارت اِس پرراضی ہو یا نہ ہو،خواہ اِس دوستی کے پردے میں بھارت پاکستان کی جڑوں میں پانی بھرتا رہے یا پاکستانی دریائوں کے پانی چُراتا رہے۔اپنے گٹار کے زور پر یہ صاحب ہمیں بھارت کے سامنے جھکانے کے درپے ہیں اور اِسے امن کا نام دینا چاہتے ہیں۔

وہ موسیقی میں ایک عدد ’’جنون‘‘ گروپ کے خالق ومالک بھی ہیں لیکن ہم اُن سے گزارش کرنا چاہتے ہیں کہ وہ ’’نئے پاکستان‘‘ کے شہریوں کو مجنوں بنانے سے گریز ہی کریں تو بہتر ہے۔جنابِ سلمان احمد وہ پچاس سالہ ’’نوجوان‘‘ ہیں جنہوں نے 1998ء میں پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے خلاف مظاہرہ کیا تھا اور یہ بھی فرمایاتھا:’’ہم ہتھیاروں کی دوڑ میں کیوں اضافہ کرنا چاہتے ہیں جب کہ ہمارے لوگ ابھی تک پینے کے صاف پانی کو ترس رہے ہیں؟

ہم اپنے ہمسایوں(اِشارہ بھارت کی طرف ہے)کو دشمن کیوں سمجھتے ہیں جب کہ ہم ایک دوسرے کے اتنے قریب بستے ہیں۔‘‘اُن کے حامیوں کا کہنا ہے کہ سلمان احمد نے یہ الفاظ دونوں ممالک، پاکستان اور بھارت، کے لیے کہے تھے اور یہ بھی کہ سلمان احمد نے پاکستانی ایٹمی دھماکوں کے ساتھ ساتھ بھارتی ایٹمی دھماکوںکے خلاف بھی مظاہرہ کیا تھا۔کیا یہ عُذر اہلِ پاکستان کے لیے قابلِ قبول ہوگا؟واقعہ یہ ہے کہ ہمیں موسیقی یقیناً اچھی لگتی ہے۔یہ سکون بھی بخشتی ہے لیکن سلمان صاحب جس موسیقی کے دلدادہ اور مبلغ ہیں،وہ بے ہنگم شور کا دوسرا نام ہی تو ہے۔صرف جسمانی اور ذہنی جنوں کا ایک اظہار۔

گلوکار سلمان احمد اکیلے نہیں ہیں۔ایک اور صداکار بھی کپتان صاحب کی پارٹی میں شامل ہیں اور ملک کو نئی تبدیلیوں سے روشناس کرانے کے دعوے دار۔ابراراحمد صاحب۔وہی جناب ابرار احمد جو کچھ عرصہ قبل گانے کی شکل میں بِلّو کے گھر کون کون جائے گا،کی دعوت دیتے رہے ہیں۔آنجناب نے عمران خان صاحب کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے نارووال میں اکٹھے کیے گئے چندے کی بنیاد پر ایک اسپتال تو یقیناً بناڈالا لیکن اِسے بھرپورانداز میں چلانے اور دکھی انسانیت کو فیض پہنچانے میں پوری طرح کامیاب نہ ہوسکے کیونکہ وہ اِس شاندار پراجیکٹ پراُس طرح مطلوبہ توجہ مرتکز نہ کرسکے جس طرح عمران خان نے اپنے عالمی شہرت یافتہ اسپتال پر توجہ مرکوزکی تھی۔

اب یہ صاحب بھی پی ٹی آئی میں شامل ہیں اور موسیقی کی تال پر قوم کی بگڑی بنانا چاہتے ہیں۔عمران کا ووٹ بینک اِن کی وجہ سے منتشر ہو رہا ہے۔برطانیہ کے مشہور گلوکار کیٹ سٹیونسن،جو بعدازاں اسلام قبول کرکے یوسف اسلام کے نام سے جانے گئے،اور امریکا کے مائیکل جیکسن(جن کے بارے میں یہ بھی کہاجاتا ہے کہ وہ بھی مشرف بہ اسلام ہوچکے تھے)کی عوام کے دلوں میں بے پناہ عزت تھی۔لوگ اُنہیں پاگلوں کی طرح چاہتے تھے لیکن امریکی سیاست واقتدار میں اُن کا کیا مقام ومرتبہ تھا،یہ ہم سب جانتے ہیں۔کیا ہمارے کپتان صاحب بھی اپنے مائیکل جیکسنوں کے بارے میں کچھ جانتے ہیں؟

رسید: 25 مارچ2013ء کو اِسی صفحے پر پاکستان تحریکِ انصاف کی مرکزی رہنما محترمہ فوزیہ قصوری کے بارے میں ہمارا ایک کالم بعنوان’’فوزیہ قصوری کو شاباش‘‘ شایع ہوا۔حیرانی کی بات ہے کہ پی ٹی آئی کے اندر سے بعض لوگوں نے مجھے فون پر شکایت کی کہ فوزیہ قصوری اتنی شاباش کی مستحق نہ تھیں۔ہم فوزیہ صاحبہ سے کبھی نہیں ملے لیکن انھوں نے پاکستان کی خدمت کی خاطر امریکی شہریت سے ناتا توڑکرجو ایک بے مثال اقدام کیا ہے،اِس پس منظر میں ضروری تھا کہ اُن کی تحسین کی جائے لیکن یہ شاباش وتحسین بعض قارئین کے ساتھ خود پی ٹی آئی کے بعض وابستگان کو پسند نہیںآئی۔

اِس کا یہ مطلب اخذ کیاجاسکتا ہے کہ پی ٹی آئی کے اندر بھی تقسیم اور دھڑے بازی کا عنصر موجود ہے۔قارئینِ کرام میں سے ایک قاری محترم محمد سہیل ارشاد بھی ہیں جنھیں فوزیہ قصوری صاحبہ کے بارے میں ہمارے الفاظ پسند نہیں آئے۔انھوں نے ہمیں ارسال کردہ اپنی ای میل میں ہمیں ’’متکبر،خودپرست اور دوسروں کو حقیرجاننے والے صحافیوں میں سے ایک‘‘ بھی قراردیا ہے۔معلوم نہیں محمد سہیل ارشاد صاحب کے اِس ’’اِرشادِ گرامی‘‘ یا ناراضی کی وجہ کیا ہے؟ خدا ہمیں تکبرونخوت اور خودپرستی سے بچائے۔ارشاد صاحب نے مزید لکھا ہے:’’آپ کا کالم بابت فوزیہ قصوری خاصا درباری قسم کا ہے اور کم علمی پرمبنی بھی کیونکہ تحریکِ انصاف میں فوزیہ قصوری سے زیادہ قربانیاں دینے والی خواتین بھی موجود ہیں جن کا شاید آپ کو علم نہیں۔

آپ نے اُن(فوزیہ قصوری) کے پولیٹیکل اسٹنٹ کو تحریکِ انصاف کی وفاداری سے خوب جوڑا ہے جب کہ وہ حامد خان اور دیگر افراد کو سی آئی اے کا ایجنٹ کہہ چکی ہیں۔انھوں نے امریکی شہریت عین اُس وقت چھوڑی ہے جب کہ اُن کو پارٹی الیکشن سے باہر کردیاگیاتھا۔اُن کو کیا پہلے اِس قانون کا علم نہیں تھا؟ آپ کو شاید کوئی خصوصی سفارش کی گئی ہے ورنہ اِس طرح کی تعریف آپ کرنہیں سکتے۔‘‘ہم تو سہیل صاحب سے یہی گزارش کرسکتے ہیں کہ اُنہیں بدگمانی سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ بدگمانوں کے بارے میں سخت وعید سنائی گئی ہے۔فوزیہ صاحبہ نے تو دربار ہی نہیں لگایا،کالم بھلا کیونکر درباری ہوگیا؟

ہمیں کسی نے فوزیہ صاحبہ کے بارے میں کیا سفارش کرنا تھی جب کہ فوزیہ قصوری صاحبہ نے خود اِس کالم کے جواب میں ہمیں جو ای میل ارسال کی ہے،اُس میں لکھا ہے:’’مجھے نہیں معلوم کہ مَیں کبھی آپ سے ملی ہوں۔بہرحال آپ نے میرے بارے میں جو کالم لکھا ہے،اس کا شکریہ۔‘‘ہم ملتان سے کلیم اللہ خان نیازی،مظفرگڑھ سے احمد الدین ،سیالکوٹ سے انجینئر محمد نعیم سلفی وعبدالشکور احمد اور لاہور سے پروفیسر محمد اشرف ومحمد زمان اور لیاقت حسین کے بھی مشکور ہیں جنہوں نے مذکورہ بالاکالم کے حوالے سے ہم پر سخت تنقید بھی کی ہے اور تعریف میں چند الفاظ بھی لکھے ہیں۔

29مارچ2013ء کو ہمارا ایک کالم بعنوان’’پنجاب کے نگران وزیرِ اعلیٰ:تُوعرصۂ محشر میں ہے‘‘شایع ہوا۔اِس میں پاکستان اور بھارت کے اُن معروف اخبارنویسوں کے اسمائے گرامی گنوائے گئے تھے جنہوں نے بعض مواقع پر وزارت وسفارت کے عہدے قبول کیے۔لاہور سے ہمارے مہربان دوست اور پاکستان کے ممتاز عالمِ دین،مورخ اور خاکہ نگار محترم محمد اسحاق بھٹی صاحب نے ہمیں فون کرکے یاد دلایا ہے کہ اِس فہرست میں مولانا کوثر نیازی کا نام بھی شامل کرنا چاہیے تھا جو اخبار نویسی کے میدان سے نکل کربھٹو دور میں مرکزی وزیراطلاعات ونشریات مقرر کیے گئے۔اسحاق بھٹی صاحب نے مزید فرمایا کہ اِس فہرست میں مصر کے نامور صحافی اور ’’الاہرام‘‘ ایسے تاریخ ساز اخبارکے ایڈیٹر محمد حسنین ہیکل کا نام بھی شامل کیاجانا چاہیے تھا جنہوں نے مصر کی ایک اہم وزارت قبول کرکے مصری صحافت و سیاست اور تاریخ پر انمٹ نشانات ثبت کیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔