پیغمبر آخر و اعظم ﷺ

ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی  جمعـء 23 فروری 2018
drtayyabsinghanvi100@gmail.com

[email protected]

اللہ عزوجل نے محمدؐ کو آخری نبی و رسول بناکر مبعوث فرمایا اور آپؐ ہی کو دنیائے انسانیت میں ہمہ گیر انقلاب کا بانی بھی بنایا، ایسا انقلاب جس نے فکروعمل کے سارے قدیم اصولوں کو بدل دیا، ایسا عظیم الشان انقلاب جس کو دنیا کا واحد کامل ترین انقلاب ہونے کا شرف حاصل ہے، ایسا بے مثال و لازوال انقلاب جو دنیائے انسانیت نے اس سے قبل کبھی دیکھا نہ ہی دیکھے گی۔

حضورؐ ایمان والوں کے لیے اسوہ حسنہ ہیں نمونہ کامل ہیں، آپؐ کی سیرت و اخلاق عین قرآن ہیں اور آپؐ اعلیٰ اخلاق کے حامل ہیں، اللہ نے آپؐ کی سیرت مبارکہ کو بنی نو انسان کے نمونہ عمل کے لیے منتخب فرمایا اور ہر انسان کا تعلق آپؐ کی سیرت پاک سے جوڑ دیا، قبل ازنبوت بھی آپؐ کی سیرت مبارکہ اہل مکہ میں مقبولیت عامہ حاصل کرچکی تھی لیکن انسانوں نے اپنی روزمرہ کی زندگی میں آپؐ کی پیروی نہیں کی تھی اور نہ کہیں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپؐ نے کسی کو اپنی پیروی کی تلقین کی ہو۔

آپؐ کے ازواج، رشتے دار، دوست، پڑوسی اور اہل شہر سب میں آپؐ یکساں مقبول تھے، نبوت ملنے کے بعد ایک طرف تو تمام انسان خدا کے حکم سے آپؐ کی پیروی کے مکلف ہوگئے دوسری طرف آپؐ اس مطالبے پر مکلف ہوئے کہ آپ پر ایمان لایا جائے اور آپؐ کو نمونہ عمل بنایا جائے۔

آپؐ نے لڑکپن ہی میں مظلوموں کی امداد فرمائی اور نوجوانی میں ظلم و زیادتی کے خلاف تحریک میں حصہ لیا اور معاہدہ حلف الفضول میں شریک ہوئے، آپؐ کے عالم نوجوانی میں انسانی ہمدردی کے اعمال نے مکے میں آپؐ کی مقبولیت میں بے حد اضافہ کردیا تھا۔

علاوہ ازیں آپؐ کی حرب الفجار میں شرکت، کعبہ کی تعمیر نو میں حصہ اور کلیدی کردار کی ادائیگی بھی کتب سیرت میں مذکورہ ہیں ۔ نبوت سے قبل ہی آپؐ اہل مکہ کی محبوب ترین شخصیت اور انسانیت کے محبوب ترین فرد بن چکے تھے لوگ اپنے معاملات کے فیصلے بھی حضورؐ سے کرواتے تھے حالانکہ آپؐ کسی قبیلے کے سردار نہ تھے اس سے بھی حضور اکرمؐ کی مکے میں ایک منصف المزاج عادل اور ثالث سے مقبولیت ظاہر ہوتی ہے۔

اعلان نبوت کے بعد مخالفین نے آپؐ پر دیوانگی کی جو تہمت لگائی تھی اس کی مدافعت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپؐ تو اخلاق وسیرت کی انتہائی بلندیوں پر ہیں اور اکتسابی علوم نے ہر زمانے میں آپؐ کی مانند عادات و اطوار کو اخلاق و سیرت تسلیم کیا ہے نہ کہ دیوانگی۔ کوئی دیوانہ بااخلاق نہیں ہوتا۔ یہ جاہل مخالفین کم علمی کی وجہ سے ایسا کہتے ہیں جب کہ انسانی علم کے ہر ضابطے کے مطابق آپؐ اعلیٰ سیرت وکردار کے حامل ہیں پس خدائی معیار انتخاب کا پہلا اصول اعلیٰ اخلاق قرار پایا۔ ارشاد الٰہی ہے:

’’تمہارے پاس تم میں سے ہی ایسا رسول آیا ہے جس پر تمہاری مشقت گراں گزرتی ہے وہ تمہاری بھلائی کی حرص رکھتا ہے اور ایمان والوں کے ساتھ نرم اور رحم دل ہے۔‘‘

حضور اکرمؐ کی سیرت پاک کو آیت ختم نبوت نے ابدی حیثیت عطا فرما دی، ہر نبی کی شخصیت نے اپنے اپنے زمانے میں نمونہ عمل بن کر حیات انسانی کو پیش آمدہ حالات و معاملات کو سمجھانے میں رہبری فرمائی ہے۔

حضورؐ کو اللہ نے کسی زمانے یا مکان سے مختص نہیں فرمایا، اسی طرح آپؐ کی سیرت پاک ابدالآباد تک انسانیت کے اعلیٰ مقاصد کے حصول میں نمونہ عمل بن گئی اور حضورؐ کا ظہور انسانیت کے انسانی شعورکی پختگی کا مظہر ثابت ہوا۔ اللہ نے حضورؐ کی سیرت کو منتخب فرمایا اور پھر اسے تمام بنی نوع انسان کے لیے اسوہ حسنہ قرار دیا۔ اس طرح ایمان باللہ کے ساتھ ایمان بالرسالت لازم و ملزوم قرار پایا۔

اشاعت اسلام اور پہلی اسلامی ریاست کے قیام میں ہجرت کامیابی زینہ ثابت ہوئی، مدنی معاشرہ پوری انسانی تاریخ میں سب سے معیاری معاشرہ ثابت ہوا ۔ مدینے کے انصارکی ایثار و قربانی کا تاریخ انسانیت میں جواب نہیں ملتا۔ مواخات کے عظیم رشتے کے باوجود ریاست مدینہ کے استحکام اور ترقی کی راہ میں مختلف رکاوٹیں حائل رہیں اور قریش و دیگر عرب قبائل کے ساتھ سیاسی کشمکش کا سلسلہ جاری رہا تاہم صلح حدیبیہ کامیابی کا سنگ میل ثابت ہوئی اللہ نے اسے فتح مبین اور نصر عزیز قرار دیا، صلح حدیبیہ کا ایک کامیاب پہلو یہ تھا کہ اس صلح کے ذریعے مخالفین کے متحدہ محاذ کا ایک فریق یعنی قریش اس محاذ سے الگ ہوگیا اور معاہدے کی رو سے دس سال تک اس جنگ بندی کا پابند ہوگیا۔

اب مخالفت کے میدان میں متحدہ محاذ کا واحد فریق یہودی رہ گئے۔ پس حضورؐ نے خیبر پر لشکرکشی فرمائی اور خیبر کو فتح فرمایا، یہود کے فتنے سے فراغت کے بعد جب قریش مکہ نے صلح حدیبیہ کی خلاف ورزی کی تو اب وقت آگیا قریش کی ریشہ دوانیوں، شورشوں اور سازشوں سے بھی مکمل نجات حاصل کی جائے لہٰذا قریش کی مخالفت کا منطقی نتیجہ فتح مکہ کی صورت میں سامنے آیا ایسی پرامن فتح دنیا نے اس سے قبل یا بعد کبھی نہ دیکھی، فتح مکہ کے بعد عربوں کے جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے کی اس سے پہلے عرب یا انسانی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔

خطبہ حجۃ الوداع کے موقعے پر ایک لاکھ چوبیس ہزار فرزندان توحید کے سامنے حضورؐ نے دور جاہلیت کی ہر رسم کو ممنوع قرار دیا اور دور جاہلیت کا مکمل خاتمہ کرکے دور علم و عرفان کا آغاز فرمایا۔ یہ وہ شاہکار خطبہ ہے جسے انسانیت کا منشور اعظم قرار دیا جاتا ہے۔ اس عظیم الشان خطبے میں آپؐ نے واضح کردیا کہ جب تک اللہ کی کتاب یعنی قرآن اور میری سنت یعنی اسوہ حسنہ کو تھامے رکھو گے کبھی نہیں بھٹکو گے، رہتی دنیا تک ہر حالات کا سامنا کرنے اور مقابلہ کرنے کے لیے یہ رہنمائی کافی ہے۔

رسول اللہؐ کے ہاتھوں اللہ نے جو ہمہ گیر اورکامل انقلاب برپا فرمایا وہ صرف اور صرف نبوت کا تحفہ تھا اس لیے تاریخ انسانیت میں اس کی کوئی مثال نہیں، آپؐ خاتم النبین ہیں، آپؐ کی شریعت پہلی تمام شریعتوں کی ناسخ ہے اور آپؐ کی شریعت قیامت تک جاری رہے گی۔ آپؐ تمام جہانوں کے لیے رحمت ہیں۔ آپؐ کے تمام معجزات تمام پیغمبروں کے معجزات سے زیادہ ہیں۔ آپؐ کا سب سے بڑا معجزہ قرآن حکیم ہے جو قیامت تک باقی رہے گا کیونکہ آپؐ ہی پیغمبر آخر و اعظم ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔