زینب کے بعد؟

ظہیر اختر بیدری  جمعـء 23 فروری 2018
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

7 سالہ معصوم زینب کے جسمانی اور روحانی قاتل عمران علی کو انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت نے 4 بار سزائے موت 32 سال قید اور 41 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی۔ زینب کے قاتل عمران علی کو سرعام پھانسی دینے کے مطالبے کیے جا رہے ہیں۔ عمران علی نے اپنے خلاف فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔ زینب کے والدین نے مطالبہ کیا ہے کہ عمران علی کو اسی جگہ پھانسی دی جائے جہاں سے زینب کی لاش ملی تھی۔ عمران کی سزا کے اعلان پر ملک بھر میں اطمینان کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

عمران علی نے دوران تفتیش قبول کیا ہے کہ اس نے زینب کے علاوہ آٹھ اورکم عمر لڑکیوں کی آبرو ریزی کے بعد انھیں قتل کردیا ہے، مجرم یہ سفاک جرائم قصور میں کرتا رہا ہے۔ وہ زینب کے مکان سے ملحقہ گلی ہی کا رہائشی تھا۔ اور میڈیا کے مطابق زینب کے قتل کے بعد وہ فرار نہیں ہوا بلکہ قصور ہی میں رہا اور لوگوں سے ملتا رہا، اس ڈھٹائی سے اندازہ ہوتا ہے کہ مجرم کس قدر نڈر اور جرائم میں ماہر تھا۔

زینب کے قتل اور آبرو ریزی سے کئی سوال پیدا ہوئے ہیں۔ عمران علی 8 لڑکیوں کی آبرو ریزی کے بعد انھیں قتل کرتا رہا اس کے باوجود وہ محفوظ بھی رہا اور آزاد بھی رہا۔ ایک ہی نوعیت کے آٹھ قتل کے باوجود وہ گرفتار نہ ہوا۔ اس سے مقامی پولیس کی کارکردگی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ قصور میں منتخب ایم پی اے اور ایم این اے بھی موجود ہوں گے، ان عوامی نمایندوں نے عوام کی آٹھ معصوم بیٹیوں کے ساتھ ہونے والے اس سفاکانہ جرائم کا نوٹس کیوں نہیں لیا؟

اعلیٰ افسران تسلسل کے ساتھ ہونے والے ان جرائم کے خلاف خاموش کیوں رہے؟ خفیہ ایجنسیوں نے آٹھ قتل اور آبرو ریزی کے مجرم کا پتہ کیوں نہیں لگایا؟ قصورکے شہری ان آٹھ معصوم بچیوں کے قتل کے خلاف کیوں خاموش رہے۔ عمران علی آٹھ بچیوں کے قتل کے باوجود اپنے شہر میں کس طرح آزادی سے گھومتا پھرتا رہا؟ یہ ایسے سوال ہیں جس کا جواب ہمارے معاشرے میں تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر میڈیا اس مسئلے کو اجاگر نہ کرتا تو کیا زینب کا قتل دوسری آٹھ لڑکیوں کی طرح گوشہ گمنامی میں پڑا نہ رہتا؟ کیا مجرموں کو اس وقت تک گرفتار نہیں کیا جاتا جب تک جرم کی تشہیر میڈیا میں نہیں ہوتی؟ زینب کے قتل کے بعد اب تک کئی معصوم لڑکیوں اور لڑکوں کو آبرو ریزی اور بدکاری کے بعد قتل کردیا گیا ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں اس قسم کے گھناؤنے جرم کس قدر آزادی اور دھڑلے کے ساتھ کیے جا رہے ہیں۔

پنجاب کے حوالے سے یہ پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ پاکستان میں صرف پنجاب ایک ایسا صوبہ ہے جہاں جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے اور امن و امان کی صورتحال حوصلہ افزا ہے، اگر یہ پروپیگنڈا درست ہے تو پھر عمران علی آٹھ آٹھ معصوم لڑکیوں کی آبرو ریزی کے بعد انھیں اس آزادی سے قتل کرکے شہر میں آزادی کے ساتھ کس طرح گھومتا رہا ہے؟

بلاشبہ اس قسم کے جرائم ملک کے دوسرے شہروں میں بھی ہو رہے ہیں لیکن کسی شہر میں ایسا نہیں ہوا کہ ایک عیاش اور جنسی مریض لگاتار آٹھ لڑکیوں کے ساتھ زیادتی کرکے انھیں سفاکی سے قتل کرکے ان کی لاشیں کوڑے کے ڈھیر پر پھینکتا رہا ہو۔ ان لگاتار وحشیانہ وارداتوں کے باوجود قصور کے عوام نے اس کے خلاف احتجاج کیوں نہیں کیا؟

اس حوالے سے سب سے اہم اور بڑا سوال یہ ہے کہ ہمارے ملک میں پولیس کا نظام اس قدر ناقص کیوں ہے کہ شہر میں آٹھ معصوم لڑکیوں کی آبرو ریزی کے بعد انھیں قتل کرکے مردہ مرغیوں کی طرح کوڑے کے ڈھیر پر پھینکا جاتا رہا اور پولیس ٹس سے مس نہیں ہوئی۔ کیا جرائم کی روک تھام ایسی پولیس کرسکتی ہے؟

سماجی زندگی کا بھی جرائم میں کافی دخل ہوتا ہے، تقسیم کے بعد پاکستان کے حصے میں جو علاقے آئے وہ قبائلی اور جاگیردارانہ معاشرت پر مشتمل تھے چونکہ ان علاقوں میں تعلیم شجر ممنوعہ کی حیثیت رکھتی ہے اور جہل کا دور دورہ ہوتا ہے تو فطری طور پر ان معاشروں میں مختلف قسم کے جرائم عام ہوتے ہیں جن میں معمولی معمولی باتوں پر قتل ایک عام سی بات ہے۔ جنسی استحصال بھی ان معاشروں کا ایک حصہ ہے۔

ہاریوں اور کسانوں کی بیٹیوں کو اغوا کرانا اور انھیں اپنی کوٹھیوں میں قید کرکے ان کے ساتھ جنسی زیادتیاں کرنا۔ چھ چھ، آٹھ آٹھ سال کی لڑکیوں کے ساتھ 60-70 سال کے بوڑھوں سے شادی کرانا، کم عمر لڑکیوں کے ساتھ قانونی زنا کی ہی ایک شکل ہے جو آج بھی سندھ، پنجاب اور پختونخوا وغیرہ کے کلچر کا ایک حصہ ہے۔ اس کی ایک بدترین شکل خواتین کے برہنہ جلوس ہیں جو ہمارے دیہی معاشرے میں طرہ دار وڈیرے اور جاگیردار بڑی آزادی کے ساتھ سجاتے رہتے ہیں۔

جنسی استحصال کا تعلق عموماً دولت مندی سے ہوتا ہے لیکن ذہنی اور جنسی مریض نچلے طبقات میں بھی موجود ہوتے ہیں۔ جنسی ضرورتوں کی عدم تکمیل اور قانونی راستوں سے جنسی ضرورتوں کو پورا کرنے سے محرومی نوجوانوں کو جنسی بے راہ روی کی طرف لے جاتی ہے۔ عمران علی کو بھی انھی لوگوں میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ بلاشبہ شہری علاقوں میں بھی جنسی جرائم ہوتے ہیں لیکن ان جرائم میں دولت کی فراوانی ایک بڑا سبب ہوتی ہے۔

مغربی ملکوں کے نصاب تعلیم میں جنس تعلیم کا ایک حصہ ہوتی ہے اور کم عمر بچوں کو  جنسی مسائل سے نصابی طور پر آگاہ کیا جاتا ہے لیکن جن پسماندہ معاشروں میں شادی سے پہلے لڑکے کا لڑکی کو دیکھنا معیوب سمجھا جاتا ہو ان معاشروں میں اسکولوں میں جنسی تعلیم ایک عجوبے سے کم نہیں ہوتی مذہبی قدروں کی غلط تشریحات بھی جنسی گھٹن اور جنسی مسائل کی ایک وجہ بنی ہوئی ہے۔

جرائم کوکنٹرول کرنے میں پولیس کا کردار سب سے اہم ہوتا ہے لیکن ہماری اجتماعی بدقسمتی اور حکمران طبقات کے سیاسی مفادات کی وجہ سے پولیس جرائم کوکنٹرول کرنے کے بجائے جرائم کو فروغ دینے کا ذریعہ بنی ہوئی ہے۔ ہمارے اہل سیاست جب چار سوکے لگ بھگ قتل کے مرتکب پولیس افسرکو بہادر بیٹا کہیں گے تو پولیس کا مورال کس قدر بلند ہوگا اور پولیس کس قدر بے لگام ہوگی اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ۔

زینب کے قاتل عمران علی کو سزائے موت سنادی گئی اور عدلیہ کی تاریخ میں غالباً یہ پہلا موقعہ ہے کہ کسی مجرم کو اس کے سنگین جرم کی سزا دو ہفتے میں سنا دی گئی۔ اس فیصلے کے بعد مجرم کو اعلیٰ کورٹ سے رجوع کرنے اور اپیل کرنے کا بھی حق ہے لیکن کیس کی نوعیت سنگین اور غیر معمولی پبلسٹی کی وجہ سے یہ بات یقینی نظر آتی ہے کہ اس کا آخری فیصلہ جلدی ہوگا اور اسے تختہ دار پر چڑھا دیا جائے گا۔

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عمران علی کی سزائے موت سے اس قسم کے جنسی جرائم میں کمی آجائے گی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ جس ملک میں سب سے زیادہ جرائم جس علاقے میں ہوتے ہوں اس علاقے کا تھانہ سب سے زیادہ رقم میں نیلام ہوتا ہو جس ملک کا عدالتی نظام باالواسطہ طور پر جرائم کے فروغ کا ذریعہ بنا ہوا ہو ایسے ملک میں جرائم کے خاتمے کا خیال، خیال است و محال است و جنوں کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے۔

مجرم جیلوں میں سزا اور اچھے چال چلن اختیار کرنے کے لیے بھیجے جاتے ہیں لیکن اس نظام کوکیا کہیں کہ جیلوں سے معمولی جرائم کے مرتکب افراد سنگین جرائم کے ٹرینی بن کر نکلتے ہیں شہر کے جرائم کو جیلوں سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔ ایسے ملک میں 7 سالہ زینب کی بے حرمت لاش اگر کوڑے کے ڈھیر سے ملتی ہے تو اس میں حیرت کی کیا بات ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔