وزن گھٹاؤ

وجاہت علی عباسی  اتوار 31 مارچ 2013
wabbasi@yahoo.com

[email protected]

دنیا کے کچھ سب سے مشکل کاموں میں سے ایک ہے وزن کم کرنا۔ کچھ ایسے لوگ ہیں جو زندگی میں بہت کچھ حاصل کر لیتے ہیں لیکن جب بات وزن گھٹانے کی ہو تو وہ یہاں آ کر ناکام ہو جاتے ہیں۔ ’’کنگ آف پوپ‘‘ ایلوس پر یسلے زندگی کے آخری سالوں میں لوگوں کے سامنے اس لیے نہیں آنا چاہتا تھا کیوں کہ اس کا وزن بڑھ گیا تھا اور وہ اسے کم کرنے میں پھر کبھی کامیاب نہیں ہو پایا۔

ایپل کمپنی کے کوفاؤنڈر ایفوواز نے زندگی میں بہت نمایاں کامیابی دیکھی وہ کچھ کر گئے جو ایک عام آدمی سوچ بھی نہیں سکتا لیکن اپنے تیس سالہ کیریئر میں تمام کامیابیوں کے باوجود وزن کم کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ امریکا کی سب سے مشہور خاتون اوپرا ونفری پچھلے تیس سالوں سے اپنے وزن سے پریشان ہیں کبھی ان کا وزن بہت کم ہو جاتا ہے مگر پھر کچھ دنوں میں بڑھ جاتا ہے اور یہی کہانی عموماً موٹے لوگوں کی زندگی بھر رہتی ہے۔ ہر ’’اسٹرانگ ول‘‘ وزن پر آ کر ’’ویک‘‘ ہو جاتی ہے۔

وزن کم کرنے کی چیزوں سے مارکیٹ بھری پڑی ہے۔ وہ چیزیں جو جلدی سے بغیر کسی تکلیف کے اور آسانی سے وزن کم کرنے کا وعدہ کرتی ہیں جس میں کتابیں، ڈی وی ڈی، پلز، لوشن، باڈی بیلٹس اور ان گنت چیزیں شامل ہیں جس میں سلمنگ سینٹرز، ذاتی ٹرینرز، مخصوص کھانے وغیرہ شامل ہیں۔

1992ء میں صرف امریکنز نے تیس بلین ڈالرز خرچ کیے وزن کم کرنے کی چیزوں پر۔ اس وقت امریکا ویٹ Loss کی مارکیٹ سالانہ ساٹھ بلین ڈالرز سے زیادہ کی ہے جس میں نئی نئی وزن کم کرنے کی Surgeories بھی شامل ہیں لیکن ایسی سرجریز پر صرف دس سے بارہ فیصد رقم خرچ کی جا رہی ہے بقیہ نوے فیصد رقم لوگ اپنی ذاتی کوششوں پر خرچ کرتے ہیں جس میں وہ ٹریڈ مل شامل ہیں جنھیں خریدنے کے کچھ ہی دن بعد ان پر صرف کپڑے ٹانگے جاتے ہیں یا پھر وہ  وزن کم کرنے کے بدمزہ فروزن فوڈ جنھیں کچھ عرصے بعد Expire ہو جانے کی وجہ سے فریزر سے نکال کر پھینک دیا جاتا ہے۔

برطانیہ میں 2009ء میں ویٹ Loss فوڈز پر نو سو ملین پاؤنڈز یعنی 1.4 بلین ڈالرز خرچ کیے گئے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ انسان جو چاند پر پہنچ گیا، کے ٹو چڑھ گیا، مشکل وقت میں کسی جگہ پھنس کر دس دس دن بغیر کھانے پانی رہ سکتا ہے وہ وزن کیوں کم نہیں کرپاتا؟ اس کا آسان سا جواب ہے ہماری غلط سوچ۔ وہ سوچ جو سوسائٹی میں ویٹ Loss کے لیے بنی ہوئی ہے جو کافی حد تک غلط ہے۔ ہم وزن کم کرنے کے لیے بار بار ان ہی باتوں کو دہراتے ہیں اور ہر بار ناکام ہوتے ہیں۔ جیسے دن میں ہر شخص کو آٹھ گلاس پانی پینا چاہیے یا پھر کم سے کم آٹھ گھنٹے سونا چاہیے والی تھیوری غلط ہے ویسے ہی وزن کم کرنے سے متعلق کہی جانے والی کئی باتیں بھی غلط ہیں۔

ہر انسان کے جسم پر منحصر ہے۔ بعض لوگوں کے لیے دن بھر میں تین گلاس پانی کافی اور بعض کے لیے دس گلاس بھی نہیں اس طرح کچھ لوگوں کے لیے پانچ گھنٹے کی نیند کافی ہے اور کچھ کے لیے آٹھ یا دس گھنٹے کی۔ اس بات کو سائنس ثابت کر چکی ہے لیکن آٹھ گلاس پانی اور آٹھ گھنٹے کی نیند ہونی چاہیے یہ ہر شخص جانتا اور مانتا ہے۔ وہ غلط باتیں جنھیں ہم وزن گھٹانے کے لیے صحیح مانتے ہیں وہ کچھ یوں ہیں۔

وزن کم کرنے کے لیے Low Fat یا پھر No fat diet ہونی چاہیے۔ سائنس کہتی ہے کہ انسان کے جسم میں انرجی کے لیے Fat لازمی ہے۔ یہاں تک کہ آپ جو کیلوریز لیتے ہیں ان میں تیس فیصد Fat سے آنی چاہیے کیوں کہ جسم کو انرجی چاہیے تا کہ وہ ٹشوز کو مضبوط رکھے اور وٹامنز کو جذب کرنے میں مدد کرے۔ عام حالات میں خواتین کو ستر گرام اور مردوں کو دن میں پچانوے گرام چربی کی ضرورت ہوتی ہے۔

چربی یا فیٹ کو غذا میں سے مکمل طور پر نکال دینا نقصان دہ ہے۔ بھوکے رہنے سے انسان تیزی سے وزن کم کرتا ہے ایسا بہت سے لوگوں کا ماننا ہے لیکن بھوکے رہنے کی وجہ سے باڈی انرجی حاصل کرنے کے لیے مسلز اور دوسرے ٹشوز کا استعمال کرتی ہے اور نتیجے میں آپ صرف کمزور ہوتے جاتے ہیں۔ وزن گھٹانے کے عمل کو ایک لمبے عرصے میں تقسیم کرنے سے جسم میں چربی کم اسٹور ہوتی ہے لیکن تیزی سے وزن کم کرنے والی ڈائیٹ انسان کو صرف نقصان پہنچاتی ہے وزن کم کرنے میں مدد نہیں کرتی۔

ایک روایت یہ بھی ہے کہ رات کے کھانے سے انسان زیادہ موٹا ہوتا ہے، کئی لوگ اسی لیے رات کے سات آٹھ بجے کے بعد کچھ نہیں کھاتے لیکن ایک نئی تحقیق کے مطابق اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کیلوریز کس وقت لے رہے ہیں، آپ بھاری لنچ کریں یا ڈنر، اس سے فرق نہیں پڑتا۔ فرق پڑتا ہے تو اس سے کہ چوبیس گھنٹوں میں آپ نے کتنی کیلوریز جذب کیں۔ میٹھا کھانے سے وزن تیزی سے بڑھتا ہے۔ یہ بھی بالکل غلط ہے۔ انسان کو عام کیلوریز سے بڑھ کر ساڑھے تین ہزار کیلوریز کھانی ہوتی ہیں۔ ایک پاؤنڈ وزن بڑھانے کے لیے لیکن اکثر لوگ ایک گلاب جامن یا ایک چاکلیٹ کا ٹکڑا کھا کر سوچ لیتے ہیں کہ ان کی ڈائیٹ خراب ہو چکی ہے ان کی کئی دن کی محنت پر پانی پھر گیا ہے۔

کئی درجن ڈاکومنٹریز دیکھ کر اور ریسرچ پیپرز پڑھ کر ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ وزن کم کرنا ایک کرکٹ میچ کی طرح جو آپ کو روز کھیلنا ہے اور اس میں اپنی بہترین کارکردگی دکھانی ہے۔ وزن کم کرنے کا صرف اور صرف ایک طریقہ ہے جسے سائنسی زبان میں Calorie Deficit کہتے ہیں جس کا آسان زبان میں مطلب ہے جتنی کیلوریز آپ دن میں لیتے ہیں اس سے زیادہ جلانا۔ اگر آپ دن میں پچیس سو کیلوریز لیتے ہیں اور تین ہزار جلاتے ہیں تو آپ ہفتے میں ایک پاؤنڈ وزن کم کر لیں گے۔

وزن کم کرنے کے لیے آپ کو صرف اپنی غذا کا خیال رکھنا ہے سبزی، پھل اور جتنا ممکن ہے بغیر تلے، بغیر پروسٹڈ کھانے کھائیں۔ انسان کی باڈی بہت چالاک ہے اگر وہ روز تیس منٹ واک کرے تو ایک ہفتے میں اسے عادت ہو جائے گی اور وہ خود کو اس واک کے لیے ایڈجسٹ کر لے گی اور کیلوریز زیادہ Burn نہیں کرے گی۔ اس لیے جسم کو سرپرائز کرنے کے لیے اپنی ورزش کے انداز میں مستقل تبدیلی لانی چاہیے۔ سب سے ضروری بات وزن کم کرنے کے لیے کہ ’’کل‘‘ کبھی نہیں آتا۔ آدھی دنیا کل سے وزن ضرور کم کروں گا کا انتظار کرتی رہتی ہے۔ مگر وہ ’’کل‘‘ کبھی نہیں آتا۔ اسی لیے وزن کم کرنا ہے تو آج سے کریں اور اگر آپ کا ارادہ کل سے ہے اور وہ کل اتفاق سے نکلنے والے سورج کے ساتھ نہ آ پائے تو دل چھوٹا نہ کیجیے گا۔ آپ کی اس ناکامی میں ایفوواز اور اوپرا ونفری جیسے کامیاب لوگ شامل ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔